کیا پانی کی بیٹریاں شفاف توانائی کی عالمی ضرورت پوری کر سکتی ہیں؟


مشی گن میں واقع ایک تالاب جو برقی بیٹری کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی — موبائل فون سے لے کر موٹرگاڑیوں اور ہزاروں دوسرے آلات میں لیتھیم کی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں، مگر بیٹریوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو دو تالابوں کو جوڑ کر بنائی جاتی ہے جس سے بیک وقت لاکھوں گھروں اور سینکڑوں کارخانوں کی ضروریات بیک وقت پوری کی جا سکتی ہیں۔پانی کی بیٹریوں کا تصور سب سے پہلے سوئٹزرلینڈ کے سائنس دانوں نے 1930 کے عشرے میں پیش کیا تھاجس پر آنے والے عشروں میں کام شروع ہوا۔ اس وقت دنیا بھر میں کئی ایسی بیٹریاں کام کر رہی ہیں اور درجنوں کی تعمیر اور منصوبہ بندی جاری ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ پانی کی بیٹری کیا ہوتی ہے اور کس طرح کام کرتی ہے۔

دنیا اس وقت تیزی سے قابل تجدید اور شفاف توانائی پر منتقل ہونے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ آب و ہوا کی تبدیلی اور گوبل وارمنگ کے عمل کے پھیلاؤ کونہ صرف روکا جا سکے بلکہ کرہ ارض کے قدرتی ماحول کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح پر واپس لایا جا سکے۔

زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے سے فطری توازن میں خلل پڑ رہا ہے۔ موسم نامہربان ہو رہے ہیں۔ گلیشیئر تیزی سے پگھل اور سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، جس سے حیات کی کئی اقسام کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ سائنس دانواں کہنا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک یہ دنیا انسانوں کے لیے ناقابل رہائش ہو جائے گی۔

مشی گن کی جھیل کا شمار دنیا کی سب۔ سے بڑی بجلی کی بیٹری کے طور پر ہوتا ہے۔ پانی کے زیریں اور بالا ذخائر میں پانی کے بہاؤ کے ذریعے بجلی پیدا کر کے 16 لاکھ گھروں کی توانائی کی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں۔

آب و ہوا میں تبدیلی کا سب سے بڑا سبب کاربن گیسوں کا بڑھتا ہوا اخراج ہے۔ ان گیسوں کی زیادہ تر وجہ معدنی ایندھن یعنی پیٹرول اور اس کی مصنوعات، قدرتی گیس، کوئلہ اور لکڑی کا استعمال ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم توانائی کا رخ معدنی ذرائع سے قابل تجدید اور ماحول دوست ذرائع کی جانب موڑ دیں تو کاربن گیسوں کا اخراج رک جائے گا اور گلوبل وارمنگ کی سطح میں بتدریج کمی آنا شروع ہو جائے گی۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ معدنی ایندھن کے متبادل سورج، ہوا اور پانی ہیں جن سے بجلی حاصل کی جا سکتی ہے اور اسے ان تمام شعبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں اس وقت معدنی ایندھن استعمال ہو رہا ہے۔

مگر ماحول دوست توانائی کے ذرائع ہر وقت میسر نہیں ہوتے۔ شام ہوتے ہی سورج چھپ جاتا ہے اور کبھی آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہوا بھی ہر وقت نہیں چلتی اور جب سورج کی روشنی نہ ہو تو شمسی توانائی کے پینلز کام نہیں کرتے اور ہوا رکی ہوئی ہو تو ہوائی چکیاں بجلی پیدا نہیں کرتیں۔ اسی طرح ڈیموں میں پانی کی سطح گرنے سے بجلی کی فراہمی کم ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایسے میں کیا کیا جائے؟

جمہوریہ چیک میں واقع بیڑی پلانٹ کا ہائیڈرو ٹربائین۔

سائنس دانوں نے اس کا حل نکالا ہے پانی کی بیٹریاں، جو ایسے دو چھوٹے تالابوں کی صورت میں ہوتی ہیں جن کی اونچائی میں کافی فرق ہوتا ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ پانی کو بلندی سے گرانے سے توانائی پیدا ہوتی ہے جس سے ٹربائن چلائے جا سکتے ہیں۔ یہ ٹربائن جنریٹر کو حرکت دیتے ہیں جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اکثر ڈیموں پر پانی کے آگے بند باندھ کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ جسے گرڈ کے ذریعے بجلی کی ترسیل کے وسیع نیٹ ورک سے ملا دیا جاتا ہے۔ تاہم چھوٹے تالابوں کا طریقہ اس سے مختلف ہے۔ ان سے مقامی ضرورت کے لیے بجلی پیدا کی جاتی ہے، جس کی ایک مثال امریکی ریاست مشی گن میں واقع ایک چھوٹی جھیل ہے جہاں نصب یہ نظام بوقت ضرورت علاقے کے 16 لاکھ گھروں کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس سسٹم میں زیریں علاقے میں واقع تالاب سے پانی کو خصوصی پمپوں کے ذریعے بلندی پر واقع تالاب میں لایا جاتا ہے اور اسے دوبارہ زیریں تالاب میں گرا کر ٹربائین چلائے جاتے ہیں۔ اس سسٹم کے لیے پن بجلی گھروں کی طرح ڈیموں میں بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دو چھوٹے تالابوں سے پانی ایک سے دوسرے تالاب میں مسلسل منتقل کر کے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

سائنس دانوں نے اس نظام کو بیٹری کا نام دیا ہے۔ اس سسٹم میں پانی کے تالابوں کو بجلی کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اس سسٹم میں پانی کو نچلے تالاب سے پائپوں کے ذریعے اوپر کے تالاب میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ توانائی سورج یا ہوا سے حاصل کی جاتی ہے۔ گویا دن بھر شمسی پینلز اور ہوائی چکیاں گرڈ اسٹیشن کو بجلی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس “بیٹری سسٹم” کو بھی برقی رو مہیا کرتی ہیں جس کی مدد سے زیریں تالاب کا پانی اوپر والے تالاب میں پمپ کر دیا جاتا ہے۔ رات ہونے یا ہوا رکنے پر بجلی کی فراہمی کا یہ ذریعہ بند ہو جاتا ہے اس موقع پر بجلی کی ترسیل مسلسل جاری رکھنے کے لیے بلندی پر واقع تالاب سے زیریں تالاب کی جانب پانی کا بہاؤ کھول دیا جاتا ہے جس سے ٹربائن بجلی پیدا کرنا شروع کر دیتی ہے اور بلا روک ٹوک ماحول دوست توانائی کی فراہمی جاری رہتی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی بیٹری کے نظام کی وضاحت اس نقشے سے کی گئی ہے۔

امریکہ میں اس طرح کی 43 بیٹریاں موجود ہیں جن سے 22 گیگا واٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے۔ مشی گن کا یہ پلانٹ 1995 سے کام کر رہا ہے جب کہ 90 سے زیادہ مقامات کی نشاندہی ہو چکی ہے جہاں مزید پلانٹس بنائے جا سکتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس وقت دنیا بھرمیں ایسے 60 پلانٹس کی تعمیر جاری ہے جو زیادہ تر یورپ، چین، جاپان اور بھارت میں ہیں۔

پانی کی بیٹریاں بنانے کے لیے مخصوص قسم کی زمین درکار ہوتی ہے جہاں پانی کے دونوں ذخائر کے درمیان بلندی کا فرق زیادہ ہو تاکہ پانی کے بہاؤ میں اتنی قوت پیدا ہو سکے جس سے ٹربائن چلائے جا سکیں۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے انجنیئرز نے کمپیوٹر کے نقشوں کی مدد سے دنیا بھر میں چھ لاکھ سے زیادہ ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں تالابوں کا بیٹری سسٹم قائم کیا جا سکتا ہے جن میں سے 32 ہزار سے زیادہ مقامات امریکہ میں ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی مدد سے اس سے 100 گنا زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جتنی کہ ماحول دوست توانائی کے نیٹ ورک کے لیے درکار ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments