لاڈلا نشان عبرت


ابھی کل کی بات ہے یہ سب کا لاڈلا تھا۔ عدالت، اسٹبلشمنٹ، بیوروکریسی، ریاستی مشینری، بزنس مین طبقہ، شوبز انڈسٹری، نام نہاد علماء حضرات نے لاڈلے کی پبلسٹی کے لئے کوئی موقع خالی نہیں جانے دیا۔ متعلقہ شعبوں کی نمایاں شخصیات کو عوام کے سامنے لاڈلے کی بھرپور حمایت کرنے کے لیکچر دلوائے گئے۔ لاڈلے کو نجاد دہندہ اور قوم کا آخری مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔

ایسا لگ رہا تھا اب پاکستان میں ون مین شو ہی چلے گا۔ یہ آخری لاڈلا ہے اس کے بعد کوئی لاڈلا پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ایک لاڈلے کو تخت پر بٹھانے کے لئے اس کے حریفوں پر کیسز بنائے گئے۔ پھر ان کی عدالتوں میں پیشیوں کی سنچریاں مکمل کرائی۔ یہاں تک کہ اس کے حریفوں کی خواتین کو بھی ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ پھر ان جماعتوں سے نمایاں کھلاڑی نکال کر لاڈلے کی ٹیم میں شامل کیے گئے۔ پھر باقی بچے کھلاڑیوں کو دھمکی آمیز فون کالز کی گئی اگر آپ نے فلاں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو آپ الیکشن جیتنے کے خواب بھی نہیں دیکھنے کے قابل رہیں گے۔

پھر جیسے تیسے کر کے الیکشن کرائے۔ جب دیکھا الیکشن ڈے پر بھی لاڈلا نمایاں کارکردگی نہیں دیکھا پایا تو مجبوراً آرٹی ایس بٹھا دیا۔ جب مطلوبہ ہدف پورا ہو گیا تو آرٹی ایس اگلے دن رات چھ بجے دوبارہ چالو کر دیا۔ پھر بھی نمبر گیم پوری نہ ہوئی تو بابا رحمتے جیسا کردار میدان میں اتارا۔ جب دوبارہ گنتی میں لاڈلے کی نمبر گیم کم ہونے لگی۔ 36 حلقے باری باری کھلنے لگے جن میں 10 سیٹیں لاڈلا ہار گیا تو اچانک بابا رحمتے نے کرسی منصف کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم کے الیکشن کا عمل مکمل ہونے تک حلقوں کی دوبارہ گنتی کا عمل روک دیا۔

خیر جیسے تیسے کر کے لاڈلے کو کرسی پر بٹھا دیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا لاڈلے کو سسٹم چلانے میں دشواریاں پیش آنے لگیں تو پھر ایک بار لاڈلے کی مدد کے لئے عرب ممالک، امریکہ، یورپ اور چین کے چکر لگائے گئے، بڑے ملکی بزنس مینوں کو طفل تسلیاں دی گئی اور لاڈلے کو قرضے لے کر دیے گئے تاکہ لاڈلا پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لے۔ لاڈلے کی ہر تین ماہ نیپیاں تبدیل کرنے کا سلسلہ چل پڑا۔ لیکن شومئی قسمت لاڈلا تو لاڈلا تھا نہ اس کو سمجھ آ رہی تھی نہ اس کی ٹیم کے ہیرے، نگینے اور گوہر نایاب سمجھ پا رہے تھے کہ سسٹم چلانا کیسے ہے ہاں ان کو صرف ایک چیز کی سمجھ ضرور آ رہی تھی کہ کھانا کیسے ہے۔

کھانے کے معاملے میں ان میں آپس میں ریس لگی تھی۔ جس کا جہاں داؤ لگ رہا تھا وہ آنکھیں بند کر کے کھا رہا تھا۔ ان کو معلوم تھا لاڈلے کو پتہ ہی نہیں چلنا اگر چل بھی گیا تو اس کے سامنے اس کی تقریروں کی تعریفیں کی تو اس نے ہمیں پھر سات خون معاف کردینے ہیں۔ یہ سات خون معاف کرنے کا سلسلہ ساڑھے تین سال مسلسل جاری رہا۔ اس پر لاڈلا تو دور سر سے پاؤں تک والی سرکار کی نظر بھی نہ پڑ سکی۔ جو ہر تقریر میں کہتے تھے میں فیس نہیں کیس دیکھتا ہوں۔

پھر اچانک حالات نے اپنا رخ تبدیل کیا باری باری لاڈلے کے سب محسن اس سے دوری اختیار کرنے لگے۔ ایک دن ایسا آیا کہ سب نے لاڈلے کو بیچ چوراہے تنہا چھوڑ دیا۔ جیسے ہی لاڈلے کو ہمدردوں نے تنہا چھوڑا۔ موقعہ غنیمت جان کر اس کے حریف بھی کھل کر میدان میں آ گئے۔ آہستہ آہستہ ان حریفوں نے لاڈلے کے گرد شکنجہ کسنا شروع کر دیا۔ جب لاڈلا شکنجے میں آ گیا تو ان تینوں نے لاڈلے کو گردن سے پکڑ لیا۔ اب لاڈلا چیخ رہا تھا چلا رہا ہے، شور مچا رہا تھا، رو رہا تھا لیکن کوئی ہمدرد اس کی مدد کو نہیں آ رہا تھا۔

پھر اچانک رات کے بارہ بجے لاڈلے کو ان تینوں حریفوں نے اٹھا کر میدان سے ایسے باہر پھینکا جیسے آخری گیند پر میانداد نے چھکا مارا تھا۔ اب لاڈلا دربدر ہو چکا ہے۔ اپنی درد بھری کہانیاں گلی محلوں میں سنا رہا ہے۔ کبھی ججوں پر تنقید کر رہا تو کبھی جرنیلوں کو مرد الزام ٹھہرا رہا ہے، کبھی امریکہ پر سازش کا الزام لگا رہا ہے اور کبھی لندن میں بیٹھے ایک بڑے حریف پر سازش کا الزام لگا رہا ہے لیکن شومئی قسمت اس کا ہر پروپیگنڈا، ہر الزام، ہر کارڈ اور ہر چال ناکام جا رہی ہے۔ اب لاڈلے پر جماعت کالعدم ہونے اور تاحیات نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے جو عنقریب اس کے سر پر گرنے والی ہے اور لاڈلا تمام سیاستدانوں کے لئے نشان عبرت بننے والا ہے کہ آئندہ اگر کسی نے بھی لاڈلا بننے کی کوشش کی تو اس کا حشر بھی اس لاڈلے جیسا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments