شعور ، ارتقا اور اخلاقیات


کیا اخلاقیات صرف مذہب کی ہی انسان سے متعارف کروائی گئی ایک صفت ہے، یا اس کا ماخذ کچھ اور سماجی، معاشرتی یا اقتصادی ضروریات ہوتی ہیں، ویسے تو مذہب نے ایک مہر بنا رکھی ہے، جو وہ نسل انسانی کی ہر نئی دریافت، ایجاد، علم اور اخلاقیات پر ثبت کر کے اس کی ملکیت کا دعویٰ کر دیتا ہے، الہامی کتب جو انسان کو خالق کی طرف سے مخاطب کرنے، اور ہدایت کے لیے نازل فرمائی گئیں تھیں، انسان آج تک ان کے ترجمے اور تشریح تک پر مکمل اتفاق نہیں کر پائے، اور وہ، آج اخلاقیات کی تشریح پر مکمل اجارہ مانگتے ہیں۔

اخلاقیات کے موضوع پر نظر ڈالنے سے پہلے اس کے موجود ”قدیم ترین ماخذ“ تک جانا پڑے گا اور گاہے بگاہے اس میں بوجوہ آنے یا لائی جانے والی تبدیلیوں کو بھی مدنظر رکھا جانا انسانی عقل و شعور اور انسان کے ارتقا کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، مثال کے طور پر انسانی سماج کے ابتدائی دور میں جسے شکار کا دور یا زمانہ بھی کہا جاتا تھا جب انسان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں شکار کے بہتر مواقع کی تلاش میں دور دور تک نکل جایا کرتے، دنیا میں انسانی آبادی کا قدیم ترین پھیلاؤ اسی دور میں وقوع پذیر ہوا، اس دور کی اپنی ”اخلاقیات“ تھیں، جو افعال بعد کے زرعی یا صنعتی ادوار میں جرم، برائی یا گناہ سمجھے گئے وہی افعال شکاری ادوار میں زندہ رہنے کے لیے لازمی ”اخلاقیات“ بلکہ ضرورت سمجھے جاتے تھے جیسے بے رحمی، دوسرے سے چھین لینا، کسی دوسرے کے کیے شکار کی چوری یہ سب اس دور کی اخلاقیات کا حصہ تھا جبکہ بعد میں زرعی دور اور گاؤں کی شکل میں قلعہ بند سماج کے قیام کے بعد یہ ہی قدیم اخلاقیات جو کبھی زندہ رہنے کے لیے ضروری خصوصیت تھی اب جرم اور گناہ بن گئی، اب کسی کے مال کو چھین لینا بری بات تھی، ذرا وسیع معاشرے کے قیام کے بعد بے رحمی زندہ رہنے کے لیے ایک لازمی صفت نہ رہی بلکہ برائی بن گئی، تاکہ سماج کو بکھرنے اور افراتفری سے محفوظ رکھا جا سکے، اسی طرح اس کے بعد جاگیرداری دور اور صنعتی دور کی اخلاقیات میں بھی ہمیں کافی فرق اور بدلاؤ دکھائی دیتا ہے، ول ڈیورانٹ اس موضوع پر لکھتے ہیں کہ ہر اچھائی کسی زمانے میں برائی رہ چکی ہے، اور ہر برائی کسی زمانے میں اچھائی رہ چکی ہے۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ لاکھوں برس کے ارتقائی سفر کو نظر انداز کر کے ہم ہزار ڈیڑھ ہزار سال سے انسانی اخلاقیات کا آغاز کریں، جبکہ ہمارے سامنے بالترتیب چار ہزار سال اور دو سوا دو ہزار سال قبل آنے والے الہامی مذاہب کی اخلاقیات کی تشریح، اطلاق اور پھر انجام کا تمام منظر نامہ ”آج“ ہمارے سامنے موجود ہے، یہ قدیم الہامی مذاہب تو اب یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ اپنی اخلاقیات کے وسیع تر معنوں اور دعویٰ اطلاق تک سے تقریباً دستبردار ہوچکے ہیں، لہذا باقی ماندہ کا بھی بالآخر یہی انجام ہونا ہے، جو پچھلے ماڈلز کا ہو چکا ہے، دنیا میں کسی دوسرے سیارے، گلیکسی یا اس سے بھی باہر کی اخلاقیات منطبق نہیں ہو سکتی، اور وہ بھی اس صورت میں جب اس کو ”جامد“ اور ناقابل تبدیلی بتایا جاتا ہو، جس طرح کسی بھی معاملے میں اس دنیا کے انسان مختلف طریقے اور اصول آزماتے ہیں، اور کامیابی کی صورت میں ان کو معاشرے پر نافذ کر دیتے ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تجربات اور ضروریات کی بناء پر ان میں تبدیلیاں بھی لاتے رہتے ہیں، جیسے کہ سماجی سائنس کا اصول ہے کہ کچھ عوامل کے نتائج تو قلیل المدتی ہوتے ہیں لیکن کچھ نتائج اور عواقب طویل مدت گزرنے کے بعد سامنے آتے ہیں، اور کچھ سماجی اور ذہنی ارتقا بھی نئے سوال پیدا کرتا ہے، لہذا اگر تو کسی ماورائے کائنات قانون اور اخلاقیات کی صریح پابندی ہو، تو اس کو تبدیل کرنا ناممکن ہوتا ہے، اور نہ ہی اس قانون کے خالق و ماخذ سے مکالمہ یعنی اس کو اپنی مشکلات اور اس کے دیے قانون اور اخلاقیات کے اطلاق میں مشکلات اور اس کے تضادات کو اس کے سامنے لا کر تبدیل کرانا ممکن امر ہے۔

اب یہاں ”:اجتہاد“ کی اجازت ہی تمام راز سے پردہ اٹھا دیتی ہے، کہ خیال آتا ہے کہ خالق ماورائے کائنات ہے، یا حاضر و ناظر ہے؟ کیونکہ اتنے با اثر اور باجبروت وجود کے موجود ہوتے ہوئے معمولی معاملات کو بھی رہنمائی اور تبدیلی کے نام پر واپس اجتہاد کے نام پر متاثرہ مخلوق کو ہی اجازت دے دینا، سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم ایک عالمی مشترکہ انسانی اخلاقیات کے قیام کی کوششیں کریں، کیونکہ ذرا غور فرمائیے تو تمام استحصال اور تقسیم میں عدم توازن اور ظلم و جبر کے جواز کے طور پر مختلف مذہبی و قومی گروہ اپنی اپنی مذہبی یا قومی اخلاقیات کو ہی ایک جواز یا ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ اب تو ایک نئی قسم کی اخلاقیات کا ذکر بھی سننے میں آتا ہے جسے سرمائے کی اخلاقیات کہا جاتا ہے۔

یہ دروازہ بند کئیے بغیر ہم شرف انسانیت اور معراج انسانیت کے بارے میں سوچ تک نہیں سکتے، اس ضمن میں سب سے طاقتور ہتھیار مذہب ہی ہے اور پہلے بھی رہا ہے، ہزاروں سال قبل انسان کسی بھی چیز یا خیال یا علامت کو سجدہ کر کے اس کے آگے چڑھاوے، چڑھا کر، قربانیاں یا بھینٹ دے کر، کسی معاملے پر کسی دوسرے پہلو سے سوچنے سے پہلو تہی کر لیتا، اور غیر مرئی یا مرئی دیوتا یا اس کی علامت، کی مرضی کے تشریح کنندگان کی تشریحات کے مطابق کافی اعمال میں ایک طے شدہ اور ہدایت کردہ ”اخلاقیات پر بخوشی اکتفاء کر لیتا جبکہ اس تعمیل کے ساتھ مرنے کے بعد کی طویل زندگی کے انعامات یا نافرمانوں کے لیے تعذیب بھی منسلک ہوتی، آج تک ہزاروں سال گزرنے کے باوجود یہی سلسلہ“ کامیابی ”سے چل رہا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ پہلے ماضی کی طرح یہ دنیاوی کامیابیاں اور اختیار عام انسانوں کی اکثریت کے حصے میں کم ہی آتے ہیں، اور دنیا کی انسانی آبادی کی اکثریت ہمیں بنیادی انسانی ضروریات سے محروم دکھائی دیتی ہے، اس اکثریت کو اپنے انسانی حق کے شعور سے بے خبر رکھنے کے لیے، لاعلمی اور جہالت، استعماری اور استحصالی طاقتوں اور ان کے نمائندوں و کارندوں کا سب سے کامیاب ہتھیار ہے، جبکہ ساتھ مذہب کے وعید اور اخلاقیات بھی ان ہی طاقتوں کے مدد گار کے طور پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں، خصوصاً تب جب وہ دنیا کے اقتصادی نظام کا کنٹرول اور امارت و غربت کے تعین کا حق و اختیار بھی خالق کے ذمے ہی بتاتے ہیں۔

ویسے تو انسان کا علمی اور شعوری ارتقا ان نقائص کے سدھار کا کام بہت سست رفتار سے کر ہی رہا ہے، لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ پچھلے ہزاروں سال کی طرح بے شمار بے بس اور محروم! انسان، آئندہ بھی ہزاروں یا سینکڑوں سال تک اسی طرح تاریکی میں مارے جاتے رہیں، یا انسانی شعور اور علم کی اس بارے میں کوئی“ اخلاقی ذمہ داری ”بھی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments