بولی کا دودھ


ایک دوست جو ٹیکسی چلاتے ہیں انہوں نے ذکر کیا کہ ایک دفعہ انھوں نے کسی مسافر کو اٹھایا اور دوران سفر اس سے بات چیت کرنے کا موقع ملا اور ادھر ادھر کی باتیں چھڑ گئیں۔ اس کو میں نے بتایا کہ میں ایک مسلمان ہوں اور ایک خدا پر یقین رکھتا ہوں۔ کیونکہ لوگوں کے مسلمانوں کے متعلق یہی تاثرات ہوتے ہیں کہ تمام کے تمام دہشت گرد ہیں اور انسانی جان کی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی مگر میں نے اس کو بتایا کہ اسلام تو کہتا ہے کہ جس نے ایک انسان کا خون کیا گویا اس نے انسانیت کا خون کر دیا اور جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے انسانیت کی زندگی بچائی۔

دوست نے ذکر کیا کہ مسافر نے یہ سننے کے فوراً بعد ہی ایک عجیب سا سوال کر دیا اور مجھے اس کی کچھ سمجھ نہیں آئی اور میں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ اس مسافر نے یہ سوال کیا تھا کہ میرا سٹیم سیل ریسرچ کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ مگر میری کچھ سمجھ میں بات نہیں آئی میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور بات رفع دفع ہو گئی۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ اصل میں وہ آپ سے انسانی حمل کہ ضائع کرنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا کے اسلامی تعلیم اس کے متعلق کیا کہتی ہے؟ (سٹیم سیل ریسرچ کا اسقاط حمل سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ جنین کے علاوہ سٹیم سیل بالغ انسانوں سے بھی لیے جا سکتے ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ سٹیم سیل لینے کے نتیجے میں جنین ضائع ہو جائے۔ کیلیوفورنیا سٹیم سیل ایجنسی کی ویب سائٹ پر موجود مضمون سے اس لنک پر کلک کر کے مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں: مدیر)

دراصل وہ ایک قسم کا مولوی تھا مذہب عیسائیت کے بھی کچھ ایسے فرقے ہیں جو بہت شدت پسند ہیں اور ان کی سخت تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ اس لیے وہ آپ سے اسلام کا موقف پوچھ رہا تھا اور آپ کے لیے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پیش کرنے کا ایک سنہری موقع تھا۔ اصل میں یہ لوگ 1970 کی دہائی سے اب تک امریکہ کی سپریم کورٹ میں جا کر لڑ رہے ہیں کہ ابورشن (اسقاط حمل) کو بند کر دیا جائے اور اس عمل کو ناجائز قرار دے دیا جائے۔

حمل چاہے ایک دن کا ہو یا چند ماہ کا ہو یا کسی ریپ کی وجہ سے بھی تشکیل میں آیا ہو اور ماں باپ کو اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ حمل کو ضائع کر دیں یا ضائع کروا دیں۔ بلکہ وہ ڈاکٹرز اور نرسیں جو اس قسم کے عمل میں کسی کی مدد فراہم کریں تو ان کو بھی سخت سزا ہونی چاہیے۔ مگر ان کی تمام کوششیں ناکام جا رہی ہیں اور وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ وہ اپنی تعلیم میں اس قدر شدت پسندی اختیار کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ کسی میڈیکل پیچیدگی کی حالت میں بھی حمل ضائع کرنا نا جائز ہے۔

بچہ مردار پیدا ہو یا کسی جسمانی کمزوری سے پیدا ہو اور چاہے ماں کی زندگی خطرے میں ہو کسی بھی صورت میں حمل ضائع کرنا جائز نہیں ہے۔ ماں اس حالت میں میں فوت ہو جائے تو وہ شہید کہلائے گی مگر اس کو حمل ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان کا ماننا ہے کہ جیسے ہی انسانی سپرم اندر جاتا ہے تو پیدائش شروع ہوجاتی ہے اور اس کو ضائع کرنا ایک گناہ ہے۔ اسلام تو اس بارے میں میں بہت ہی مکمل طریقے سے وضاحت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ انسانی نطفہ سے لے کر خون کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے اور کب اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور وہ ایک زندہ انسان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

اتنی وضاحت سے انسانی پیدائش کے بارے میں قرآن جو بتاتا ہے اس کو پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سائنس نے تو یہ علم اب حاصل کیا ہے۔ اسلامی تعلیمات زندگی کے بچانے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ ماں کی زندگی نہ پیدا ہوئے بچے سے بہرحال افضل ہے اور اس حوالے سے ماں اور بچے کی زندگی میں سے ماں کی زندگی ہمیشہ آگے رہے گی۔ اولاد کے حصول کے لیے ماں کی زندگی داؤ پر لگانا اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے قابل قبول نہیں۔ لیکن ناجائز طور پر اسقاط حمل کا عمل بھی ایک جان کے قتل کے برابر ہے۔

اسلام میانہ روی کا مذہب ہے انتہا پسندی کی کوئی گنجائش اس میں نہیں۔ سٹیم سیل اصل میں مصنوعی سیل لیب میں پیدا کرنے کا عمل ہے۔ یہ خدا تعالی کی قدرت ہے کہ انسان ہر دنیاوی چیز بنا لیتا ہے اور بہت سی چیزوں کی نقل بھی بنا لیتا ہے مگر انسانی اعضاء اور انسانی سیلز کی نقل نہیں بنا پا رہا اور نا ہی بنا پائے گا۔ جیسے انسانی خون ہے اس کا رد بدل نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ کسی دوسرے کا خون لے کر کسی دوسرے انسان میں ڈال دیا جائے۔

اسی طرح انسانی اعضاء ہیں جیسے دل کلیجہ اور گردے۔ ان کو پلاسٹک یا ربر کا نہیں بنایا جا سکتا۔ اسی طرح انسان کے اندر جو ایک کارخانہ خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے جس میں کروڑوں بلکہ لامتناہی سیلز ہیں ان کی نقل نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال نقل کی بھی جائے اور پلاسٹک کے بھی بنا لیے جائیں لیکن وہ چیز نہیں ہوتی ہے جو قدرت نے بنائی ہے اور اس میں بے انتہا کمزوریاں اور خامیاں ہوں گی۔ مگر کسی دوسرے انسان کی چیز نکال کر کسی دوسرے میں ڈال دینا بہت موثر ہوتا ہے اور بہت دفعہ کامیابی نصیب ہو جاتی ہے۔

اسی لئے انسان کے مرنے کے بعد ان کے اعضاء کو نکال لینے کی وصیت بہت سارے انسان کرتے ہیں تاکہ وہ کسی دوسرے کے کام آ سکیں۔ اسی طرح اگر کسی انسان کی جلد جل جائے اور اس کے اوپر کسی اور انسان کی چمڑی لے کر اس دوسرے انسان کی جلی ہوئی جگہ پر لپیٹ دی جائے تو وہ اس قدر جلد اس انسان کے جسم کا حصہ بن جاتی ہے اور پتہ بھی نہیں لگتا کہ یہاں کبھی وہ جلا تھا۔ کیوں کہ اس میں میں اصل انسانی سیل موجود ہوتے ہیں۔ ہمیشہ جوان رہنے کا شوق سب کو ہوتا ہے اور اس کے حصول کی خاطر بہت کچھ کرتے ہیں۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کے لوگ کیا کیا ٹوٹکے نہیں کرتے رہے ہیں جوانی کو حاصل کرنے کی خاطر۔ آج کل کے جدید دور میں بھی لوگ ہر قسم کی کوشش کرتے ہیں۔ ہالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بہت بھاری رقمیں ادا کر کے ان کریموں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو سدا بہار جوان رکھے یا پھر سرجریاں کروا لیتے ہیں اپنے آپ کو جوان رکھنے کی خاطر۔ بچے کی پیدائش کے بعد جو فالتو مواد ایک ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے وہ ان زندہ سیلز سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

کچھ لوگ اس مواد کو ہسپتالوں سے چوری کر کہ ان کی کریم بناتے ہیں اور اس کو بلیک مارکیٹ میں بہت ہی مہنگی قیمت پر بیچتے ہیں۔ یہ عمل ناجائز ہے اس لیے یہ بلیک مارکیٹ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں جب اپنے بچے کو جنم دیتی ہے اور وہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے تو وہ دودھ اس کے لیے اس قدر مفید ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور اس دودھ کا رد بدل انسان بنا ہی نہیں سکتا اور وہ دودھ ایک مکمل غذا ہے اس بچے کی نشو و نما کے لئے۔

جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ماں کے دودھ کی تاثیر بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح جب گائے اپنے بچے کو جنم دیتی ہے اور اس کے بعد وہ پہلی دفعہ دودھ دیتی ہے وہ دودھ ان پیدائشی سیلز سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ میڈیکل میں اس کو وائٹ گولڈ یعنی سفید سونا کہتے ہیں۔ جس کے بہ انتہا فوائد ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک لمبا مضمون ہے ہے کہ اگر میڈیکل کے حوالے سے بات شروع ہو جائے تو بہت لمبا مضمون ہو جائے گا لیکن بات یہیں پر ختم کرتے ہیں کہ اسلام اتنا سخت نہیں ہے کہ ماں کی زندگی خطرے میں ہو اور اس کو حمل ضائع کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اور نا ہی اسلام اجازت دیتا ہے کے بے فضول میں حمل ضائع کرواتے رہیں۔

باقی جہاں تک سٹیم سیل ریسرچ کے بارے میں مصنوعی سیل کو تیار کر باقی کو ضائع کردینے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں مگر کہاں تک انسان کے فائدے کے لیے اور کس نوعیت اور میعاد تک اجازت دی بھی جانی چاہیے معلوم نہیں۔ بہرحال اس میں کینسر اور دوسری بیماریوں کا بہت ہی موثر علاج دریافت ہوا ہے اور کافی مثبت فوائد نظر آرہے ہیں۔ انسان کی جان بچانے کی خاطر اور فائدے کے لیے اگر محدود طریقے تک رہا جائے تو ٹھیک ہو سکتا ہے مگر سائنسدان اس پر رکتے نہیں ہیں اور خدا کی تخلیق سے کھیلنے لگ جاتے ہیں جس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ اسلام انسانی فائدہ کے لئے سائنسی ترقی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا ہے چاہے وہ اعضاء کی پیوندکاری ہو یا شفاعی سرجری۔ مگر قوانین قدرت اور تخلیقات قدرت میں ناجائز دخل اندازی ہمیشہ انسانیت کو نقصان پہنچائے گی۔

مسعود اشرف
Latest posts by مسعود اشرف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments