اصول بحث اور عقیدہ ’عمرانی‘


ایک بار میرے ایک عزیز دوست اور استاد مؤقر عامر حبیب نے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سابقہ بیوروکریٹ، جو غالباً بی بی شہید کے ایڈیشنل سیکرٹری (پرسنل) بھی رہے، اقبال جعفر سے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اولین سالوں کے دوران ایم کیو ایم کی سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کیا؛ ’الطاف حسین کی بات کی سمجھ کچھ آتی نہیں تو کیسے اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس کے سیاسی پیروکار بنے ہوئے ہیں؟‘ جعفر صاحب نے ازراہ تفنن جوب دیا؛ ’الطاف حسین کی بات سمجھنے کے لئے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ‘ گو کہ بات میں چہل کا عنصر غالب تھا مگر غمزہ اس بات کا تھا کہ اگر کوئی طرز سیاست یا شخصیت عقیدہ کی حدوں کو چھونے لگے تو حقیقتاً بات اسی وقت سمجھ آئے گی جب اس پر ایمان لایا جائے گا اور دلیل کی گنجائش کو رد کر دیا جائے گا۔

کوئی دو ایک روز قبل حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب، جو یہاں بطور طالب علم آئے ہوئے ہیں، ان کی کال آئی اور چہل قدمی کی دعوت دی گئی۔ جنگل میں مٹر گشتی کے دوران گفتگو کا دھارا ملکی سیاست خاص کر عمران خان کے گرد گھومنے لگا۔ اس گفتگو میں موصوف ’عمران خان نے ہمیں شعور دیا ہے، وہ ملک کو خودمختاری اور معاشی ترقی کی جانب لے جا رہا تھا، اس نے اسلام کا بول بالا کیا پوری دنیا میں‘ جیسے جملوں کی گردان کرتے رہے لیکن جب بھی راقم نے ان سے اس بیان کے بارے میں کوئی دلیل پیش کرنے کو کہا تو اس بات کو یہ ٹھپا لگا کر رد کر دیا گیا کہ آپ جیالے ہیں یا پٹواری۔

یعنی کسی انسان کو تنقید کرنے کے لئے کسی مخالف ڈبے میں بند ہونا ضروری ہے۔ جب آپ خود شاہ دولہ کے چوہے ہوں تو باقی بھی آپ کو کسی اور شاہ کے چوہے ہی نظر آئیں گے۔ اس گفتگو اور اس جیسی بہت سی مباحث یہ جاننے کے لئے کافی ہیں کہ اب عمران خان کی پیروکار کسی ’عقیدہ‘ کی حدود کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ دلیل کی کتنی بھی جاندار کیوں نہ ہو، حقائق کتنے بھی مضبوط کیوں نہ ہوں، حجت چاہے کتنی بھی منطبق ہو، یہ پیروکار ان کو سننے اور جانچنے سے گریزاں ہی رہیں گے۔ آج تمام غیرجانبدار ناقدین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ سابقہ حکومت کی کارکردگی اس کی نئی اختراع کے پیچھے مدفون ہے۔

بحث کوئی بھی ہو، چند مروجہ اصولوں کے تحت ہی ہو سکتی ہے جس میں سب سے اہم ضرورت بحث کا اصول ہے اس کے بعد معیار، کسوٹی، دلیل اور کھلے دل کے ساتھ بات سننے پر اتفاق کی باری آتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں مبصرین کے ساتھ جو سلوک ہوا، ذاتیات پر حملوں سے لے کر جسمانی ایزا رسانیاں، آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عمران خان کے حمایت کاروں نے کسی قسم کی بحث یا تعمیری تنقید کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ اصول بحث کو بری طرح سے روندا گیا۔

اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تمام مبصرین صرف اپنے اپنے سامعین وقار آئین کو ان کی منشاء کے مطابق مواد مہیا کرتے ہیں۔ اس کا کامل مظاہرہ یوٹیوب پر مختلف مبصرین اور صحافی حضرات کو دے جانے والے ’لائک‘ ۔ جہاں ’ڈسلائک‘ شاذ ہی نظر آئے گا۔ اور ’کمنٹس‘ میں بخوبی ہوتا ہے۔ کسی ایک خاص جماعت کے لوگ صرف اسی جماعت کے حامی مبصر کو سنتے اور پڑھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ عوام کی اجتماعی دانش تقسیم در تقسیم بلکہ انحطاط کا شکار نظر آتی ہے جو کسی بڑے سماجی سانحے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

جہاں بحث بہت سے مسائل کا حل پیش کرتی ہے، وہیں یہ بہت سے مسائل کو جنم بھی دیتی ہے خاص کر جب اس کے ضوابط کو پس پشت ڈالا جائے۔ اب اگر آج متحدہ حکومت کے حامی ’وتعز من تشاء وتذل من تشاء‘ کا ورد کریں یا پی ٹی آئی کے طرفدار ’نصرٌ من ٱللہ وفتحٌ قریب‘ کی تسبیح کریں تو کرنے دیں، خواہ مخواہ کسی بحث میں الجھ کر اپنے تعلقات میں بگاڑ پیدا نہ کریں۔ حق رائے کا اظہار کرنے دیں، مدلل جواب سے گریز کریں کیونکہ ہمارا معاشرہ، جو پہلے ہی سماجی تنوع میں پستی کی گہرائیوں میں اترا ہوا ہے، اس سے زیادہ تقسیم مجہول کا متحمل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments