امن وآشتی کے سدھارتھ


لوک فنکار اور لوک گیت دراصل موسیقی اور موسیقار کا روپ نہیں بلکہ معاشرے کے امن و آشتی کے سدھارتھ گردانے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوک فنکار تھے موسیقی جن کے لئے پیشہ نہیں بلکہ ایمان اور عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ یہ لوگ علاقائی لوک داستانوں کی زندگی اور ارتقاء کا واحد ذریعہ ہوتے تھے۔ لوک داستانوں، عشقی رموز اور انقلابی استعاروں کو حیات جاوداں بخشنے والے اور امن و آشتی کو امر کرنے والے یہ سرمائے وطن آخر کیوں مر گئے؟

یہ سوال دراصل کچھ یوں ہے کہ یہ لوگ آخر کیوں مارے گئے؟ جو لوگ ہماری ثقافت کے لئے آب حیات تھے اور خود کیسے فناء ہو گئے؟ کبھی کسی دانشور، صحافی اور معلم نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ آخر یہ لوگ کیوں مارے گئے؟ ہر کسی نے ان کے زوال کی داستان زد عام کی مگر قاتل کو کیوں پس پردہ رکھا۔ آخر یہ داستان موت کیوں سیاہ کتھا کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ یہ لوگ تو دراصل عدم تشدد، بردباری اور محبت کی داستان تھے مگر پھر معاشرے نے انہیں کیوں بے یارومددگار چھوڑ دیا۔

اس سوال کی کھوج میں نکلیں تو سب سے پہلی کڑی جو ملتی ہے وہ ہے کتاب نو لوگو (No Logo) ۔ یہ کتاب دراصل آبگینہ ہے اس معاشی جنگ کا جس میں ایسے سارے لوک فنکار، دستکار اور ہنرمند مارے گئے جو کبھی آواز ہوا کرتے تھے اس حیات کی جس کی ابتدا محبت اور اختتام امن اور شخصی وقار ہوا کرتا تھا۔ جو دیس اور دیس واسیوں کے لئے امن اور استحکام کا نغمہ خواں تھے۔ اس کتاب کے پہلے حصے جس کا عنوان ہے No Space میں مصنف لکھتا ہے کہ کس طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی برانڈنگ کو مضبوط کرنے کے لئے سکولوں اور کالجوں میں اپنے اربوں روپے کے اشتہاری سفر کا آغاز کیا تو ان کو برانڈنگ کے لئے ایسے ایمبیسڈر چاہیے تھے جو ان کے برانڈ کا پرچار کریں۔ انہوں نے مشہور مشہور فلم سٹار، کھلاڑی اور موسیقار کا انتخاب کیے اور اب ان کی برانڈنگ کے لئے ایڈ سپیشلسٹ کمپنیاں وجود میں آئیں جو ان کی مشہوریاں بنایا کرتی تھی۔

کتاب کا دوسرا حصہ No choice ہے جس میں مصنف لکھتا ہے کہ لوکل مال اور لوکل دستکاری کو راستے سے ہٹانے کے لئے انہیں لوک ورثے اور لوک ثقافت کو اپنی موت اپ مارنا تھا اور اس لوک ورثے کے امین یہ لوک فنکار تھے جنہوں نے لوک دستکاری اور ثقافت کا گلی کوچے پرچا کیا مگر اس کارپوریٹ سیکٹر کے پاس اربوں ڈالر تھے جوں جوں میڈیا پھیلتا گیا اچکن کی قمیض کی جگہ Nike کی شرٹ، دیسی کھسے کی جگہ Bata کے بوٹ اور عارف لوہار کی جگنی، پٹھانے خان کی ڈوھڑے اور علن فقیر کی روباہی کی جگہ جسٹ ان بیبر کا As Long as You Love Me، ابرار الحق کا آ جاتیں بہہ جا سائکل تیں، اور عاطف اسلم کا جینے لگا ہوں چھانے لگا۔ منظور درزی کی سلی ہوئی قمیض سے Nike کی شرٹ، اللہ وسائے موچی کی چپل کی جگہ service کے سینڈل چلنے لگے یوں جب عارف لوہار، پٹھانہ خان، علن فقیر اور بلیدی ہمارے نونہالوں کے خیالات سے نکلے تو پھر لوکل صنعت بھی زندگی کی ہے شام آخری آخری پر آ گئی۔

پھر یوں ہوا کہ امپورٹڈ اور برینڈڈ برینڈڈ کی دوڑ لگی اور ہمارے نونہال اس میں مگن ہوتے چلے گئے اور export کی جگہ import لیتی گئی۔ پھر ہمارا trade balance سجدہ ریز ہوتے ہوتے سرنگوں ہو گیا اور ہمارا ملک عالمی اداروں کے ہاتھوں میدان میں اترے بغیر جنگ ہارنے لگا تب ہم نے اپنی خارجہ پالیسی سے ہاتھ دھویا پھر ہم نے ہر دہشت سے واسطہ لگایا اور WTO کے بعد پھر تو ہم اس آستین کے سانپ کو صرف پالتے رہے۔

اب یا تو بھیک مانگ مانگ کر چلتے رہیں یا پھر اپنے دستکار کو زندہ کریں اور دستکار کی زندگی پاکستان کی زندگی ہے اور یہ زندگی نونہالان وطن کے ہاتھ میں ہے اور اس زندگی کو جلا عارف لوہار۔ پیار والا دکھڑا کسے نوں نہی سنڑیندا۔ پٹھانڑے خان۔ میڈا عشق وی توں اور علن فقیر او لطیفنڑ یار وے۔ کے سلوگن کے ساتھ مل سکتی ہے اور علمی اور تحقیقی میدان میں جامعات اور ان کے فارغ التحصیل طلباء کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان میں انٹرپرینیورشپ کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔ اور ہر گاؤں کو ایک مثالی گاؤں بنا کر خود کفیل بنانا ہو گا تاکہ لوگ شہروں کی طرف ہجرت کرنے سے گریز کریں۔ ایک تو پاکستان اربن کلائمیٹ اور ماحولیاتی مسائل کے تدارک کی جامع منصوبہ بندی تلاش کر سکے گا اور دوسری طرف امپورٹڈ اور برانڈڈ کلچر سے آزاد ہو کر اپنے بیلنس آف ٹریڈ میں بھی توازن پیدا کرسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments