جب وزیر اعظم بھی شہریوں کی حفاظت کا ضامن نہ بن سکے!


وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز دورہ بلوچستان کے دوران لاپتہ افراد کے معاملہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس دورہ میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اس معاملہ پر بات کی ہے۔ فلاحی و ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ نوجوانوں کے لاپتہ ہو جانے کا معاملہ بلوچستان کے لئے ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ یہ مسئلہ ’با اختیار‘ لوگوں کے سامنے اٹھائیں گے اور اسے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ عام تفہیم میں تو ملک کا وزیر اعظم ہی سب سے با اختیار عہدیدار ہوتا ہے اور اگر وہ بھی شہریوں کی جان کی حفاظت کا ضامن نہیں ہو سکتا تو لوگ کہاں سے خیر کی امید کریں؟

وزیر اعظم کی طاقت کا محور پارلیمنٹ ہوتی ہے جہاں پاکستانی عوام کی بہبود و بہتری کے علاوہ ان کی حفاظت و سلامتی کے لئے مناسب فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بات تو تسلیم کی جا سکتی ہے کہ شہباز شریف کی حکومت نئی ہے اور قومی اسمبلی کی صورت حال بھی بے یقینی کا شکار ہے کیوں کہ سب سے بڑی پارٹی کے ارکان نے استعفے دینے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اگرچہ ابھی تک ان استعفوں کی عملی صورت حال سامنے نہیں آئی۔

عمران خان نے 2014 کے دھرنے کے دوران استعفے دیے تھے اور پھر چند ماہ بعد خاموشی سے سابقہ تنخواہیں وصول کر کے اسمبلی کا حصہ بن گئے تھے۔ اس طرز عمل کو دیکھا جائے تو کوئی عجب نہیں ہو گا کہ ہر چیز الٹ پلٹ کرنے کا دعویٰ کرنے والے سابق وزیر اعظم کسی نئی صورت حال میں خاموشی سے اسمبلی واپس پہنچ جائیں اور وہاں پر اپنی زنبیل سے کوئی نیا انوکھا نعرہ نکال کر ایک نئے یوٹرن کے ساتھ اپنے حامیوں کو کوئی نیا دھوکہ دینے کے سفر کا آغاز کریں۔ بدقسمتی سے عمران خان کے سیاسی سفر کے دوران جس میں چار سال حکومت کے بھی شامل ہیں، سوائے جھوٹ، بے بنیاد نعروں اور الزام تراشی کے کچھ نہیں ہے۔

اس بحث سے قطع نظر لاپتہ افراد کے حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان ایک سفاک حقیقت کا پرتو ہے جس کا اظہار ملکی سیاست میں کافی عرصہ سے کیا جا رہا ہے۔ اس معاملہ کو ماضی میں ’ریاست کے اندر ریاست‘ ، امور حکومت میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت، خلائی مخلوق کی کارگزاری یا محکمہ زراعت کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ تاآنکہ نواز شریف نے اکتوبر 2020 میں گوجرانوالہ میں پاکستان جمہوری تحریک کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور موجودہ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ فوجی قیادت نے ان کی حکومت کے خلاف سازش کی تھی۔ یادش بخیر اب ایسی ہی باتیں تحریک انصاف کی طرف سے کی جا رہی ہیں۔ عمران خان نے خود تو نواز شریف کی طرح فوجی لیڈروں کا نام نہیں لیا لیکن تحریک انصاف کے حامی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تندہی سے جنرل باجوہ کو تحریک عدم اعتماد کا محرک اور ’چوروں کی موجودہ حکومت‘ قائم کروانے کا سبب بیان کرتے ہیں۔ اب یہ باتیں چوری چھپے بھی نہیں کی جاتیں۔ سوشل میڈیا کے مباحث میں آرمی چیف کا نام لے کر الزام تراشی کی جاتی ہے اور ایسا پروپیگنڈا دیکھنے میں آتا ہے جس سے براہ راست فوج کی شہرت اور حیثیت متاثر ہوتی ہے۔

اس معاملہ پر مزید گفتگو سے پہلے البتہ وزیر اعظم شہباز شریف کے بلوچستان میں دیے گئے بیان کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ملک کی وزارت عظمی کے منصب پر فائز ایک شخص عام شہریوں کی گمشدگی کے سوال پر بلوچستان میں کھڑے ہو کر صرف یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ’با اختیار‘ لوگوں کے سامنے اس مسئلہ کو اٹھائیں گے۔

یعنی ملک کا وزیر اعظم بلوچستان جاتا ہے، وہاں کے عوام کی شکایات سنتا ہے۔ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ صوبے کے وسائل سے پورے ملک نے فائدہ اٹھایا لیکن اس صوبے کو سوئی کے مقام سے نکلنے والی گیس کی سہولت نہیں دی گئی۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ بلوچستان تانبے، سونے اور دیگر قیمتی معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ اور ان کا مناسب استعمال پورے ملک کی معاشی حالت تبدیل کر سکتا ہے۔ شہباز شریف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس دورہ میں صوبے کی خوشحالی و ترقی اور عوامی بہبود کے مسائل پر بھی بات ہوئی ہے لیکن بلوچ زعما، سیاسی لیڈروں اور عام طبقات کے ہمہ قسم نمائندوں نے بیک زبان ایک ایسے مسئلہ کا ذکر کیا ہے جو مصائب و مشکلات کے شکار اس صوبے کے عوام کے لئے بطور خاص پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ لاپتہ افراد کا معاملہ ہے جو کسی بھی طرح حل ہونے میں نہیں آتا۔

وزیر اعظم اس موقع پر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پاک فوج کی خدمات کا ذکر کرنا نہیں بھولے اور دہشت گردی میں اضافہ کی صورت حال پر تشویش کا اظہار بھی کیا لیکن لاپتہ افراد کے معاملہ پر انہوں نے بے چارگی کا اظہار کیا۔ اس کمزوری کو انہوں نے یہ کہہ کر چھپانے کی کوشش کی کہ وہ ’با اختیار‘ لوگوں سے اس معاملہ پر بات کریں گے۔ حکومت کے ترجمان اور شہباز شریف کے نمائندے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے ایسی رنگ آمیزی ضرور کر سکتے ہیں جس سے اصل بات کہیں بہت پیچھے رہ جائے لیکن بلوچستان کے لوگوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بطور وزیر اعظم شہباز شریف نے لاپتہ افراد کے مسئلہ پر تشویش کا اظہار تو کیا لیکن اس کے حل کے لئے کوئی وعدہ نہیں کرسکے۔ وہ یہ نہیں کہہ پائے کہ وہ ابھی وزیر اعظم بنے ہیں تاہم اس مسئلہ سے وہ پہلے سے آگاہ ہیں۔ وہ اپنی پہلی فرصت میں بطور خاص یہی کہنے بلوچستان آئے ہیں کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیت اور اختیار بروئے کار لاکر اس مسئلہ کی بیخ کنی کریں گے۔

کیا وجہ ہے کہ حکومت آتی ہے اور چلی جاتی ہے لیکن بلوچستان سے پر اسرار طور سے اٹھائے جانے والے لوگوں کی صورت حال تبدیل نہیں ہوتی۔ ہر وزیر اعظم بلوچستان کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور بلوچستان کے عوام کی نمائندہ پارٹیاں اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کا قصد بھی کرتی ہیں لیکن پھر امور حکومت میں وہ اس قدر مشغول ہوجاتا ہے کہ اسے یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ بلوچستان نام کا صوبہ بھی اس ملک کا حصہ ہے جہاں اگرچہ لوگوں کی کم تعداد آباد ہے لیکن اسی صوبے میں تعمیر ہونے والی گوادر بندرگاہ ملکی معیشت میں ’گیم چینجر‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر آئندہ دس پندرہ سال کے دوران ملک میں معاشی ترقی کا حقیقی کام ہونا ہے تو اس کے لئے وسائل درحقیقت اسی صوبے کی معدنیات سے حاصل ہوں گے۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس صوبے کے سیاستدان اور شہری اپنے نوجوانوں کو اٹھانے، تشدد کرنے اور ان کی لاشیں پھینک دینے کے واقعات کا مرثیہ پڑھتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے پاس ان کی آہ و زاری کا کوئی جواب نہیں ہے۔ وہ بس یہی کہتا ہے کہ اسے ’با اختیار‘ لوگوں کے سامنے رکھا جائے گا۔ کیا ماضی کے وزیر اعظموں کی طرح شہباز شریف نہیں جانتے کہ ان ’با اختیار‘ لوگوں کا کیا موقف ہے اور وہ کیوں اپنی طاقت کو بلوچ عوام کی آواز کچلنے کے لئے استعمال کرنے کے درپے ہیں۔

کوئی وزیر اعظم اگر بلوچستان کے عوام کے سامنے اپنی ایسی بے بسی اور بے اختیاری کا مظاہرہ کرے گا تو بتایا جائے کہ اس صوبے کے عوام کیسے اور کیوں اسلام آباد میں قائم ہونے والی حکومت پر اعتبار کریں اور کیسے امید کریں کہ انہیں کبھی اس ناگہانی استبداد سے نجات مل سکے گی۔ ملک کا آئین ہر شہری کے حق زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ وہی آئین جس کی دہائی دیتے ہوئے شہباز شریف ایک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم بنے ہیں، تمام پاکستانی باشندوں کو رائے کا حق عطا کرتا ہے اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا اختیار دیتا ہے۔ نامعلوم افراد اس صوبے کے گھروں میں چھاپے مار کر کسی قانونی کارروائی کے بغیر نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں ملتی کہ خاندانوں کے یہ چشم و چراغ کہاں غائب کر دیے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی تشدد شدہ لاش مل جاتی ہے یا کبھی کسی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ملک سے غداری کی تھی جس کی وجہ سے قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں نے انہیں قید کر رکھا ہے۔ لیکن ان لوگوں کو باقاعدہ قانونی و عدالتی کارروائی کے ذریعے انصاف لینے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ یا یہ اعلان سامنے آتا ہے کہ یہ لوگ اپنی مرضی سے ہمسایہ ملک چلے گئے ہیں جہاں وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔

کسی گھر سے ان کا بچہ اٹھا لیا جائے پھر تکلیف دہ بیانات کے ذریعے خاندان پر ملک دشمنی کی تہمت دھری جائے تو بتایا جائے کہ خیر سگالی کی کیفیت کیسے پیدا ہوگی۔ یہ تماشا نیا نہیں ہے۔ نہ ہی شہباز شریف کی کمزور اور کسی حد تک عبوری حکومت شاید اس مسئلہ کو مکمل طور سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن وزیر اعظم جب اس اہم اور صریحاً غیر قانونی طریقہ کار کے بارے میں کوئی ٹھوس اور حتمی بات کہنے کا حوصلہ نہ کرسکے تو اسے پاکستانی سیاست میں پائی جانے والی سنگین کمزوری اور کجی کی واضح علامت سمجھنا چاہیے۔ جو بھی سیاست دان عوام کی خدمت اور ملکی بہتری کے لئے اقتدار قبول کرتا ہے لیکن عوام کے ایک گروہ کی زندگیوں کے بارے میں اٹھنے والے سوال پر فوری اقدام کرنے کا وعدہ بھی نہیں کر سکتا، تو اسے جواب دینا چاہیے کہ وہ کیوں اس منصب پر فائز ہے۔ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہو کر شہباز شریف کو مسائل حل کرنے کا حکم دینا چاہیے لیکن وہ بلوچستان کے لوگوں کو بتا کر آئے ہیں کہ وہ پیامبر کے طور پر ان کی تکلیف ’با اختیار‘ لوگوں تک پہنچا دیں گے۔

یادش بخیر یہ صورت حال کوئی نئی نہیں ہے۔ آج امریکی سازش کی کہانی سنا کر قوم کو خود داری کا پیغام دینے والے عمران خان نے میڈیا اور سول سوسائٹی کے دباؤ اور اپنی ہی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کی درخواست پر جب گزشتہ سال کے شروع میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم کے وفد سے ملاقات کی تھی تو انہوں نے بھی شہباز شریف جیسا ہی بیان دیا تھا کہ وہ متعلقہ ’با اختیار‘ لوگوں کے سامنے یہ معاملہ اٹھائیں گے۔ کوئی حکومت بھی دو دہائی سے جاری اس اہم مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بحث کروانے اور موثر قانون سازی کرنے کی ہمت نہیں کر پائی۔

اب شہباز شریف ملک میں آئین کی بالادستی کے نمائندے بنے ہوئے ہیں اور عمران خان ’غیر ملکی سازش‘ کے خلاف قومی وقار و آزادی کا علم لے کر میدان میں اترے ہیں لیکن دونوں مل کر یہ بات طے کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتے کہ ملک میں حکومت سازی اور قومی معاملات میں پارلیمنٹ کو با اختیار بنانے کے لئے کام کیا جائے۔ ایسے میں نہ جانے آزادی کے کون سے مراحل کس مقصد سے طے کیے جا سکتے ہیں اور کون سے آئین کی بالادستی مقصود ہے۔ جب ملک کا وزیر اعظم بھی شہریوں کی حفاظت کے معاملہ میں ’با اختیار‘ نہ ہو تو مایوسی و نا امیدی کے اندھیرے میں روشنی کی کرن کہاں تلاش کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments