تاریخ کے نئے زاویے – سیاست، سماج اور مذہب کے تناظر میں


قوموں کا عروج و زوال تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ عروج و زوال کیوں ہوتا ہے؟ اس کے پس منظر میں کون سے عوامل کام کرتے ہیں؟ کیا اس کو کسی ضابطے او ر قانون کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے؟ یا ہر تہذیب کا عروج اور زوال ایک خاص دائرے میں ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو مؤرخ ایک مسئلہ کی صورت اٹھاتے ہیں اور پھر اس عمل کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں۔

آرنلڈ ٹوائن بی کے مطابق :

”جب تک کسی تہذیب میں اتنی توانائی اور طاقت ہو کہ وہ اپنے اندر پیدا مسائل اور چیلنجز کو جواب دے سکے اس وقت تک وہ تہذیب زندہ رہے گی۔ اس کے نزدیک یہ کسی بھی سماج کے دانشوروں اور مفکروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چیلنجوں کو سمجھیں اور ان کا جواب دیں تاکہ اس کے نتیجے میں مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے گا۔“ ( تاریخ کے نئے زاویے )

اگر پاکستان کی بات کریں تو پاکستان پچھلے 74 سالوں میں اب تک ایک بھی ایسا دانشور یا فلسفی پیدا نہیں کر سکا جو اس سماجی ذمہ داری کو قبول کرے اور معقول حل بتا سکے، بہ جز اس کے کہ چند ایک فلسفیوں نے اسلاف کے کیے کارناموں پر بغلیں بجانے اور مغربی فلسفوں کو مسلمان کرنے کے، کچھ بھی نہیں کیا۔ اور مزید ہمارے قائم سماجی و تہذیبی نظام کو پختہ اور مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر کچھ لوگ اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں تو انہیں سماج دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے نئے خیالات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سماج ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا کہ مستحکم روایات سے انحراف کرے۔

اگر ہم مغرب سماج کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ”چیلنج اور اس کے جواب کے عمل میں وہ اب تک چاق و چوبند اور تروتازہ ہے“ ۔ ایک لحاظ سے ان کی پوزیشن اب بہت بہتر ہے کیونکہ ان کے پاس ماضی کے علم کا خزانہ بھی ہے جیسے انھوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے تلاش کر کے جمع کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں علم میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ اس کی گرفت میں ہے۔ اس کے علاوہ ایشیا اور افریقہ کے ذہین افراد مغرب و امریکہ جا رہے ہیں کیوں کہ اپنے ملکوں کے مقابلے میں انہیں وہاں کام کرنے کے زیادہ مواقع ہیں۔

اس کی وجہ سے ذہین افراد کا اجتماع مغربی تہذیب کو ایک نئی توانائی اور طاقت دے رہا ہے۔ حکمران، سیاستدان اور اہل اقتدار تاریخ سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ان کی طاقت، اثر و رسوخ اور جبر سے آزاد ہو کر ان کے چہروں سے نقاب اتار کر ان کی اصلی شکلیں لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس لیے تاریخ جو ہم تک پہنچی اس کی دو اقسام ہیں۔

1۔ ایک وہ تاریخ جو کاسہ لیس اور حاشیہ برادر مورخوں نے لکھی یا جن مورخوں کو ان کے آقاؤں نے تاریخ لکھنے پر مامور کیا۔

2۔ دوسری وہ تاریخ جو وقت نے لکھی یا پھر ان ژرف بینا مورخوں نے لکھی جو سچ لکھنے کے ساتھ ساتھ مزاحمت پسند تھے۔ یہ دوسری قسم کی تاریخ اپنے اندر گہرے راز رکھتی ہے۔ اور صحیح معنوں میں یہی تاریخ ہے۔

عموماً ہوتا ایسا ہے کہ جب اقتدار ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں آتا ہے تو اس تبدیلی کے نتیجے میں پہلی تاریخ کو ازسر نو لکھا جاتا ہے اور نیا خاندان اپنے سابق دور حکومت کی خرابیوں کو سامنے لاتا ہے تاکہ ان خرابیوں کے پس منظر میں اس کی حکومت و اقتدار کو جواز فراہم کیا جائے۔ مثلاً جب عباسی خاندان، امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کر کے طاقت میں آیا تو اس نے تاریخ کی تشکیل نو کا کام کیا۔ لہذا عباسی دور میں جو تاریخیں لکھی گئیں ان میں امیہ دور حکومت او ر اس کی خامیوں کا تذکرہ ہے۔

عہدے داروں کے مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جن میں خاص طور سے حجاج بن یوسف ہے، جو عباسی تاریخ میں بے انتہا ظالم اور جابر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ تاریخ کے اس نقطۂ نظر کا مقصد یہ تھا کہ امیہ خاندان نا جائز طور پر حکومت پر قابض تھا، اس کے خلاف عباسیوں کی بغاوت جائز تھی اور وہ صحیح وارث تھے جنہوں نے مسلمانوں کو غاصبوں سے آزاد کرا کے ان کے جو ر و ستم سے نجات دی۔ چونکہ امیہ خاندان کا خاتمہ ہو چکا تھا اس لیے ان کے حق میں لکھنے اور اور بولنے والا کوئی نہیں تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ جب مسلم مورخوں نے محمد بن قاسم کی تاریخ لکھی تو اس میں اس کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جو ایک ناہید نامی عورت کی بازیابی کے لیے راجہ داہر سے جنگ کرنے آ نکلتا ہے۔ اور 150 سال تک کے لئے حکومت کی داغ بیل بھی ڈال دیتا ہے۔ مگر غیر جانبدار مورخ لکھتے ہیں کہ ”محمد بن قاسم ایک عورت کی عصمت کو بچانے نکلا تھا اور واپسی پر اس کے جنگجو 1500 عورتوں کو لونڈیاں بنا کر لے گئے اور خود محمد بن قاسم ایک بھیانک موت مرا“ ۔ اور کچھ نے یہ بھی لکھ دیا کہ سری لنکا سے آنے والے عربوں کے تجارتی بہری جہازوں کو دیبل کے ساحل پر لوٹ لیا جاتا تھا تو ان راہزنوں کا خاتمہ کرنے کے لئے محمد بن قاسم کو بھیجا گیا تھا۔ (پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء از سبط حسن)

اس کے علاوہ 998 ء میں سبکتگین کے بیٹا سلطان محمود غزنوی 1032 ء تک ہندوستان پر سترہ حملے کرتا ہے، ان حملوں کو مسلم حکومت کی ابتداء اور غزنوی کو بت شکن مسلم بہادر جنگجو سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے سومنات کا بت محض کوئی ایک بت نہیں تھا بلکہ ایک مندر تھا۔ اس مند ر کو دس ہزار گاؤں کا نذرانہ ملتا تھا اس مندر میں سینکڑوں بت تھے جو خزانوں سے بھرے تھے۔ غزنوی نے یہ حملے محض مال غنیمت کی غرض سے کیے تھے، او ر وہ یہاں کا سارا خزانہ افغانستان لے گیا۔

ٹیپو سلیمان اپنی کتاب ”تاریخ پاکستان کے متنازع ادوار“ میں لکھتے ہیں :۔

” جب خزانہ غزنی کے ایک قلعہ میں رکھا گیا تو یہ پہاڑ بن گیا۔ جب مہمان مغربی سفیروں نے اتنے بڑے خزانے کو دیکھا تو انگشت بدنداں ہو کر بولے واقعی ہندوستان سونے کا انڈا دینے والی چڑیا ہے۔ ممکن ہے مغربیوں نے شاید اسی خزانے کو دیکھ کر ہندوستان کا رخ کیا ہو۔“

مغل حکمرانوں کا تو یہ وتیرہ رہا کہ وہ دربار میں مورخ رکھا کرتے تھے جو ان کی فتوحات اور کارناموں کو شاندار اور مبالغہ آمیز زبان میں لکھتے تھے۔ مگر جب اورنگزیب عالمگیر نے حکومت سنبھالی تو اس نے دس سال بعد حکم دیا کہ درباری مورخ کوئی تاریخ نہیں لکھیں گے۔ یہ سوال ہے کہ آخر کیوں تاریخ لکھنے پر پابندی عائد کر دی؟ کچھ مورخوں کا خیال ہے کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ درباری مورخ اس کی تعریف و توصیف کریں اور شان و شوکت کو بیان کریں۔

کیونکہ اس کے کردار میں سادگی اور عاجزی تھی۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے چونکہ اس نے اپنے بھائیوں کو قتل کر دیا تھا اور باپ کو قید میں رکھا تھا اس لئے لوگوں میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات تھے۔ لہذا وہ نہیں چاہتا تھا کہ تاریخ میں سب کچھ لکھا جائے۔ اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ تاریخ کو ختم کر دیا جائے تاکہ اس کے عہد کی کوئی دستاویز ہی نہ رہے۔

پاکستان میں تاریخ نویسی کی ابتداء بھی درباری مورخوں کی طرح ہوئی۔ ہمارے تاریخ دانوں نے حکمران طبقوں کی خوشامد میں تاریخ کو مسخ کیا چونکہ پاکستان کی تاریخ کا زیادہ عرصہ آمرانہ حکومتوں کے اقتدار میں گزرا ہے اس لئے ہر فوجی آمر کو ملک کا مسیحا اور بچانے والا کہا گیا۔ ان کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ان کی اصطلاحات کو ملک کے لئے ترقی کا باعث قرار دیا گیا۔ ہر آنے والا فوجی آمر ملک کا مصلح اور اس کو بحرانوں سے نکالنے والا نظر آتا ہے۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایک آمر کی حکومت ختم ہوتی ہے اور دوسرا اس کی جگہ آتا ہے تو اس تبدیلی کے ساتھ تاریخ میں اس کی شکل بھی بدل جاتی ہے اور بدلتے حالات کے تحت اس کا کردار دوسرے روپ میں نظر آتا ہے۔ مثلاً ایوب خان، اپنے اقتدار کے زمانہ میں ”ایشیا کے ڈیگال“ مشہور تھے۔ ان کی اصطلاحات کا ذکر ایسے ہوتا تھا جیسے انہوں نے سماج کو بدل ڈالا ہو مگر ان کے جاتے ہی ان پر الزامات کی بوچھاڑ ہو گئی کہ انھوں نے ملک کو سیاسی دوستی اور سماجی برائیوں میں گرفتار کر ڈالا تھا اور اپنے آمرانہ اقدامات سے جمہوریت کو داغدار کیا۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی تاریخ بدلتی رہتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق کے دور میں کسی اور شکل میں سامنے آتے ہیں۔ جنرل ضیاء کا دور ان کی شہادت کے بعد تاریک دور بن جاتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ اور اہل اقتدار کے درمیان گہرا رابطہ ہوتا ہے۔ اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کو کس طرح سے اس دائرہ سے نکالا جائے اور اس کا رشتہ سماج اور عوام سے جوڑا جائے کہ جو اہل اقتدار کے مقابلہ میں کمزور ہوتے ہیں؟ پاکستان کی صورتحال میں تاریخ نویسی کو آزاد فضا ملنا مشکل نظر آتی ہے کیونکہ یہاں پر کوئی خود مختیار تحقیقی ادارے ہیں ہی نہیں۔ مورخ یا تو ریاستی اداروں کے ملازم ہیں یا یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جہان حکومت کی نگرا نی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ نا ممکن ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ تاریخ لکھ سکیں۔ ریاستی دباؤ کے علاوہ پاکستانی مورخوں کے لئے نظریاتی دباؤ بھی ایک مسئلہ ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی انہوں نے زیادہ سے زیادہ اپنی ذاتی فکر اور خیالات کی ہی تبلیغ کرنی ہوتی ہے۔

اگر ہم ماضی کی تاریخ کو ایک برا خواب کہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا انسان اس نئی صدی میں ایسی تاریخ مرتب کر سکے گا جو پہلے سے بہتر ہو؟

ڈاکٹر مبارک علی اس بارے اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ :

”تاریخ انسان کی سرگرمیوں کی تاریخ ہے۔ اگر انسان اچھے کام کرے گا تو تاریخ بھی اچھی ہو گی۔ لیکن اگر انسان درندگی کا مظاہرہ کرے گا تو تاریخ بھی اس کا مظہر ہو گی۔ مگر تاریخ کے ساتھ ہوتا یہ ہے کہ مورخ کبھی قوم پرستی کے نام اور کبھی مذہب کے نام پر قوم کی غاصبانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کو صحیح ٹھہراتا ہے۔ امریکا ریڈ انڈینز کے قتل عام کو صحیح ٹھہراتا ہے، انگریز 1857 ء کی بغاوت میں اپنے مظالم کو جائز بتاتے ہیں۔ آنے والا روسی مورخ چیچنیا میں روسی کارروائیوں کو صحیح کہے گا۔ ہم مشرقی پاکستان میں اپنے عمل کو ٹھیک کہتے ہیں۔ اگرچہ صداقت کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتی ہے مگر حقیقت پر پردہ پڑا رہتا ہے۔“ ( تاریخ سے مکالمہ از ڈاکٹر مبارک علی)

بحیثیت مسلمان ہم نے مذہب کے نام پر کئی جنگیں لڑیں۔ قدیم اور جدید سامراجی قوتوں نے جنگ کی تباہ کاریوں کو ہمیشہ ایک اخلاقی جواز دینے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ لوگوں کو اس وقت تک جان دینے کے لئے تیار نہیں کیا جا سکتا جب تک ان کے سامنے کوئی اعلیٰ و ارفع مقصد نہ رکھا گیا ہو۔ اس لئے جنگ کو بامعنی او ر بامقصد بنانے کا کام دانشور او ر مذہبی رہنما کرتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جس کی بنا پر مذہب کے اختیار کو حاصل کیا گیا۔

جب کسی کے ذہن میں یہ بٹھا دیا جائے کہ ان کا مذہب سچا ہے اور دوسروں کا جھوٹا ہونے کے علاوہ خدا کا بھی دشمن ہے تو اس صورت میں یہ ان پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ حق کے لئے لڑیں اور اپنی جان دے کر خدا کی خوشنودی حاصل کریں اور اس طرح مذہب کی خاطر جان دینے والے ہر مذہب میں شہید کہلاتے ہیں۔ عہد وسطیٰ میں اس مذہبی جذبہ نے ہی حق کی جنگ کے تصور کو پیدا کیا تھا۔ اس حق کی جنگ میں یہی مذہبی جذبہ کام آیا تھا۔ مسلمانوں کی جنگوں میں بھی اسی مذہبی جذبے کی فراوانی تھی کہ جس کے تحت انہوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں۔ ہر چند اکثر جنگیں محض مال غنیمت اور حکمرانی کی غرض سے لڑی گئیں مگر اس کی کامیابی میں مذہبی جنون کا بڑا ہاتھ ہے۔

درحقیقت اس طرح کے رویے مختلف زمانوں اور ماحول میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان میں جب مسلم حکمران تھے ان کی حکومت کی بنیاد فوجی طاقت پر تھی اس سے مسلمانوں میں یہ رویہ غالب ہوا کہ جو فوجی ہے وہ ہیرو ہے۔ اور آج بھی یہ رویہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ چکا ہے۔ لیکن جو پڑھنے لکھنے والے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں اور پھر یہی وہ نقطہ تھا جس میں صاحب سیف و قلم کی اصطلاح سامنے آئی یعنی اس میں سیف کو اولیت حاصل تھی اسی چیز کو اقبال نے بھی بیان کیا اور کہا:

؎ شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

تاریخ درحقیقت آشوب آگہی ہے۔ تاریخ بعض دفعہ اس قدر خوفناک سچ کو سامنے لاتی ہے کہ اپنے سائے کو بھی دیکھیں تو گریزاں سا لگنے لگتا ہے۔ تاریخ کا یا سچائی کو پا لینا کوئی بڑا کام نہیں اصل معمہ تو یہ ہے کہ اس کو بیان کیسے کریں کیونکہ دام تو ہر موج میں ہے۔ ظاہر ہے جو شخص سچائی لکھنا چاہتا ہے وہ نہ تو کسی کے دباؤ میں آنا پسند کرتا ہے اور نہ ہی خاموش رہنا۔ اور نہ ہی جھوٹ موٹ بات کہنا چاہتا ہے کہ خود فریبی ہی سہی۔

اس لئے سچ کہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ نہ سوچے کہ اپنے سچ سے صرف طاقتور کو جھکائے، بلکہ یہ سوچے کہ اپنے عمل سے کمزور کو دھوکہ نہ دے۔ اس طرح جرات کے ساتھ نچلے طبقوں کی بات کرے اور ان کی محرومیوں کو سامنے لے کر آئے۔ مثلاً کسان مشکلات میں گھرا ہوا ہو تو اس کی مشکلوں کے حل کی بات کی جائے۔ مشینوں اور سستی کھاد کے بارے میں اسے بتایا جائے اور اسے مستقبل کی تابناکی کے بارے میں مشورہ دیا جائے۔

یا جب یہ کہا جائے کہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص تعلیم یافتہ شخص سے بہتر ہے تو اس شخص سے جرات سے یہ سوال پوچھا جائے کہ وہ کس طرح بہتر ہے؟ ہمارے معاشرے میں لوگ عمومی انصاف اور عمومی آزادی کی بات کرتے ہیں جس کے لئے انہوں نے خود کچھ نہیں کیا۔ وہ سچائی صرف اس کو جانتے ہیں جو چیز اچھی اور خوش نما لگتی ہو۔

سچائی کو لکھنے کے لئے صرف جرات ہی کافی نہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک اور چیز جو بہت ضروری ہے وہ یہ کہ سچائی کو کس طرح تلاش کیا جائے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ سچائی کو پا لینا کوئی سہل کام نہیں۔ دوسرا یہ بھی کوئی آسان کام نہیں کہ کون سا سچ بیان کیا جا سکتا ہے اور اس سے کچھ فائدہ بھی ہو۔ مثلاً یہ تو سب کو معلوم ہے کہ کس طرح دنیا کی بڑی بڑی مہذب ریاستیں وحشی قبیلوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں اور ختم ہو گئیں۔ اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ خانہ جنگی جو مہلک ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے اپنے پیچھے انتشار اور لاتعداد مسائل چھوڑ جاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سچائی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی اور سچائیاں ہیں مثلاً یہ کہ کرسی کی سطح برابر ہوتی ہے۔ اور یہ کہ بارش اوپر سے نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ اکثر شاعر اور ادیب اسی قسم کی سچائی لکھتے ہیں، اور یہی حال آرٹسٹوں کا بھی ہے۔ جو ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی تصویر بناتے ہیں اور اپنے عمل سے طاقتوروں کو ناراض نہیں کرتے اور یہی لوگ اپنی تصاویر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے یہ لوگ سچائی کو نہیں پا سکتے۔

چند سوالات جو تاریخ پوچھتی ہے۔ (ملحد کا اوور کوٹ از ڈاکٹر مبارک علی)

1۔ وہ کون تھے جس نے دیوار چین کو بنایا تھا؟ 2۔ وہ کون سا بادشاہ تھا جس نے اکیلے اپنے دم پر جنگ جیتی؟ 3۔ نوجوان سکندر نے آدھی دنیا فتح کی، کیا اس نے اکیلے فتح کی تھی؟ جب سمندری بیڑا ڈوبا تو اسپین کا فلپ رویا تھا، کیا وہ اکیلا رویا تھا جس کا تاریخ ذکر کرتی ہے۔ ؟ 5۔ جن تہذیبوں میں خدا یعنی اللہ کا ذکر نہیں، کیا وہ محض جہنم کا گھڑا بھرنے کے لئے پیدا کیے گئے؟ 6۔ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو خطۂ عرب میں پیدا نہ ہو سکے اور عرب کی جگہ یورپ میں پیدا ہو گئے؟ 7۔ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جن کو انجیل مقدس بگڑی ہوئی صورت میں ملی جبکہ وہ بعد میں پیدا ہوئے اور مسخ شدہ احکامات ماننے لگے؟ 8۔ مسلمانوں کے علاوہ ساڑھے پانچ ارب لوگ کیا صرف جہنم واصل ہونے کے لئے ہیں؟

انسانیت کا تاریخی شعور ہونے کے لئے سوالات اٹھانا ضروری ہے۔ کنفیوژن اس عمل کا ایک بنیادی جزو ہے۔ کنفیوژن سے مزید سوال جنم لیتے ہیں۔ اور اپنی سوچ پر اعتماد بڑھ جاتا ہے لیکن اپنی جستجو کو مسلسل جاری رکھنے کا نام تاریخی شعور ہے۔ اور یہ سوال کہ لبرل اسلام کی تبلیغ کیسے کر رہے ہیں یا اسلام کو کس طرح پیش کر رہے ہیں تو ان کے دو گروہ ہیں۔ ایک تو وہ ہیں کہ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کر رہے ہیں اور اسلام کو ترقی پسند نقطۂ نظر سے پیش کر رہے ہیں، جس میں بنیاد پرستی کی مذمت اور روشن خیالی کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ مگر ان لوگوں کی کتابیں یورپی زبانوں میں ہوتی ہیں۔ اور امریکہ اور یورپ میں ہی شائع ہوتی ہیں۔ اور ان کے قارئین یا تو انہیں کی طرح سے دانشور ہوتے ہیں یا وہ تعلیم یافتہ افراد جن کے مذاق کو اس موضوع سے دلچسپی ہے۔ اس لئے خیالات و افکار محدود رہتے ہیں اور عام لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔

اس کے برعکس ایسے علماء اور دانشور کم ہیں کہ جو مسلمان ملکوں میں رہتے ہوئے عربی، فارسی اور اردو میں لکھیں کہ جس کا اثر لوگوں پر ہو۔ ان زبانوں کو استعمال کرنے والے راسخ العقیدہ علماء ہوتے ہیں جن کی تحریریں لوگوں تک جاتی ہیں۔ اس لئے لبرل اسلام کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہ وقت کے ساتھ حکومتی سرپرستی میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔

کتابیات:
1۔ تاریخ کے نئے زاویے از ڈاکٹر مبارک علی
2۔ تاریخ کا سفر از ڈاکٹر مبارک علی
3۔ تاریخ سے مکالمہ از ڈاکٹر مبارک علی
4۔ ملحد کا اوورکوٹ مترجم ڈاکٹر مبارک علی
5۔ پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء از سبط حسن
6۔ من و یزداں از نیاز فتح پوری
7 تاریخ پاکستان کے متنازع ادوار از ٹیپو سلمان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments