اظہار رائے کی آزادی


پاکستان میں سیاہ قانون بنانے اور ان کو بدلنے کی جدو جہد کی تاریخ پرانی ہے۔ یہ قوانین نئی نئی شکلوں میں سامنے آتے رہتے ہیں، اور ان کے خلاف جدو جہد کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اطلاعات کی نئی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وہ قانون جو عوام کے اظہار رائے کے آئینی حق کی نفی کرتا ہو، ایسا کوئی سیاہ قانون نہیں بنایا جائیے گا، اور نہ ہی ایسے کسی قانون پر عمل کیا جائیے گا۔ انہوں نے پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ نئے وزیر قانون پیکا کا بھی از سر نو جائزہ لیں گے۔ یہ قانون سن دو ہزار سولہ میں نواز شریف دور حکومت میں بنایا گیا تھا۔ لیکن وزیر اطلاعات کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کے دوران اس قانون کو صحافیوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا۔ اس قانون میں کچھ خامیاں ہیں، جن کا جائزہ لیا جائیے گا۔ انہوں نے آزادی اظہار رائے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئیے کہا کہ آزادی اظہار رائے نا صرف سماج کی نشوونما میں معاون ثابت ہوتی ہے، بلکہ یہ حکومت کی کارکردگی اور عمل کو بھی بہتر بناتی ہے۔

وزیر اطلاعات نے جو فرمایا وہ ایک اچھا اعلان ہے۔ مگر اس اعلان کا عملی اطلاق دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائیے تو عموماً ارباب اختیار ماضی میں اس طرح کے خوش کن اعلانات تو کرتے رہے ہیں، مگر عمل کی دنیا میں ان کے اقدامات ان اعلانات کے بر عکس رہے ہیں۔ اس عمل میں شاید ہی کوئی حکومت ہو، جسے مستثنی قرار دیا جا سکے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ قانون خود مسلم لیگ کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا۔ اس وقت یہ قانون بظاہر سانبر کرائمز یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس قانون کا اطلاق پاکستان کے ہر شہری پر ہوتا تھا، خواہ وہ کئی بھی مقیم ہو۔ اس قانون کا بیان کردہ مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے الکٹرانک فراڈ، چائلڈ پورنو گرافی، پراہیویسی اور انٹر نیٹ کے ذریعے ہراساں اور” بلیک میلینگ” وغیرہ جیسے سنگین جرائم پر قابو پانا تھا۔ لیکن اس قانون سازی کے وقت انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر یقین رکھنے والے لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ قانون آزادی اظہار رائے کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس قانون میں موجود خامیوں سے فائدہ اٹھا کر ارباب اختیار پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس قانون کے ذریعے عام شہریوں کے ان حقوق کو محدود کیا جا سکتا ہے، جو ان کو ملک کا دستور دیتا ہے۔ اس بل کی مخالفت کرنے والوں کا یہ واضح موقف تھا کہ یہ قانون، پرائیویسی، اظہار رائے اور انٹرنیٹ کے آز ادانہ استعمال کے خلاف ہے۔ ان خدشات کے اظہار باوجود اگست انیس سو سولہ میں اس قانون کو لاگو کر دیا گیا۔ اس قانون میں واضح طور پر ایسی دفعات شامل تھیں، جن میں اتنا بڑا ابہام تھا کہ ارباب اختیار اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اس طرح یہ قانون ان اصولوں اور تقاضوں سے متصادم تھا، جو انصاف کرنے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، اور قانون و آئین میں ان کو تحفظ حاصل ہے۔ اسی وجہ سے اس خدشے کا بڑے پیمانے پر اظہار کیا گیا تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل انیس پاکستان کے شہریوں کو آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن نئے قانون کے تحت انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی مواد کو بغیر کسی نوٹس اور قانونی کاروائی کے صرف ایک حکم کے ذریعے ہٹایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح  پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چودہ کے تحت پاکستان کے شہریوں کو ان کی پرائیویسی کا حق حاصل ہے۔ کسی کی پرائیویسی میں مداخلت کے لیے وارنٹ اور قانونی کاروائی ضروری تصور کی جاتی ہے۔ مگر اس قانون کے تحت کسی بھی شخص سے اس کے کمپیوٹر میں پایا جانے والا دیٹا بغیر وارنٹ کے محض ایک حکم کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ آئین کے ان دو دفعات کی خلاف ورزی کے علاوہ یہ قانون بین الاقو امی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تصورات کے خلاف تھا۔ یہ قانون مسلم لیگ حکومت نے بنایا اور شاید بناتے وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ قانون خود ان کے، اور ان کے حامی صحافیوں کے خلاف استعمال ہو گا۔ حالاں کہ ماضی کا تلخ تجربہ بار بار اس کی تصدیق کرتا ہے کہ جب کبھی بھی حکمران طبقات نے کوئی سیاہ قانون بنایا آگے چل کر کسی نہ کسی طریقے سے وہ خود اس قانون کا شکار بنے۔

عمران خان کے دور میں اس قانون میں ترمیم کے لیے صدارتی آرڈینینس لایا گیا۔ اس ترمیم کے تحت اگر اس قانون میں کوئی کسر رہ گئی تھی، تو وہ بھی پوری کرتے ہوئیے سزاؤں میں اضافہ کیا گیا۔ اس ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر دینے والے کو پانچ سال تک قید ہو سکتی تھی۔ اس قانون کا دائرہ کار پھیلا کر کچھ اداروں کو بھی شامل کی گیا، جن پر تنقید کو جرم قرار دیا گیا۔ اور اس میں یہ بھی اضافہ کیا گیا کہ اس قانون کے تحت جن لوگوں کو چارج کیا جائیے گا، ان کو چھ ماہ تک ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس ترمیم کے تحت کسی ادارے یا شخص کو بدنام کرنے کی سزا کی مدت کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کیا گیا۔ اس قانون میں خاص بات یہ شامل کی گئی کے اس قانون کے تحت شکایت کندہ کا کسی سرکاری یا ادارتی حیثیت کا حامل ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ کوئی بھی شہری ایک درخواست دے کر کسی شخص کے خلاف کاروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس قانون میں پاکستان کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کو تحفظ دینے کے نام پر اس طرح کی گنجائش پیدا کر دی گئی کہ اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی بھی شہری اور سیاسی یا نظریاتی مخالف کو اس قانون کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا ہاوسز کو پابند کیا گیا کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر پاکستان میں اپنے دفاتر کھولیں، اور کسی شکایت کی صورت میں سات دن کے اندر اندر ایک آفسر کو نامزد کریں، جو شکایت سن کر فیصلہ کرے۔ اس قانون کے خصوصی ٹارگٹ سوشل میڈیا تھا، جن میں فیس بک، ٹوئیٹر، ٹک ٹاک، ِ ٹیوب اور دوسرے پلیٹ فارم شامل تھے۔ یہ قانون واضح طور سوشل میڈیا سے خوف زدہ لوگوں کا عمل تھا، جو نفسیاتی طور پرعدم تحفظ کا شکار تھے، اور آزادی اظہار رائے سے خوف زدہ تھے، اور سماجی تبدیلیوں سے ڈرتے تھے۔

 اس قانون کے خلاف ظاہر ہے بڑے پیمانے پر رد عمل ہوا۔ صحافیوں کی تنظیموں نے قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا۔ اگرچہ یہ ایک راستہ تھا جس پر چلنے والوں کے ماضی کے تجربات کوئی زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک پٹیشن کی سماعت کے بعد پیکا ترمیمی آرڈینینس کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ کورٹ نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل انیس کے تحت آزادی اظہار کو تحفظ حاصل ہے۔ اور اسی طرح معلومات کے حصول کے حق کو بھی تحفظ حاصل ہے۔ آزادی اظہار رائے اور فریڈم آف انفارمیشن ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہیں۔ ان حقوق کو دبانا غیر آئینی ہے، اور جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ یہ ایک قابل تعریف فیصلہ ہے، جو ماضی کے ظلم و جبر کا مداوا تو نہیں کر سکتا، مگر مستقبل کے لیے امید کے چراغ ضرور روشن کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments