پاکستان تحریک انصاف کی 26 سالہ سیاسی اور قانونی جدوجہد


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انصاف کے لئے ایک سیاسی تحریک کی بنیاد پاکستانی کرکٹر، 1992 ورلڈ کپ کے فاتح، مخیر اور سماجی کارکن عمران خان نے 25 اپریل 1996 کو زمان پارک لاہور میں رکھی تھی۔ مہذب دنیا اور جمہوری معاشرے میں ہر جگہ ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو شہریوں اور حکومت کے مابین خلا کو پر کرتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں شہریوں میں ان کے حقوق کے بارے میں شعور بیدار کرنے اور ان کے حقوق اور مطالبات کے حصول کے لئے ان کو آگاہ کرنے میں اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کر رہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف بھی ایک تحریک ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے اس ملک میں سیاسی نظام قائم کرنے میں ناکامی ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں سیاسی اور جمہوری ثقافت کو فروغ دینے کے لئے دستور ساز اسمبلیوں کو اختیارات دیے۔ لیکن بدقسمتی سے، خان ازم، نواب ازم اور مذہبی ثقافت کی وجہ سے وہ پاکستان میں سیاسی اور جمہوری ثقافت میں ناکامی ہوئی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں بہت ہی کمزور رہیں کیوں کہ ملک میں جمہوری ثقافت کو فروغ نہیں ملا۔

اس لئے فوجی جرنیلوں کو امور مملکت چلانے کے مواقع فراہم ہوئے، لہذا پاکستانی سیاست کا بیشتر حصہ فوجی آمریت کے تحت رہا۔ ایسے ہی حالات میں پی ٹی آئی نے انصاف کی فراہمی اور پاکستان میں صحت، تعلیم، شہری، فلاح و بہبود، اور اظہار رائے کی آزادی، روزگار، مذہبی ہم آہنگی، بین المذاہب ہم آہنگی اور مساوی ٹیکس کے نظام کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لئے تحریک کی شروعات کی۔ اس نے پاکستان میں سماجی اور سیاسی ترقی پر توجہ دی۔

پی ٹی آئی جمہوریت، حکومت میں شفافیت اور قیادت کے احتساب کے ذریعے پاکستان میں سیاسی استحکام کے لئے پرعزم ہے۔ پی ٹی آئی وفاق اور صوبائی خودمختاری پر یقین رکھتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے جہاں لوگوں کو سیاسی آزادی، معاشی مواقع اور معاشرتی انصاف حاصل ہو۔ پی ٹی آئی ملک میں معاشرتی اور معاشی انصاف پر یقین رکھتی ہے جہاں ہر شہری کو انسانی بنیادی ضروریات اور حقوق تک رسائی حاصل ہے۔ پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔

پاکستان میں ہر سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ سے مصافحہ کر کے اقتدار میں آئی تھی، اس لئے ملک میں تبدیلی لانا مشکل ہے۔ پی ٹی آئی سادہ اور ترقی پسند نظریہ پر مبنی ہے اور عوامی حمایت اور طاقت پر یقین رکھتی ہے۔ وہ پاکستانی سیاست میں جمود کو توڑنے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ پی ٹی آئی نے 1996 میں قیام کے بعد عمران خان کی سربراہی میں 6 ممبروں کی مرکزی انتظامی کمیٹی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی انتظامی کمیٹی کے چھ ممبران میں نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان، مہید حسین، محمود اعوان اور نوشیروان برکی شامل تھے۔

پی ٹی آئی نے 1997 کے عام انتخابات میں نومولود پارٹی کی حیثیت سے حصہ لیا، حالانکہ پی ٹی آئی عام انتخابات میں ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی تھی لیکن عمران خان نے ثابت کیا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستانی قوم کے لئے متبادل جماعت ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے بچپن کے پہلے انتخابات میں یہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں پی ٹی آئی حکمران جماعتوں کے خلاف تیسرا چہرہ ہو سکتی ہے۔ 2002 میں عام انتخابات میں دوسری مرتبہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور میانوالی سے عمران خان نے قومی اسمبلی کی ایک نشست اور کرک سے میاں نثار گل کاکا خیل نے کے پی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی۔

پی ٹی آئی نے 18 فروری 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ پی ٹی آئی نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ذریعہ معطل ججوں سے اظہار یکجہتی کے لئے 24 نومبر، 2017 کو بھوک ہڑتال کی۔ پی ٹی آئی نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف خصوصاً این آر او (قومی مفاہمت آرڈیننس) متعارف کرانے کے فیصلوں کی مخالفت کرنے کے سبب عام انتخابات 2008 کا بائیکاٹ کیا۔ 30 اکتوبر 2011 کے لاہور جلسہ کی وجہ سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے تیسری بار حصہ لیا اور ملک میں تیسری بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ خیبر پختونخوا میں پہلی پوزیشن لی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی نے بطور وزیراعلی کے پی پرویز خٹک کی سربراہی میں مخلوط حکومت تشکیل دی۔ نیٹو سپلائی اور ڈرون حملے کے خلاف پی ٹی آئی کا پہلا دھرنا 24 نومبر، 2013 سے 26 فروری 2014 تک پشاور میں ہوا۔ عمران خان نے این اے 57، این اے 110، این اے 122 اور این اے 125 کے 4 حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔

پی ٹی آئی ریسرچ ونگ نے یہ ثابت کرنے کے لئے 2100 صفحات پر مشتمل کتاب تیار کی کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی نے انتخابی دھاندلی کی طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی توجہ مبذول کروانے کے لئے تمام قابل رسا جمہوری ذرائع کا استعمال کیا۔ عمران خان کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ انتخابات کے نتائج کا نوٹس لے۔ تمام قانونی فورم سے مایوسی کے بعد پی ٹی آئی نے 22 اپریل 2014 کو دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف اپنی تحریک شروع کرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔

پنجاب اور اسلام آباد کے تمام شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ بعد ازاں پی ٹی آئی نے 14 اگست 2014 کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ روز بروز پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا بنیادی نکتہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں بدعنوانی، سیاست کی نوعیت، جمہوری اصولوں، نوجوانوں کی شرکت اور سیاسی سرگرمیوں میں سوشل میڈیا کا کردار ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ذاتی نوعیت کی ہیں پارٹیاں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔

پارٹیوں کو ذاتی حیثیت دینے کی وجہ سے پارٹیوں کے اندر جمہوری ثقافت کے مواقع کم ہیں لہذا، پاکستانی سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں کے بجائے قبائلی اور ثقافت پر مبنی گروہ دکھائی دیتی ہیں اٹھارہویں آئینی ترمیم میں سیاسی جماعتوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے انٹرا پارٹی انتخابات کی ذیلی شق کو ختم کر دیا۔ چونکہ ان سیاسی جماعتوں کو نچلی قیادت اور نچلی سطح کے کارکنوں کو با اختیار بنانے کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

اس کے برعکس پی ٹی آئی نے یو سی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک عوامی ووٹوں پر انٹرا پارٹی الیکشن کروائی۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی صفوں میں نئی ​​ اور نوجوان قیادت ابھر کر سامنے آئی۔ تحریک انصاف کے ایجنڈے اور نظریہ کو فروغ دینے میں نوجوانوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ 2018 کے عام انتخابات میں، پی ٹی آئی قومی اسمبلی، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ پی ٹی آئی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کی سربراہی میں مرکزی حکومت تشکیل دی۔

کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی نے غلبہ حاصل کیا اور محمود خان کے تحت کے پی کے سی ایم کی حیثیت سے اپنی صوبائی حکومت تشکیل دی جبکہ پنجاب میں عثمان بزدار کی قیادت میں حکومت بنائی۔ جبکہ بلوچستان میں پی ٹی آئی نے مخلوط حکومتیں تشکیل دی۔ 2018 کے جنرل انتخابات میں کل 16.8 ملین ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ پی ٹی آئی عمران خان کی جادوئی قیادت میں پارٹی کو انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرنے کے انقلابی پروگرام پر کام کر رہی ہے اور اس حوالے سے یکم مئی 2019 کو پارٹی کے دوسرے آئین کا اعلان کیا گیا۔

دس اپریل تاریخ اور پاکستانی جمہوریت کا سیاہ ترین دن جس دن 16.8 ملین ووٹوں والی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی اور ایوان میں 155 سیٹوں والی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے منتخب وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے علیحدہ کیا۔ عدم اعتماد کی اس جنگ میں عمران خان نے اخلاقی، قانونی اور جمہوری اصولوں سے مقابلہ کیا۔ اگر عمران خان چاہتے تو ان کے پاس بہت سارے آپشنز دستیاب تھے۔ لیکن خان صاحب نے ایک اصول پسند اور جمہوریت پسند لیڈر کا کردار ادا کیا۔

سب سے تکلیف دہ بات کرپشن کے کیسز میں عدالت سے ضمانت یافتہ مجرم کو وزیر اعظم بنانے کے لیے پوری سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ رات بارہ بجے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو کھول دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں مداخلت کی۔ بیرونی مداخلت کی تحقیقات نہیں ہونے دی۔ یہ گلہ ہمیشہ رہے گا۔ اس نام نہاد ریاست اور ریاستی اداروں نے اکثریتی جماعت کو اقلیتی جماعت میں تبدیل کرنے کے لیے ہر حربہ کا استعمال کیا۔

سلام عمران خان کی عظمت و شان کو جس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جس نے ہمت نہیں ہاری۔ جس نے کوئی غیر قانونی قدم نہیں اٹھایا۔ جس نے آخر تک کارکنوں کو اداروں کے خلاف آواز اٹھانے سے منع کیا۔ جس نے چوروں اور لٹیروں کو بے نقاب کیا۔ جس نے تین سال اور سات مہینوں میں دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ جس نے غریب عوام سے سیاست سے پاک صاف احساس پروگرام دیا۔ جس نے سپیچ پیس اور گرین ڈپلومیسی کو فروغ دیا۔ جس نے صحت انصاف کارڈ کے ذریعے عوام کو سہولیات فراہم کی۔ جس نے ملکی پیسوں کو بچایا۔ جس نے اسلام فوبیا کے خاتمے کے لیے آواز بلند کی۔ جس نے ملکی خزانہ کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہیں کیا۔ جس نے ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دی۔ افسوس اس بھکاری قوم پر جن کو اس عظیم لیڈر عمران خان کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔

امید ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کا سیاسی کلچر بدلا جائے گا۔ صرف پی ٹی آئی ہی ثقافت اور قبائلی اصولوں پر مبنی سیاسی نظام سے جمہوری اصولوں کی طرف منتقلی میں کردار ادا کر سکتی ہے اور آنے والے وقت میں پاکستانی جمہوریت پی ٹی آئی کے نوجوانوں اور عمران خان کی جدوجہد کی وجہ سے لوگوں کے سامنے زیادہ جوابدہ اور منصفانہ ہوگی۔ انشاء اللہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف قانونی اور سیاسی جنگ جاری رہی گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments