میرے پاکستانیو


کبھی کبھی مجھے شدت سے یہ احساس ہوتا کہ ہمارے ملک کے اکیس کروڑ ننانوے لاکھ نوے ہزار لوگ شارٹ ٹرم میموری لوس کا شکار ہیں۔ بچ جانے والے دس ہزار میں سے بھی چند ہی ایسے ہوں گے جن کو باتیں کرنے والوں کی باتیں نہیں بھولتیں۔ کیونکہ وہ نہ تو باتوں میں آتے ہیں نہ ہی یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان باتوں میں کوئی سچائی ہے۔
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہر دوسرا بندہ ملک میں جاری مہنگائی کی لہر، بےروزگاری، معاشی ابتر صورتحال اور مذہبی شدت پسندی سے تنگ تھا۔ ریاست کے رکھوالے ہر پلیٹ فارم پہ اپنے دفاع میں کچھ بھی کہنے کے لیے الفاظ نہ رکھتے تھے۔ یکایک ملک میں تبدیلی کی ایک ایسی لہر چلی کہ وقت بدل گیا، حالات بدل گئے اور جذبات بھی بدل گئے۔
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ عوام حکومت سے جانے والے حکمرانوں سے سوال کرتے، الٹا سابقہ حکمرانوں نے عوام کے ہاتھ میں ایک نیا سازش اور دھمکی سے اٹا لولی پاپ پکڑا دیا۔ وہی عوام جو پانچ سو روپے کلو گھی خریدتے ہوئے حکمرانوں کو کوستے تھے، انہی نے ناچتے گاتے لالی پوپ سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیا۔ او پئی جے اصل گل۔
بدقسمتی یا خوش قسمتی کچھ بھی کہہ لیجئیے مگر میں اور میرے عم عصر و عمر لوگ ایسی جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے چیزوں کو بہت تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا۔ سو ہمیں یہ باتیں تو اپیل نہیں کر سکتیں کہ امریکہ ہمارے جیسے ملک کے خلاف سازش کرے گا، جو پہلے سے ہی اس کے قدموں میں پڑا ہوا ہے۔
ہم بچے تھے تو ہم بھی جب کبھی الیکشن ہوتے تو گلیوں میں نعرے لگاتے پھرتے۔ ان دنوں جو مقبول عام نعرے تھے وہ یہی تھے کہ پی پی والے نواز شریف کو چور کہلواتے۔ اور ن والے پی پی کو چور کہلواتے۔ بیچ بیچ میں جماعت اسلامی کے قاضی صاحب بھی نعرہ لگاتے کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے۔ میرے نانا ہمیشہ اس کے اشتہار پہ ٹوکرا بھر کے عزت افزائی کرتے تھے تو مجھے حیرت بھی ہوتی کہ چور تو نواز اور بے نظیر ہیں مگر عزت افزائی قاضی صاحب کی کیوں ہوتی ہے۔ اس کا پتہ تب چلا جب وہ حیات نہ رہے۔
خیر موجودہ صورت حال پہ بات کرتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستانی سیاست کا جو حال ہو چکا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ دو ہزار بارہ سے دو ہزار بائیس تک میں جوان ہونے والی نئی نسل کے وہ نوجوان جن کے جیب خرچ تک ان کے والدین نے اٹھا رکھے ہیں۔ ان کا سیاسی طور پہ ایکٹو ہونا تو ایک اچھی بات ہے۔ لیکن اس میں شعور اور عقل کے فقدان کو ہم صحت مند عمل نہیں کہہ سکتے۔
یہاں میں ایک مثال سے اپنی بات شاید زیادہ موثر انداز میں آپ کو سمجھا سکوں۔ پڑھئیے۔
Tolerance in a civilised society
سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا برداشت۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سُنتے تھے۔ یہ بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے۔ سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا، اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا یا دھمکی دیتا تھا، یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا۔ اس طالب علم کو فوراً اس درسگاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔
سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ھے۔ سوسائٹی میں جب برداشت کم ہو جاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ھے۔ اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ھے۔ اس کا کہنا تھا اختلاف دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے۔ یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے۔ اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے وہ کہتا تھا،
“کوئی عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے اور وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے”۔
ارسطو کی اس بات کو آپ پوری سوسائٹی پہ لاگو کر کے دیکھ لیجئیے۔ آپ کو آج کل ہر دوسرا بندہ بے صبرا، غصیلا، بدتمیز اور لڑنے مرنے پہ تیار نظر آئے گا۔ گزشتہ دس سالوں میں جو نوجوان نسل پروان چڑھی ہے ان میں صبر و تحمل نام کی چیز ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ میں یہاں پہ ان سے زیادہ قصوروار ان کے سیاسی لیڈران کو سمجھتی ہوں۔ جنہوں نے ان کی سیاسی تربیت کی بجائے انہیں صرف نقل اتارنا، گالی گلوچ اور ٹرولنگ ہی سکھائی۔ یہاں لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ لیڈر پہ یہ الزام کیوں۔ تو جناب عالی جب آپ کے لیڈر ڈائس کی دوسری طرف سے بلاول بھٹو زرداری کو صاحبہ کہیں گے۔ جب آپ مریم نواز کا ذکر نانی کے نام سے کر کے حقارت سے بات کریں گے۔ تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کو دیکھنے والے آپ کی تقلید نہیں کریں گے؟۔
چند سوال میرے اپنے پاکستانی قوم سے بھی ہیں کہ آپ سب لوگ بھلے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ کبھی میں نے عوام کو متحد ہو کے کسی جبر کسی ظلم کے خلاف تو یوں اکٹھے ہو کے سڑکوں پہ نکلتے نہیں دیکھا۔ موٹر وے ریپ کیس کی وکٹم کے متعلق بیان ہوں، یا عورتوں کے لباس پہ تنقید کر کے انہیں قصوروار ٹھہرانے کی بات ہو۔ میرے پاکستانی گھروں میں سوئے رہے۔
میرے پیارے پاکستانی تب بھی چپ رہے جب ایک سو ستر والا گھی بڑھتے بڑھتے پانچ سو پہ پہنچ گیا۔ جب چینی آٹا پٹرول عام آدمی کی قوت خرید سے دور ہو گیا۔ تب بھی کسی سڑک کسی چوک پہ مجھے کوئی پاکستانی آواز اٹھاتا نہیں نظر آیا۔
مذہبی شدت پسندی کے نام پہ سڑکوں پہ قتل و غارت ہوتی رہی۔ ہزار ہزار روپے بانٹتے ہوئے چہرے ہم نے خود دیکھے۔ مگر کتنے پاکستانی اس کو ٹویٹر ٹرینڈ بنانے میں ہی سہی، آگے آئے۔
مشعال خان کا قتل ہو یا پریانتھا کمارا کی المناک موت، مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں پولیس کے جوانوں کی موت ہو یا بم دھماکوں میں مرنے والے اداروں کے جوان۔ کس جماعت کے لیڈران یا کارکنان سڑکوں پہ نکلے۔ کون سے عام پاکستانی اس پہ احتجاج کرتے نظر آئے۔ اوور سیز پاکستانیوں کے کون سے گروپس نے ان تمام چیزوں کی مذمت کی۔ یا یہ بیان دیا کہ دنیا کے سامنے ہمارے ملک کی عزت خاک میں مل رہی ہے۔ کہیں کچھ ہے تو بتائیے گا ضرور۔
یہاں تو یہ حال ہے کہ ملک میں نہ ہی ہم مذہب محفوظ ہیں نہ ہی اقلیتیں۔ یورپی و امریکی معاشروں میں رہنے والے وہاں کے شہریوں کے برابر کے حقوق کے مزے اڑاتے ہوئے صرف اس بات کا جواب دے دیں کہ آپ کے ملک میں ایک مشہور بیکری کے مالک کو اپنی بیکری کا نام ہٹا کے وہاں کلمہ لکھنا پڑے تو کیا یہ ریاست کی ناکامی نہیں۔
جس ملک میں اقلیتیں کھل کے اپنی مذہبی عبادت گاہوں میں نہ جا سکیں، اپنے تہوار نہ منا سکیں۔ کیا ان لوگوں کے لیے سو پچاس لوگ بھی کبھی سڑکوں پہ یا سوشل میڈیا پہ ہی نظر آئے۔
کبھی ان کے لیے ٹرینڈ کیوں نہ بنے۔ سندھ کی ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی پہ کبھی کوئی ٹرینڈ کیوں نہ بنا۔ کیا وہ انسان نہیں۔
کبھی بلوچ مسنگ پرسنز کے لیے پیش ٹیگ کیوں نہیں لگتے۔ ان کی مائیں کیا مائیں نہیں؟
ہمارے سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ جب کرسی پہ بیٹھے ہوں تو اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ اور جب کرسی سے اتر جائیں تو سارے جہاں کا درد ان کے جگر میں سما جاتا ہے۔
بچپن سے آج تک مجھے تو یہ سمجھ نہ آ سکی کہ امریکہ کے یار اگر غدار ہیں تو یہ بھاگ بھاگ کے وہاں کیا کرنے جاتے ہیں۔ امریکی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے۔ امریکی پاسپورٹ کے لیے مرے کیوں جاتے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب بھی یقینا کسی کے پاس نہیں۔ اپنی اولادوں کو برطانیہ اور امریکہ میں رکھنے والے ہمارے بچوں کے لیے ان کے وطن کی مٹی کو گندا کرنے پہ کیوں تلے ہیں سمجھ سے باہر ہے۔
سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی رکھنا قطعا بری بات نہیں۔ مگر عقیدت میں اندھے ہو کر اپنے ہی لوگوں پہ غدار اور غلام کے فتوے لگانا کہاں کا انصاف ہے۔ یعنی آپ یہ رویہ اختیار کرنے لگے ہیں کہ آپ کے لیڈر سے اگر سوال کیا جائے تو گستاخی کے مرتکب ہوں گے۔ شخصیت پرستی میں اس حد تک پڑ جائیں گے کہ اپنے ہی رشتے داروں دوستوں تعلق داروں کے ساتھ گالم گلوچ پہ اتر آئیں گے۔
چند جرنیلوں کی پالیسیز پہ تنقید کی بجائے ملک اور اداروں کو گالیاں دیں گے۔ اس ملک کا جھنڈا و پاسپورٹ جلائیں گے جس نے آپ کو شناخت دی۔ اپنے بارڈر پہ لڑتے ہوئے جان دے دینے والے اس سپاہی کو بھی برا کہیں گے جو آپ کی حفاظت کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوا ہو۔
آپسی رنجش کو توہین مذہب کی آڑ  لے کر قتل کرنے والوں کے خلاف کتنے لوگ باہر نکلتے ہیں۔ چار دن پہلے ایک جوان اسی بنیاد پہ مار دیا گیا۔ کیا اس کا خون اتنا سستا تھا کہ اسے ہے در پے چھریاں مار کے قتل کر دیا جائے۔ اور بچنے کے لیے توہین مذہب لگا دی جائے۔ کیا ہم بلیک لسٹ ہونے کی طرف نہیں بڑھ رہے؟
جب نواز شریف، بے نظیر سمیت تمام سیاستدان سوالوں کے کٹہرے میں لائے جا سکتے ہیں تو عمران خان کیوں نہیں ۔ ملک نہ تو کرکٹ گراؤنڈ ہے نہ ہی شوکت خانم ہسپتال۔ نہ ہی یہاں رہنے والی عوام گیند ہے جسے آپ دھوتے رہیں گے۔ اپنی چار سالہ بری کارکردگی کو ایک ایسے فسانے میں ڈھالنا جس کا سرا کسی کے ہاتھ نہ آئے۔ آپ کے فالورز کے لیے تو قابل قبول ہو سکتا ہے کسی ایسے پاکستانی کے لیے نہیں، جو اپنا دماغ استعمال کرنا جانتا ہو۔
امریکی فون ہاتھ میں پکڑے امریکی کموڈ پہ بیٹھ کے امریکی ایپس پہ امریکہ کو گالیاں دینے والے پاکستانیوں سے میرا سوال یہ ہے کہ انسان جس سے نفرت کرتا ہو۔ اس کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتا۔ تو آپ لوگ سب سے پہلے یہ قربانی اپنی ذات سے کیوں نہیں دیتے کہ ان سب امریکی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کر دیں۔ اپنے امریکی پاسپورٹ جلا دیں۔ اپنے امریکن نیشنل بچوں کو واپس وطن کے کر آئیں۔ اور پاکستانی روپے کما کے پاکستان میں ہی خرچ کریں۔ پھر بتائیں کہ کس بھاؤ زندگی گزرتی ہے۔
انقلاب لانے کے لیے پہلے عام آدمی کی بات عام آدمی میں بیٹھ کے کرنی پڑتی ہے۔ اپنے طرز عمل سے اسے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد عوام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ساتھ کھڑے ہوں۔ مگر یہاں سب قربانیاں عوام کے لیے ہیں اور سب عیاشیاں حکمرانوں کے لیے ہیں۔
ہمارے اصل مسائل روٹی کپڑا مکان اور شدت پسندی سے پاک ریاست ہے۔ جو ان کے لیے بات کرے گا اور کام بھی کرے گا۔ وہی ہمارا لیڈر ہے۔ باقی سب ڈرامے۔ باتوں سے تو شیخ چلی بھی انڈوں سے بھینسوں کے فارم بنانے تک پہنچ گیا تھا۔ پر اصل میں اس نے انڈے بھی تڑوا لیے تھے۔
مجھے کسی کے بھی سیاسی جماعت اور ان کے لیڈران سے محبت پہ کوئی اعتراض نہیں۔ میرا اعتراض بس یہ ہے عقیدت کے نام پہ اس شخصیت پرستی سے باہر نکلیں۔ آپ اپنی محبت کا اظہار الیکشنز میں کریں۔ اپنے پسندیدہ لیڈرز کو ووٹ ڈالیں اور رزلٹ کا انتظار کریں۔
آپ کے سرٹیفکیٹ سے نہ تو کوئی غدار بن جائے گا نہ ہی کسی کو اس سے فرق پڑتا ہے۔ سوال تو ہوں گے ہر اس لیڈر سے جو ایماندار ہونے کا دعویٰ کرے گا۔
کروڑوں کے تحائف چاہے کسی حکمران نے بیچے ہوں، اگر جواب دہ پرانے حکمران ہیں تو نیا بھی ہے۔ ہر غلطی ہینڈسم نیس کے پیچھے نہیں چھپ سکتی۔
سیاست کو سیاست رہنے دیں۔ سیاست میں فرقے مت بنائیں۔ فرقہ عمرانیہ والے فرقہ لیگیا اور فرقہ جیالیا کو برداشت نہیں کرتے۔ اور مؤخر الذکر والوں کی اول الذکر سے نہیں بنتی۔ عنقریب نکاح، طلاقیں اور قتل تک انہی وجوہات پہ ہونے لگ جائیں گے۔ خدا اس وقت سے بچائے بس۔
کوشش کی ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو لیکن اگر آپ پہلے ہی دکھی ہیں تو پڑھنے سے گریز کیجئیے گا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments