وہ جو لکھتی ہے شعروں میں ردھم آ جاتا ہے


سیما عباسی سندھی زبان کی شاعرہ، افسانہ نگار، کالم نویس ہیں مگر اس کی اردو شاعری بھی کمال کی ہے۔ اس کی اردو شاعری میں روانی دریا جیسی اور تخیل میں جنبش سمندر کی لہروں جیسی ہوتی ہے۔ ایک سندھی شاعر کا اردو میں غزل جیسی کلاسک، اعلی اور مشکل صنف سخن پر خوبصورت انداز میں طبع آزمائی کرنا اور معیار کو چھونا معمولی نہیں غیر معمولی بات ہے۔ اس کی غزلیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے اردو کے کسی بڑے شاعر نے لکھی ہوں۔

میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا بلکہ حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ سندھی زبان کے شعرا اردو شعر نہیں لکھتے۔ سیما عباسی واحد شاعرہ ہیں جس نے اردو کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے اور خوب مہارت سے نبھایا ہے۔ سیما عباسی کی اردو شاعری پڑھ کر یقین ہوتا ہے کہ اسے سندھی زبان اور اردو پر یکساں عبور حاصل ہے۔ ویسے بھی سندھی ادب کی پروفیسر ہوتے ہوئے اردو پڑھاتی ہیں  کہ اس نے اردو میں بھی ایم اے فرسٹ کلاس میں پاس کیا ہے۔

سیما عباسی کی اردو شاعری میں رومانٹک اظہار میں بولڈنیس اور خیالات کی خوشبو گلاب کے پھولوں کے کھیت کی خوشبو لگتی ہے۔ اس کے شعر میں بے ساختگی کی خوبی اسے اردو کے بہترین شاعروں کی صف میں شامل کرتی ہے۔ سیما عباسی کے شعر خاص طور پر غزل میں تخیل کی اڑان اسے اردو کے بہترین شاعر تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل غزل پڑھ کر اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

غزل
دیار غیر میں ہم بھی صداؤں سے مچل جاتے۔
مگر تھے کون اپنے جن کے دعووں سے پگھل جاتے
ستم گر کی حقیقت کو بتانا کام تھا میرا،
یہ تم پر منحصر ہے تم مکر جاتے سنبھل جاتے
ہمارے دل میں جو طوفاں دبائے ہم ہی بیٹھے ہیں،
اگر ان کا پتا دیتے ہزاروں دل دہل جاتے
ارے ظالم کیوں ان معصوم کلیوں کو اجاڑا ہے،
ہمی حاضر دوبارہ ہیں ہمارا دل مسل جاتے
بھری دنیا میں کوئی بھی ہمیں اپنا نہیں ملتا،
بتاؤ کس کے وعدوں پر دوبارہ پھر بہل جاتے

سیما عباسی بہت حساس تخلیق کار اور شاعرہ ہیں۔ جس معاشرے میں وہ سانس لے رہی ہیں اور جس بیباکی اور بولڈ نیس سے شعر کی صورت میں اظہار کر رہی ہیں وہ بہت کٹھن ہے مگر اس نے اظہار کا یہ کٹھن راستہ چن لیا ہے۔ اس انداز میں اظہار سے نہیں گھبراتیں۔ اس نے جس قوت مدافعت اور حوصلے سے کینسر جیسے موذی مرض کو شکست دی ہے۔ ایسی ہی بہادری سے بولڈ اظہار پر اٹھتی انگلیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ سیما عباسی سراپا تخلیق ہیں۔ وہ جب اردو میں شعر لکھتی ہے تب ایسا لگتا ہے جیسے اس کے شعروں میں ردھم آ جاتا ہے اور اس کے شعر میں تخیل کی روانی رقص کرنے لگتی ہے۔ جب خیال رقص کرنے لگتا ہے تب محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات بھی اس رقص پر جھوم اٹھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments