یا منافقت تیرا ہی آسرا


سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی وقت وقت کی بات ہے کل کے دشمن دوست بن جاتے ہیں اپنے ہم چولی زہر لگنے لگتے ہیں۔ کسی نے کسی کو سڑکوں پر گھسیٹنا تھا تو کسی نے کسی کو چپڑاسی بھی نہیں رکھنا تھا، کوئی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو تھا تو کوئی کرپشن کا بے تاج بادشاہ ایسی تمام مشہور زمانہ کہاوتوں پر بحث کر کے وقت برباد کرنے اور اپنے چاہنے والوں سے متنفر ہونے کے سوا عوام کے ہاتھ کچھ نہیں لگ سکتا۔ ہماری سیاست کے دامن پر گاہے بگاہے بدزبانی اور چرب زبانی کے داغ لگتے آئے ہیں اخلاقیات کو مفادات کے لیے ذبح کیا جاتا رہا ہے مگر بدزبانی کا جو کلچر تحریک انصاف کر ذریعے متعارف ہوا وہ صرف اسی جماعت کا خاصا ہے، خدا کا شکر ہے کوئی اور جماعت اس دوڑ میں سبقت لے جانے میں کامیاب نہیں ہوئی ورنہ کون جانتا ہے اپنے سیاسی بت پوجتے عوام گلی محلوں میں خانہ جنگی ہر اتر آتے؟

خدا کی شان ہے حال ہی میں جنم لیے خودساختہ بھٹو صاحب سابقہ وزیراعظم نواز شریف کے بار بار دہرائے جانے والے اقبال کے مشہور زمانہ شعر کی ہڈی پسلی ایک کر کے اسٹبلشمنٹ سے مخاطب ہوتے ہیں کہ اگر آپ سے غلطی ہو گئی ہے تو اسے سدھارنے کا واحد حل فوری انتخابات ہیں۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا اچھوتا بیان تھا کہ پاکستان کی اب تک کی سب سے بہترین حکومت کو سازش کا آسرا لے کر گھر بھیج دیا گیا۔ حالانکہ بیرونی سازش کا بیانیہ تحریک انصاف کے اپنے قول و فعل کے بل بوتے پر ہی وینٹی لیٹر پر پڑا ہے پھر بھی کسی طرح یہ آخری دو ماہ اپنے ذہن سے محو کر لیجیے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کیسے گزرے ساڑھے تین برس؟

کتنے دعوے کتنے وعدے وفا ہوئے؟ کتنے خوابوں کو یو ٹرن کے سائن بورڈ پر واپسی کی راہ دکھائی گئی؟ آج پرواز میں کوتاہی نہ ہونے پانے اور خودمختاری کے خواہاں کتنی بار کشکول اٹھائے بھاگے دوڑے؟ سی پیک کا کیا ہوا، صنعتوں کا، معیشت کا معاشرت کا مجھے تو ہر طرف سونامی کی جھلک دکھتی ہے، مگر وہ والی سونامی نہیں جو خان صاحب دعوے کرتے ہیں، اصلی والی۔

ہاتھ میں تسبیح رولتے، یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تجھی سے مدد مانگتے ہیں سے شروع ہو کر اوئے توئے کے گیئر کے بعد پھر اک بریک لگتی ہے قرآن یہ کہتا ہے، قرآن یہ بھی کہتا ہے آپ ﷺ یہ کہتے تھے ان کا وژن یہ تھا تک درس کا مرحلہ آتا ہے پھر دینی خدمات کی گنتی ہوتی ہے ختم نبوت، یو این اسمبلی، فلاں فلاں فلاں۔ میں نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی تا کہ ہمارے بچے اسوہ حسنہ بارے جان سکیں کے بعد اچانک خطاب اک نئی روش پر چل نکلتا ہے اوئے شوباز، اوئے ڈیزل، اوئے بیماری فلاں فلاں فلاں۔ خان صاحب آپ چند دن اپنی قائم کردہ اتھارٹی میں وقت کیوں نہیں دیتے؟ ممکن ہے افاقہ ہو یا شاید نہ ہو۔

خدارا! اپنے بچوں کو اچھا استاد، ڈاکٹر، انجنیئر، صحافی حتی کہ اچھا موٹر سائیکل مکینک بنانے سے پہلے اچھا انسان بنائیے۔ کچھ بھی بننے سے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہے ورنہ انسان جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے بقول خان صاحب۔ سائیکالوجی کا علم کہتا ہے بچے کی شخصیت اس کے پہلے سات سالوں کا عکس ہوتی ہے والدین اسے انسانیت، سچائی، خوش اخلاقی سکھا پائیں تو ٹھیک ورنہ وہ ستر سال کا بھی ہو جائے تو تربیت کے خانے میں جھول واضح دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ خود کو بدلنے کی دانستہ کوششیں بھی بے ثمر رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).