مخلوط حکومت کا عوامی ریلیف


تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہی ملک ترقی کرتا ہے جس کی عوام خوشحال ہو، عوام کی خوشحالی کے بغیر ترقی کا تصور ایسے ہی ہے جیسے بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک ترقی کرے گا تو ہی عوام خوشحال ہوگی لیکن در حقیقت ترقی کا اصل راز یہی ہے کہ سب سے پہلے عوام کو خوشحال بنایا جائے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر سے آزاد ہو سکیں اور اپنی پریشانیوں و مشکلات سے نکل کر بہتر انداز میں ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

موجودہ نئی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کس طرح عوام کو بنیادی ضروریات حاصل کرنے کی فکر سے آزاد کیا جا سکے اسی لئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے معاشی ٹیم کو سب سے پہلا بڑا ٹارگٹ بھی یہی دیا ہے کہ عوام کو آٹا، گھی، چینی، دالیں، سبزیاں، گوشت سستے داموں فراہم کرنے کے لئے معاشی پلان مرتب کریں۔

دوسری جانب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آٹا کی موجودہ قیمت میں فوری کمی کر کے عوام کو جو ریلیف دیا ہے اس پر عوامی حلقے خصوصاً غریب افراد نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے انھوں نے نہ صرف غریبوں کے لئے بلکہ ہر شہری کے لئے روٹی کی قیمت ایک روپے کردی تھی جس کا سب سے بڑا فائدہ غریب، محنت کش، دیہاڑی دار افراد کو ہوا جو سستی روٹی کی وجہ سے خوب پیٹ بھر کھانا کھا کر جب کام پر جاتے تو دن بھر شہباز شریف کو دعائیں دیتے رہتے اور اپنا کام بھی خوشی سے کرتے لیکن جب پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ روٹی اور نان کی قیمت بھی بڑھی تو غریب تو غریب متوسط طبقہ بھی اس سے شدید متاثر ہوا۔

ایک روپے کی روٹی لے کر کھانے والے غریب اور محنت کش شہباز شریف کو یاد کرنے لگے۔ مہنگائی بڑھنے کے بعد جب روزمرہ اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت اور لڑائی جھگڑے پر مبنی نفسیاتی کیفیات پروان چڑھنے لگیں، ہر شخص بلا وجہ دوسرے سے جھگڑنے کو تیار تھا اسی لئے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی طور پر مطمئین افراد ملکی ترقی کے لئے بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

سابقہ دور میں شہباز شریف صاحب نے پنجاب کی ترقی کے لئے جو کام کیے اس کی بناء پر دیگر صوبوں کی عوام سوشل میڈیا پر یہی مطالبہ کرتی نظر آتی تھی کہ ہمیں شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ چاہیے، سوشل میڈیا صارفین کی دعائیں رنگ لے آئیں اور محمد شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے وزیر اعظم کا سفر جتنا کٹھن تھا اس سے کہیں زیادہ مشکلات عوامی خدمت اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کے حوالے سے وزیر اعظم کو پیش آئیں گی۔

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج معاشی و اقتصادی بحران سے نمٹنا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب مخلوط حکومت اپنے اتحادیوں کو راضی رکھ سکے گی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مخلوط حکومت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ قائم کیا گیا اتنا بڑا سیاسی اتحاد کس طرح برقرار رکھا جا سکے جس طرح وزیر اعظم محمد شہباز شریف دوراندیشی اور دانشمندی سے اتنے بڑے سیاسی اتحاد کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں اس بنیاد پر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ اتحاد دیر پا ثابت ہو گا لیکن دوسری جانب حکومتی اتحاد کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ یہ اتحاد زیادہ دن نہیں چل سکے گا۔

عالمی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومتی اتحاد میں رخنہ پڑا تو یہ نہ صرف حکومت اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے لئے نقصان دہ ہو گا بلکہ سب سے زیادہ مشکلات عوام کو پیش آئیں گی کیونکہ پاکستان کو جہاں شدید معاشی اور اقتصادی بحران کا سامنا تھا وہاں سیاسی بحران نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اسمبلی ایوانوں میں جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اس پر پاکستانی عوام کو بڑی مایوسی اور پریشانی کا سامنا رہا دوسری جانب پاکستان کے دشمن عناصر نے اس صورتحال کو خوب انجوائے کیا کیونکہ وہ ہمیشہ سے یہی تو چاہتے تھے کہ پاکستان میں کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی سیاست کے نام پر ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ عوام مختلف حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی دشمن بن جائے۔

ملکی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، انڈیا اور کئی دیگر ممالک کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں پاکستانی سیاسی ماحول کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ تصور پیش کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کمزور پڑ چکا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پاک سرزمین پر اپنی حفاظت فرمائی اور ملک میں جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہونا شروع ہو گیا۔ اب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملکی سلامتی، بھائی چارے کے فروغ، غربت کے خاتمہ، کورونا سے پیدا شدہ معاشی و اقتصادی بحران، مہنگائی کے خاتمہ اور عام آدمی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی و خوشحالی کی خاطر متحد ہو کر کام کریں اور مثبت سیاسی نظریے کو فروغ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments