خبر کی تصدیق اور نوبیل انعام کی نامزدگی


میں نے کہیں پڑھا تھا کہ 1865ء میں امریکی صدر ابراہم لنکن کے قتل کی خبر برصغیر میں چھ ماہ بعد پہنچی تھی۔ آج انٹرنیٹ کے تیز ترین دور میں جب خبر لمحوں میں پوری دنیا میں پہنچتی ہے۔ تو ایسے میں خبر دینے والے پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ ہے خبر درست اور مکمل ہونے کی۔
دو تین دن سے یہ خبر مختلف جگہوں پر دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہے کہ ملک کی ایک نامور سماجی شخصیت اس سال کے نوبل امن انعام کے لیئے نامزد ہوئی ہیں اور مبارک بادوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خبر بنتی ہے؟ کیا یہ خبر درست ہے؟ کیا اس کی تصدیق نوبل کمیٹی نے کی ہے؟
تو اس کا مختصر جواب آپ نوبل کمیٹی کی ویب سائٹ پر جا کر خود دیکھ سکتے ہیں جہاں یہ واضح طور پر لکھا ہے نوبل کمیٹی 50 سال تک نامزدگیاں خفیہ رکھتی ہے اور پچاس سال گزرنے کے بعد ہی یہ معلومات جاری کرتی ہے کہ کون سی شخصیات انعام کے لیئے نامزد ہوئی تھیں اور انہیں کس نے نامزد کیا تھا۔ اس طرح 2022ء میں ہم صرف 1972ء اور اس سے قبل کی نامزدگیوں کے متعلق ہی جانتے ہیں جنہیں پچاس سال مکمل ہو چکے ہیں۔
اب دوسرا سوال جو بنتا ہے وہ یہ کہ نوبل امن انعام کے لیئے نامزد کون کرتا ہے؟ یا کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جی تو یہ بات بھی نوبل کمیٹی اپنی ویب سائٹ پر واضح طور پر بتاتی ہے کہ کسی بھی ملک کی پارلیمان کا رکن، کابینہ کا رکن، یونی ورسٹی کے صدور یا وائس چانسلر، سوشل سائنسز کے پروفیسر حضرات، نوبل انعام جیتنے والی شخصیات اور ادارے جو نوبل انعام جیت چکے ہیں ان کے سربراہان ہر سال نوبل کمیٹی کو کسی بھی شخص یا ادارے کو اس انعام کے لیئے نامزد کر سکتے ہیں (امید ہے ہمارے ممبران پارلیمان کو اس چیز کا علم نہیں ہوگا وگرنہ وہ ہر سال اپنی پارٹیوں کے سربراہان یا خود کو ہی نامزد کرتے رہتے)۔
کچھ بین الاقوامی انعامات اپنی نامزدگیاں اپنی خود کی بنائی کمیٹیوں سے لیتے ہیں جیسے کہ فلم کے انعامات، مثلا آسکر انعام ہر سال پانچ بہترین اداکار نامزد کرتا ہے اور پھر ان میں سے ایک کو انعام دیا جاتا ہے۔ ادب میں بکر انعام کی کمیٹی پانچ یا چھ ناولوں کو نامزد کرتی ہے اور پھر ان میں سے ایک کو حق دار قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام اس کے برعکس ہے وہاں مقابلہ کھلا ہے اور بہت سے لوگ نامزدگیاں بھیج سکتے ہیں جن کے متعلق اوپر بتایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے 1939ء میں ایڈولف ہٹلر کو بھی اس انعام کے لیئے نامزد کر دیا گیا تھا۔
اس لیئے میری ناقص رائے میں یہ خبر بنتی ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے ہر سال 300 سے بھی زائد افراد یا ادارے اس انعام کے لیئے نامزد ہوتے ہیں جن کے نام صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں، پھر معلوم نہیں ہمارے میڈیا کو یہ خبر کیسے مل گئی؟ بین الاقوامی میڈیا ایسی خبروں متعلق مکمل خاموش ہے۔ مجھے امید ہے یہ خبر نامزدگی بھیجنے والے ممبر پارلیمان یا پروفیسر صاحب نے ہی دی ہو گی کہ ہم نے آپ کا نام بھیجا ہے۔
کچھ ہفتے قبل جب مستنصر حسین تارڑ اور ڈاکٹر اشو لال نے ملک کے بڑے ادبی انعام کو لینے سے معذوری ظاہر کی (جو ان کا حق ہے)، تارڑ صاحب نے اس کی تقسیم پر اعتراض کیا، جس پر سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی اور ایک دو نامور ادیب بھی یہ کہتے پائے گئے کہ نوبل ادب انعام بھی کبھی تقسیم نہیں ہوتا، ہماری کمیٹی کو معلوم ہونا چاہیے جنہوں نے انعام تقسیم کر دیا۔ جیسے یہ ادیب کا حق ہے کہ وہ انعام وصول کرنے یا نہ کرے اس کی مرضی، ایسے ہی کمیٹی کی بھی یہ مرضی ہے کہ وہ انعام کسی ایک فرد کو دے یا ایک سے زائد کو مشترکہ طور پر دے ان کی مرضی۔ لیکن نوبل انعام کو ہم یہاں بھی گھسیٹ بیٹھے یہ جانے بغیر کہ ادب کا نوبل انعام بھی چار مختلف سال میں دو ادیبوں کو مشترکہ طور پر دیا جا چکا ہے، 1904ء میں فریڈرک مسٹریال اور حوزے ایچیگرے، 1917ء میں کارل ایڈولف جیلیرپ اور ہینرک پونٹوپیڈن، 1966ء میں شمعول یوسف اور نیلی ساخس، 1974ء میں ہیری مارٹنسن اور ایونڈ جانسن کو ادب کا نوبل انعام مشترکہ طور پر ملا تھا۔
ہمارا میڈیا مختصر سی خبر ہیڈلائن کی شکل میں چلا کر خود کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔بس مسلہ یہی ہے کہ انٹرنیٹ کے اس تیز ترین دور میں ہم خبر کی تصدیق سے معذور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments