اظہار کے چند طریقے ہیں، بات کر لیں، اشارہ کر دیں، رو دیں، ہنس لیں، چیخ مار دیں، یا ایسا کچھ بھی کر دیں، جسے دوسرا سمجھ جائے، اظہار کا ایک طریقہ خاموشی اختیار کر لینا بھی ہے۔ اسے عظیم طاقت کا ذریعہ بھی قراردیا گیا ہے، مفکرین اپنے اپنے دور میں اس پر بحث کرچکے ہیں بلکہ اس کی افادیت سے آگاہ کرتے رہے ہیں، کسی نئی فکر اور سوچ پر نگاہ ڈالنے اور اسے دوسروں تک لانے کے لئے خاموشی کو سہارا ضروری ہے۔ کوئی نیا نظریہ بھی ایسا ہی انہماک کا متقاضی ہوتا ہے۔

آج کے جدید دور میں باہمی رابطے کے لئے بات چیت، مکالمے، چیٹنگ کی جاتی ہے، جس کسی کو دیکھیں فون کان پر لگائے کسی نہ کسی سے گفتگو میں مصروف پایا جاتا ہے۔ جیسے ایک دنیا صرف باتیں ہی باتیں کر رہی ہے۔

خاموشی بعض اوقات مواصلات کا کام کرتی ہے، یہ ڈھال اور خنجر دونوں ہوسکتے ہیں، یہ جہالت سے عقل تک اور غصے سے خوشی تک کا سفر طے کر لیتی ہے۔ انسان اکثر حقیقت کی تائید کرنے کے لئے کوئی بھی لفظ بولنے سے پرہیز کرتا ہے۔

حضرت علی کا قول ہے کہ خاموشی بعض اوقات سب سے زیادہ فصاحت جواب ہو سکتی ہے۔
کامیابی کے بعد سب سے بڑا چیلنج اس کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہے۔
جیسے کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ خاموشی پرامن ہے، لیکن حقیقت میں یہ تکلیف دہ ہے۔

کامل دعا بہت سارے الفاظ پر مشتمل نہیں ہے، صرف کچھ بولے بغیر اپنا مدعا اور حالت بیان کر نا زیادہ مضبوط رابطے کا ذریعہ بنتا ہے،

کسی دانشور کا کہنا تھا، میں خاموش رہتا ہوں تاکہ میں لکھوں۔ جب میری زبان چلتی ہے تو ، میری انگلیاں خاموش ہوجاتی ہیں۔

جب میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے خاموشی پسند ہے، تو میں پوری طرح مخلص نہیں ہوں۔ مجھے جو واقعی پسند ہے وہ نازک اور وافر آوازیں ہیں جو خاموش ہو جانے پر روشنی ڈالتی ہیں۔

تنہا دلوں کے لئے موسیقی ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ اگر موسیقی بند ہے تو ، ایک خاموشی ہے، خاموشی کو بالکل جاننا موسیقی کو جاننا ہے۔

خاموشی انسان کو خوشی راحت اور سکون بخشنے کا باعث بنتی ہے، لیکن کبھی کبھار خوف، تنہائی، یاسیت سے دو چار کر دیتی ہے۔ خاموشی عظیم طاقت اور شفا یابی کا ایک مقام ہے۔

بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ کم سونے، کم کھانے اور کم بولنے والے متقی کہلاتے ہیں، دیکھیں تو کیسے ممکن ہے یہ تینوں کام کرنا، ہم بولے بغیر رہ نہیں سکتے، سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہوں، انٹرٹینمنٹ کے چینلز ہوں، کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے، جسے براہ راست دیکھ اور سن کر سبھی اس کا حصہ بن رہے ہوتے ہیں۔

سیاست، مذہب، سماجی تعلقات، باہمی رابطے ہر مسئلے کے لئے کوئی نہ کوئی بحث مباحثہ، تکرار جاری رہتی ہے۔ بات چیت کا بند نہ ہونے والا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔

ایسے میں اگر محسوس کریں اور کوشش کریں تو خاموشی کس قدر سکون اور عافیت کا سامان پیدا کرتی ہے۔ محض دوسروں کی بحث میں چپ رہ لینا ہی ایک بڑی ذہنی تسکین کا باعث بنتا ہے۔ اگر کہیں اور کبھی اپنی رائے نہ دیں، کوئی تبصرہ نہ کریں، کہیں ردعمل دینے سے گریز کر لیں، نہ صرف غصے میں کسی الجھن اور کوفت سے بچ جائیں گے بلکہ کسی نئے جھنجھٹ سے نجات بھی پالیں گے۔

یہ خاموشی ہمیں اپنے باہمی تعلقات میں دراڑ پڑنے اور کسی رنجش کے آ جانے سے بچا لیتی ہے۔ کبھی تجربہ کر کے دیکھ لیں، کوئی نیا نسخہ نہیں بڑا آزمودہ فارمولا ہے۔ دماغ کسی ان دیکھی سردردی کی کیفیت سے بچ جائے گا۔ آج کے پیچیدہ اور تکلیف پہنچانے والے دور میں آپ خود کو قدرے پرسکون محسوس کریں گے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ رشتے میں ایسی بہت مہذب چیز ہے جہاں گفتگو میں طویل وقفے باقی رہ جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ اس قسم کی خاموشی برداشت کر سکتے ہیں۔

کسی مفکر نے خوب کہا کہ خاموشی عالمگیر پناہ گاہ ہے، یہ اتنی گہری ہے کہ ہمارے کانوں کو تکلیف پہنچاتی ہے، یہ خاموشی ہے جو خوفزدہ کرتی ہے۔ یہ وہ خالی صفحہ ہے جس پر ہم اپنے اندیشے لکھ سکتے ہیں۔