سیاست، سیاسی محاذ آرائی اور قومی مفاد کا تقاضا


پاکستان کی قومی سیاست اور جمہوریت کو ایک بڑے قومی مفاہمت پر مبنی سیاست درکار ہے۔ کیونکہ اہل سیاست اور ان سے جڑے فریقین کی باہمی چپقلش یا محاذ آرائی نے ملک کو سیاسی محاذ پر آگے بڑھانے کی بجائے ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ سیاسی بداعتمادی کے کھیل میں کوئی بھی فریق ایک دوسرے کو قبول کرنے کی بجائے اپنی سیاسی من مانی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ سیاست دان ہو یا سیاسی جماعتیں ان کی باہمی محاذ آرائی نے ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور مختلف سیاسی فریقین باہمی محاذ آرائی میں اداروں کو اپنی حمایت اور مخالف میں استعمال کر رہے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اپنے داخلی محاذ پر حالات کی سنگینی کا جہاں احساس ہے وہیں وہ ان حالات کی بہتری یا درستگی میں خود بھی سوچ و بچار کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیصلہ ساز یا سیاسی فریقین میں بنیادی نقطہ یہ ہی زیر بحث ہے کہ ہم کیسے موجودہ حالات سے باہر نکل سکتے ہیں اور اس کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔

عمران خان حکومت کی تبدیلی سے یہ جو نقطہ نکالا جا رہا تھا کہ حالات بہتری کی طرف بڑھیں گے اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کا امکان بھی پیدا ہو گا، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد جو نئی حکومت سامنے آئی ہے اس کے سامنے بھی بڑے بڑے سیاسی چیلنجز موجود ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی و معاشی محاذ پر گہری بارودی سرنگیں ہیں جن کا حل ایک بڑے باہمی سیاسی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں بنایا جا سکے گا۔

جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ملک کو موجودہ حالات میں معاشی سنگینی کا بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے ”میثاق معیشت“ کو ہر صورت ممکن بنانا ہو گا۔ مگر اہم نقطہ یہ ہے کہ کیا ”میثاق معیشت“ کسی سیاسی تنہائی میں ممکن ہو سکے گا یا کیا ملکی سطح پر سیاسی استحکام کسی بڑی سیاسی محاذ آرائی کے خاتمہ کے بغیر ممکن ہو سکے گا، تو جواب یقینی طور پر نفی میں ہو گا۔ کیونکہ سیاسی استحکام کا راستہ ہی معاشی استحکام کو ضمانت دے سکتا ہے۔ اس لیے سیاسی و معاشی مسائل کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں دیکھنے کی بجائے ان میں کامیابی کے لیے مشترکہ طور پر ایک بڑے پیمانے پر سیاسی و معاشی حکمت عملی درکار ہے۔

طاقت کے مراکز سمیت سیاسی فریقین یا ریاستی و حکومتی سطح پر جو لوگ بھی یہ منطق رکھتے ہیں کہ قومی مسائل کو موجود درپیش چیلنجز کے لیے ہمیں طاقت کا استعمال کرنا ہو گا۔ جو لوگ بھی یا حزب اختلاف سیاسی محاذ آرائی کو طول دیتے ہیں یا سیاسی ڈیڈ لاک کو پیدا کرتے ہیں تو ہمیں ریاستی رٹ کی مدد سے مقابلہ کر کے ان کو ختم یا کمزور کرنا چاہیے۔ کچھ لوگوں نے فیصلہ ساز فریقین کو یہ ہی مشورہ دیا ہے کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی سیاسی مزاحمت کو طاقت کی بنیاد پر دیوار سے لگا کر ان کی سیاسی بے دخلی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے، درست حکمت عملی نہیں ہوگی اور اس کا ردعمل ہر محاذ پر منفی پڑے گا۔

عمران خان فوری طور پر نئے انتخابات کے حامی ہیں۔ وہ اور ان کی جماعت قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکی ہے اور شنید یہ ہی ہے کہ آنے والے دنوں میں صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفے دیے جا سکتے ہیں۔ جو لوگ بھی فیصلہ ساز افراد یا اداروں کی جانب سے عمران خان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ حالات کو بند گلی میں نہ دھکیلیں اور نہ ہی جلد بازی میں کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کریں جو ریاست کے لیے نئے مسائل پیدا کرے۔ مگر اس کے جواب میں عمران خان یہ ہی منطق دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں ریاستی و سیاسی ریڈ لائن سے باہر نہیں نکلیں گے مگر فیصلہ ساز ادارے بھی فوری انتخابات کا راستہ اختیار کریں۔

یہ بات ہمیں تسلیم کرنی ہوگی کہ موجودہ سیاسی بحران کا ایک بڑا منفی نتیجہ بڑی تیزی سے ایک بڑی سیاسی تقسیم کا سبب بن رہا ہے۔ ریاستی سطح پر موجود اداروں بشمول سیاسی، انتظامی و قانونی اداروں سمیت سول سوسائٹی، اہل دانش، میڈیا اور علمی و فکری محاذ پر سیاسی حالات مختلف فریقین کی حمایت اور مخالفت نے معاشرتی سطح پر ایک گہری تقسیم پیدا کردی ہے۔ سیاسی تبدیلی کے عمل کو بھی ایک بڑے سیاسی اسکرپٹ کی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے اور اس کا ردعمل قومی سطح پر مختلف سوالات کی صورت میں جنم لے رہا ہے۔

اس تقسیم نے سوشل میڈیا سمیت تمام محاذوں پر عملی طور پر محاذ آرائی، تلخیوں، الزام تراشیوں، اداروں کی مداخلتوں، لعن طعن، و دشنام ترازیوں کو بڑی طاقت دے کر ملک کے داخلی ماحول کو اور زیادہ مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سیاست دان چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف کی سیاست سے جڑے فریق ہو ان پر ہی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کریں۔ سیاسی جلسوں کے ماحول کو کشیدہ بنانے کی بجائے اسے ایک دوسرے پر تنقید تک ہی محدود رکھیں تو سیاسی ماحول کو زیادہ تلخ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان پڑھے لکھے طبقہ کو جو سوشل میڈیا پر کافی حاوی ہے اسے محاذ آرائی اور ادارہ جاتی تنقید کے ماحول سے نکالنا ہو گا۔ اس کے لیے بھی طاقت کا استعمال مسئلہ کا حل نہیں بلکہ نوجوانوں کو سمجھانا ہو گا کہ ان کی ردعمل کی سیاست کسی بھی صورت میں سیاست، جمہوریت اور قومی مفاد میں نہیں ہے۔

ایک خطرہ یہ موجود ہے کہ اگر عمران خان کی سیاست نے محاذ آرائی اور مزاحمت کو بڑی سیاسی طاقت دینی ہے اور اس کی مختلف شکلیں بھی ہم کو دیکھنے کو مل رہی ہیں تو اس کا ایک فطری نتیجہ عمران خان کے مخالفین کی جانب سے بھی ردعمل کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایک عمومی خیال یہ ہی ہے 2022 عام انتخابات کا برس ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے سیاسی ماحول میں موجود کشیدگی نے کم نہیں ہونی ہے تو پھر نئے انتخابات کا ماحول میں کیسے سیاسی کشیدگی کو کم کیا جا سکے گا۔

کیونکہ جو آج کی حکومت ہے جب ان کو یہ احساس ہو گا کہ عمران خان عوامی سیاسی میدان میں ان کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کر رہا ہے تو ان کو بھی سیاسی میدان میں کودنا پڑے گا اور جوابی ردعمل دینا ہو گا جو اور زیادہ محاذ آرائی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ جس انداز سے ہمارے ریاستی اداروں پر سوشل میڈیا میں تنقید ہو رہی ہے وہ بھی ریاستی مفاد میں نہیں اور اس سے عملی طور پر ریاستی مفادات کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کے سامنے ریاستی یا قومی سطح کا مفاد اہم نہیں بلکہ سب ذاتیات پر مبنی سیاست کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔ سیاست اور سیاسی اختلافات نے مسئلہ کے حل کی بجائے اس میں جہاں اور زیادہ بگاڑ پیدا کر دیا ہے وہاں سیاسی دروازے بھی بند کر دیے ہیں۔

یہ بات سمجھنی ہوگی کہ داخلی سیاست کا یہ بحران ہمارے لیے علاقائی اور عالمی سیاست کے لیے بھی بحران کو اور زیادہ سنگین کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ہماری ریاست اور حکومت کو اپنی ترجیحات میں علاقائی سیاست سے جڑے مسائل پر توجہ دینی تھی وہ داخلی سیاست کے درمیان عملاً پھنس کر رہ گئے ہیں۔ یہ حکمت عملی ہمیں علاقائی سیاست میں بھی تنہا کر رہی ہے اور ہماری سیاسی دانش یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ ہم نے اپنی داخلی لڑائی سے ریاستی مفاد کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے۔

اگر واقعی ہم نے نئے انتخابات کی طرف بڑھنا ہے تو ہمیں ایک مختصر وقت میں ایک ایسا سیاسی و انتخابی ماہدہ درکار ہے جو سیاسی کشیدگی کو کم کرنے اور آگے بڑھنے یا مفاہمت کی سیاست کو تقویت دے سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔ کیسے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ان کا موجودہ طرز عمل نہ صرف سیاسی ماحول کو خراب بھی کرے گا بلکہ معاشرے میں موجود جو سیاسی، سماجی تقسیم بڑھ رہی ہے اس نے اور زیادہ خطرات کو بڑھادیا ہے۔

اس لیے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہمیں مسئلہ کے حل کی طرف جانا ہے مگر ہم اپنی سیاسی انا کا شکار ہو کر فریقین میں سیاسی فاصلے بڑھا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے جو رائے عامہ ہوتی ہے جو لوگوں کی ذہن سازی کرتی ہے یا جو سیاسی فریقین کے سامنے ایک متبادل راستہ دیتی ہے وہ خود بھی سیاسی تقسیم کا شکار ہو کر مسائل میں اور زیادہ شدت کو پیدا کر رہی ہے۔ اس لیے تمام سیاسی یا دیگر فریقین حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اپنے اپنے ذاتی مفاد سے باہر نکل کر ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں کچھ مسئلہ کا حل نکالیں۔ مسئلہ کے حل میں سب فریقین کو ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا اور مل جل کر ایک ایسا حل تلاش کریں جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور جو ملکی مفاد کے تقاضے کو پورا کرتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments