نادرا میں سینیٹری ورکر سے سینٹر انچارج تک پشین کے تاج محمد کا سفر

بلال کریم مغل - بی بی سی اردو


احمد فراز نے لکھا تھا کہ خواب مرتے نہیں، خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہوا ہیں، جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں۔

صحرا اور پہاڑوں پر مشتمل بلوچستان کے ضلع پشین کے مکین تاج محمد نے بھی ایک عرصہ پہلے ایسا ہی ایک خواب دیکھا تھا جو نہ خود مرا اور نہ اس نے تاج محمد کو رکنے دیا۔

تاج محمد حال ہی میں ایک مسابقتی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اسی ادارے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں بطور ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہو گئے ہیں جہاں سے اُنھوں نے سنہ 2003 میں اپنا سفر بطور سینیٹری ورکر شروع کیا تھا۔

تقریباً 19 برسوں پر محیط یہ سفر تھکا دینے والا تھا اور اس دوران اُن کے سامنے مشکلات بھی آئیں مگر اب اُنھیں اپنی محنت کا ثمر مل گیا ہے۔

اپنے اس سفر کے بارے میں تاج محمد نے بی بی سی سے تفصیلی بات چیت کی اور اپنی کہانی سنائی۔

جب وہ 2003 میں نادرا میں بطور سینیٹری ورکر بھرتی ہوئے تو اس وقت اُنھوں نے صرف میٹرک کر رکھا تھا۔ مگر یہ ملازمت مل جانے کے بعد اُنھوں نے یہ نہیں سوچا کہ بس اب زندگی کا مقصد حاصل ہو گیا، بلکہ اُنھوں نے اپنے دل میں مزید آگے بڑھنے کی ٹھان رکھی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘کچھ لوگ نوکری کے ساتھ پڑھائی یا دوسرا کام پارٹ ٹائم کرتے ہیں مگر میں نے پڑھائی کو کبھی ایسی چیز نہیں سمجھا جسے بندہ اپنے فارغ اوقات میں کر لے۔ اسی سوچ کے ساتھ میں نے پہلے ایف اے کیا اور پھر بیچلرز۔’

’میرے چند مہربان افسروں نے پڑھائی میں میرا شوق دیکھتے ہوئے مجھے مشورہ دیا کہ چونکہ نادرا مکمل طور پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنی ادارہ ہے، اس لیے میں ماسٹرز کمپیوٹر سائنس میں کروں۔‘

اس مشورے پر غور کرنے کے بعد اُنھوں نے سنہ 2009 میں کوئٹہ کی یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایم سی ایس میں داخلہ لے لیا۔

اسی برس اُن کی شادی بھی ہو گئی مگر اُن کے ایک افسر نے اُنھیں مشورہ دیا کہ وہ پڑھائی سے اپنی توجہ کسی صورت نہ ہٹنے دیں ورنہ گھریلو معاملات کے باعث پڑھائی متاثر ہو گی۔

شادی کے کچھ عرصے بعد اُن کی بیٹی پیدا ہوئی۔ جب وہ دو برس کی ہوئی تو تاج محمد کو معلوم ہوا کہ اسے تھیلیسیمیا میجر ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کا واحد علاج ہر مہینے دو سے تین مرتبہ خون لگوانا ہے۔

ملازمت، بیٹی کا علاج اور پڑھائی، یہ سب ساتھ کرنا کچھ مشکل تھا مگر اس دوران اُنھیں افسرانِ بالا کی حوصلہ افزائی حاصل رہی، یہاں تک کہ سنہ 2012 میں اُنھوں نے اپنی ڈگری مکمل کر لی۔

اب اُن کی بیٹی 12 برس کی ہو چکی ہے اور اس کا علاج اب بھی جاری ہے۔

مگر ابھی تو اُن کے سامنے ایک طویل مرحلہ تھا، جس میں ڈگری تو گویا پہلا قدم تھا۔

’میں اب بھی سینیٹری ورکر ہی تھا مگر چونکہ ہاتھ میں ڈگری اور دل میں سیکھنے کا جذبہ تھا، اس لیے میں اپنے اردگرد ہونے والے دفتری کام کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا، اپنے افسران سے سوالات پوچھا کرتا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا کہ دفتر میں کسی شخص کو کمپیوٹرز سے متعلق کوئی دشواری ہوتی تو وہاں اُن کی قابلیت کام آ جاتی۔ یوں سیکھنے کا یہ سفر جاری رہا۔

سینیٹری ورکر ہونے کا طعنہ

مگر کچھ لوگوں کو یہ بات نہ بھاتی۔

’کبھی کبھار کوئی میری ملازمت یعنی سینیٹری ورکر ہونے کا طعنہ بھی دے دیتا جو بہت تکلیف دہ ہوتا۔ ایسا بھی وقت آیا جب مجھے لگنے لگا تھا کہ میں کبھی آگے نہیں بڑھ پاؤں گا اور نہ کبھی ترقی کروں گا، مگر ہمدردوں کے ہمت دلانے سے میرا حوصلہ واپس بحال ہو جاتا۔‘

تاج محمد کہتے ہیں کہ اُنھوں نے کوشش کی کہ نادرا میں ہی اُن کی ترقی کا بندوبست ہو جائے مگر اُنھیں بتایا گیا کہ نادرا کی ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ سروس کیڈر تبدیل کیا جائے۔

چنانچہ اُنھوں نے اپنی اسی ملازمت پر کام جاری رکھا۔ سال در سال کوششوں کے باوجود جب کامیابی آپ کے ہاتھ نہ آئے تو بلند حوصلوں میں بھی کہیں نہ کہیں مایوسی اپنی جگہ بنانے لگتی ہے۔

کچھ ایسا ہی تاج محمد کے ساتھ ہوا۔ جب فروری 2022 میں نادرا کی جانب سے نئی بھرتیوں کا اشتہار جاری ہوا تو اس وقت اُنھیں امید نہیں تھی کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو سکیں گے۔

نادرا

اُنھیں اُن کے دوستوں نے کہا کہ چلو اس کا ٹیسٹ دیتے ہیں۔ اُن کا دل نہیں مان رہا تھا مگر دوستوں نے اصرار کیا اور کہا کہ تاج محمد، دیکھو تمہارا موقع آ گیا ہے۔

جب ٹیسٹ دینے گئے تو وہاں پچھلی شفٹ میں ٹیسٹ دینے والوں کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ بہت زیادہ مشکل آیا ہے۔

ٹیسٹ میں کیا ’مشکل‘ تھا؟

چیئرمین نادرا طارق ملک نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ٹیسٹ کے لیے ہزاروں سوالوں میں سے منتخب کر کے سوالات پوچھے گئے تھے جن میں تکنیکی، نفسیاتی، قانونی سوالات سمیت نادرا آرڈیننس اور نادرا کی پالیسیز سے متعلق سوالات شامل تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ نفسیاتی سوالات شامل کرنے کا مقصد امیدوار کے رویے جانچنا ہوتا ہے تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ وہ نادرا کے صارفین سے کیسے پیش آئیں گے یا افسر بننے کے بعد ان کا رویہ کیسا ہو گا۔

یہ ایک آن لائن ٹیسٹ تھا اور اختتام پر تاج محمد کو محسوس ہوا کہ اُنھوں نے ٹیسٹ اچھا کیا ہے۔

‘دن گزرتے گئے اور ایک دن انٹرویو کی کال آئی۔ جب میں انٹرویو میں بیٹھا تو وہاں مجھے لگنے لگا کہ میری ساری محنت اب میرے کام آ رہی ہے۔ انٹرویو لینے والے بھی بہت متاثر ہوئے اور اُنھوں نے میری تعریف کی۔

’جس وقت انٹرویو میں کامیابی کی کال آئی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ نہ صرف کامیابی کی اطلاع دی گئی، بلکہ نادرا کے کئی اعلیٰ افسران نے بھی کال کی اور مجھے مبارکباد دی۔‘

یہاں تک کہ اُنھیں چیئرمین نادرا طارق ملک کی کال آئی اور بعد از مبارکباد اُنھوں نے کہا کہ وہ تاج محمد کو اپنے ہاتھوں سے اسلام آباد میں آفر لیٹر دینا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ دارالحکومت روانہ ہو گئے اور اپنی محنت کا پھل وصول کیا۔

طارق ملک بتاتے ہیں کہ تاج محمد کی کارکردگی اتنی اچھی تھی کہ وہ اس پر بہت حیران ہوئے۔ اس کے علاوہ وہ دورانِ ملازمت میٹرک سے لے کر ماسٹرز کرنے تک کی تاج محمد کی مستقل مزاجی سے بہت متاثر ہوئے۔

وہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے خود بھی اسلام آباد میں ملاقات کے دوران تاج محمد سے کچھ مزید سوالات پوچھے جن کے تاج محمد نے درست جوابات دیے۔

چیئرمین نادرا کا کہنا تھا کہ ادارے کے سربراہ کے طور پر اُنھیں خوشی ہے کہ تاج محمد نے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود کسی مشکل کو آڑے نہیں آنے دیا۔

طارق ملک کہتے ہیں کہ اُنھیں اس بات کی خوشی ہے کہ تاج محمد جس سینٹر میں کبھی سینیٹری ورکر تھے، اب وہ وہاں بطور سینٹر انچارج کام کریں گے۔

اُنھوں نے بتایا کہ ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر تاج محمد اپنے سینٹر کی ٹیم کی سربراہی کریں گے اور پوری تحصیل میں نادرا کے نمائندے کے طور پر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

نادرا

نادرا اہلکاروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے والی ٹیکنالوجی جس کے ذریعے نادرا کے مطابق تاج محمد جیسے مزید اہل افراد کو سامنے آنے اور ترقی پانے کا موقع ملتا ہے

’ایسا لگ رہا ہے کہ سب ایک خواب ہے‘

جب کامیابی کی اطلاع ملی تو اُن کے کیا تاثرات تھے اور اب کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اس سوال پر تاج محمد نے کہا کہ ’گذشتہ چار پانچ دنوں میں کامیابی کی اطلاع ملنے سے لے کر اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا یہ کوئی خواب ہے۔ یقین نہیں آ رہا کہ یہ کیا ہوا ہے، شاید کچھ دن تک یہی احساس رہے۔‘

تاج محمد نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنے ماموں کے ساتھ گزارا ہے اور اُنھوں نے ہی سنہ 2003 میں نادرا میں ملازمت کے بارے میں تاج محمد کو بتایا تھا۔ آج وہ بھی تاج محمد کی اس کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ اور تاج محمد کی والدہ کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے کیونکہ اُن کے بیٹے نے ترقی حاصل کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’رشتے داروں اور محلے والوں کی طرف سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے، کئی جگہوں سے فون آ رہے ہیں اور لوگ پذیرائی کر رہے ہیں۔‘

وہ افراد جو مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں یا ایسی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں جو اُن کی قابلیت سے مطابقت نہیں رکھتیں، اُن کے لیے تاج محمد کہتے ہیں کہ کامیابی کے لیے کسی ایک چیز پر توجہ دے کر اسے زندگی کا مقصد بنا لینا بہت اہم ہے۔

’میں صرف یہ کہوں گا، کہ آپ چاہے پانچ کام ایک ساتھ کریں، لیکن کم از کم ایک کام ایسا ضرور ہو جس پر آپ اپنی بھرپور توجہ دیں۔ ایسا نہیں کہ پانچوں کی پانچوں چیزیں ادھوری کریں۔ کامیابی اسی میں ہے کہ کسی ایک چیز پر پوری توجہ مرکوز کی جائے۔‘

اور اُن کی کہانی سے یہ واضح ہے کہ وہ یقیناً غلط نہیں کہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments