میرا دل اپوزیشن کے ساتھ لیکن ووٹ عمران خان کا


اے این پی کے کارکنوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ ناراض ہوجائیں تو وہ پارٹی میٹنگز اور جلسوں میں جانا چھوڑ دیتے ہیں اور لیڈروں سے ملنا جلنا تک ترک کر دیتے ہیں لیکن جب الیکشن کا دن آتا ہے اور وہ بیلٹ پیپر پر لالٹین کا نشان دیکھ لیتے ہیں، تو ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں، آنکھوں کے سامنے باچا خان بابا کی تصویر پھر جاتی ہے، عشق عقل پر غالب آ جاتا ہے اور لالٹین کی مقناطیسی کشش ان سے مہر تصدیق ثبت کرا لیتی ہے۔

بہ ظاہر میں عمران خان کی جتنی بھی مخالفت کروں لیکن ووٹ میں نے ہر دفعہ عمران خان کو ہی دیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ امید۔ مجھے ہر دفعہ یہ امید رہی کہ عمران خان ہی وہ شخص ہے جو یہ نظام ٹھیک کر سکتا ہے۔ میں جانتا تھا کہ میں (شاید) غلط ہوں مگر بہتر آپشن کے طور پر ہمیشہ حتیٰ کہ آخری بلدیاتی انتخابات تک میں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔

مجھے باقی سیاسی یا مذہبی سیاسی پارٹیوں سے کبھی شکوہ نہیں رہا کیوں کہ ان سے میں نے (نظام کی درستی کے حوالے سے ) کبھی کوئی توقع رکھی ہی نہیں۔

محترم عمران خان صاحب! آپ کی صوبہ پختون خوا میں پچھلے نو سال سے حکومت ہے مگر کیا پولیس، پٹوار، تعلیم اور سی اینڈ ڈبلیو سمیت کوئی محکمہ ایسا ہے جس میں کوئی واضح تبدیلی آئی ہو۔ یہ تمام محکمے آج بھی کرپشن کے گڑھ ہیں۔

سرکاری کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جو تعلیم پہلے مفت تھی، وہ اب اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ اوسط درجے کے لوگ اس کا بوجھ مشکل سے اٹھاتے ہیں۔

آج بھی زمینوں کے انتقال میں بھاری رقم دینی پڑتی ہے۔ محکمۂ تعمیرات کے ٹھیکوں میں آج بھی اسی تناسب سے کمیشن مانگا اور دیا جاتا ہے، پولیس کے تھانوں اور ماتحت عدالتوں میں آج بھی انصاف خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ تھانے کے ایس ایچ کو مہینے کی ہر پہلی تاریخ کو ”ماہواری“ آتی ہے۔

یونی ورسٹیوں میں آج بھی طلبہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں کہ پروفیسر صاحب ان سے کسی بات پر ناراض ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ڈگریاں سالہا سال سے رکی ہوئی ہیں۔

ہمیں امید تھی کہ آپ تمام محکموں کو اتنا مضبوط بنا لیں گے کہ ہمیں کسی سفارش کی ضرورت ہی نہیں رہے گی مثلاً اگر بجلی کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہو گا تو پیسکو کے مقامی دفتر کو ایک فون کال ملائیں گے اور وہ دوڑے دوڑے آئیں گے، مسئلہ ٹھیک کر کے چلے جائیں گے، مگر آج بھی حال وہی ہے جب بجلی کا ٹرانسفارمر خراب ہو جائے تو ایم پی اے صاحب کے پاس جرگہ لے کر جانا پڑتا ہے۔ ہم نے اپنے محلے کی سطح پر کئی دفعہ چندہ اکٹھا کیا تاکہ سرکاری اہلکار کام میں تاخیر نہ کریں اور اس پر مستزاد ایم پی اے صاحب سے سفارش بھی کروائی، تب کہیں جاکر روٹھی محبوبہ کی طرح بجلی لوٹ آئی، پہلے بھی یوں تھا، اب بھی ویسے ہی ہے۔

ہمارے ایک محلے دار کا بجلی کا بل غلطی سے ایک لاکھ روپے آیا، اس بل کو درست کروانے کے لیے اس کے جوتے گھس گئے مگر بل درست نہ ہوا، مجبوراً اس نے رشوت دی اور کام ہو گیا۔ یہی حال سوئی گیس کا بھی ہے جہاں آج بھی دفتر میں نئے کنکشن کے لیے ان کی ہتھیلی گرم کرنی پڑتی ہے۔ اس سب میں اور پرانے والے سب میں کیا آخر کیا فرق ہے؟ ایاک نعبد کہنے سے آپ کا اپنا ایمان تو مضبوط ہو سکتا ہے مگر واپڈا کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

جس طرح صحت کارڈ، این ٹی ایس نظام کے تحت بھرتیاں اور سٹیزن پورٹل جیسے اچھے کام آپ نے کیے، اس طرح باقی اداروں اور محکموں میں بھی آپ تبدیلیاں لا سکتے تھے۔

پیارے عمران خان صاحب! مہنگائی کو ہم عالمی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، ڈالر، اسٹیٹ بینک، مانیٹری پالیسی، جی ڈی پی جیسی مشکل اصطلاحات بھی ہم عالمی سازشوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں مگر آپ جو کر سکتے تھے وہ آپ نے کیوں نہیں کیا؟ بس یہی ایک معصومانہ سوال ہے۔

نواز شریف صاحب ہزارہ کو صوبہ بنانے کا اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے، آپ نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، آپ کے پاس چار سال میں اس کا موقع بھی تھا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔

ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ ایک چھوٹا یا اوسط کاروباری شخص اس جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتا کہ وہ خود کو ٹیکس دہندہ کے طور پر رجسٹر کروائے کیوں کہ پھر محکمے والے اتنا تنگ کرتے ہیں کہ بندہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوا پھرتا ہے۔ بڑے سرمایہ دار اور کارخانہ دار ٹیکس افسران سے ملی بھگت کر کے اپنا کھاتا آج بھی اسی طرح درست رکھتے ہیں۔ کتنے ایسے کاروباری لوگ ہیں کہ جو آج بھی بینک کے بجائے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجواتے اور وصول کرتے ہیں۔ آپ اس نظام میں اصلاح کر سکتے تھے۔

آپ کے پاس سنہری موقع تھا کیوں کہ عدلیہ، فوج، نیب، ایف آئی اے اور اپوزیشن وغیرہ سب آپ کے دست و بازو تھے۔ عدالتوں سے آپ کو صداقت و امانت کی سندیں بھی ملیں جو آپ اپنے سینے پر سجائے پھرتے تھے۔

ہم بہ حیثیت ووٹر یہ پوچھنے میں حق بہ جانب ہیں کہ آپ سے پہلے والی حکومتیں اگر مزید برسر اقتدار رہتیں تو اس میں کیا برائی تھی کیوں کہ جب آپ کی اور ان کی حکومتوں میں کوئی فرق ہی نہ تھا تو پھر چاہے امام دین حکمران رہے یا امام شاہ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

عوام کی آپ کے ساتھ محبت اور عقیدت کا یہ عالم ہے کہ لوگ آپ کی خاطر مینار پاکستان سے کودنے اور اپنی اولاد تک کو ذبح کرنے کو تیار ہیں، ایسی عقیدت اور اندھی تقلید صرف مذہبی پیشواوٴں کے حصے میں ہی آتی ہے۔

آپ کے پاس اب بھی وقت ہے کہ آپ تحریک انصاف کو سیاسی فرقہ بننے سے نہ صرف روکیں بلکہ اسے ایک منظم اور حقیقی جمہوری پارٹی بنائیں جہاں فیصلے واقعی کارکنوں کی مرضی و منشا سے ہوں، جہاں کوئی گھس بیٹھیا راتوں رات پارٹی کا صوبائی صدر اور مرکزی رہنما نہ بنے۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کا ذائقہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے، اگر خدا نہ خواستہ کل کلاں کو آپ اس دنیائے رنگ و بو میں نہیں رہتے تو اس پارٹی کا کیا بنے گا، آپ کا تو کوئی وارث بھی نہیں ہے جو آپ کی سیاسی گدی کا جانشین بنے، کیوں کہ یہاں تو سیاسی پارٹیاں مذہبی فرقوں اور وراثت میں ملی جاگیر کی طرح اولادوں ہی کو منتقل ہوتی ہیں۔

اب بھی آپ کے پاس وقت ہے کہ آپ تحریک انصاف کو مستقبل کی کنگ پارٹی بننے سے روکیں۔
ہمارا ووٹ پہلے بھی آپ کا تھا، آئندہ بھی آپ ہی کا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments