انسانیت کا قتل


ان کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے ڈاکٹر پہلے ہی صاف طور سے کہہ چکے تھے کے آپ کے یہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں کو ہی بچے بہت پسند تھے اور اب تو انھیں ہر بچہ اچھا لگتا، گلیوں میں پھرتے میلے کچیلے بچے بھی اچھے لگتے۔ بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کے ان کو بچہ ایڈاپٹ کر لینا چاہیے۔ انھوں نے بڑے ارمانوں سے ایدھی سینٹر میں فارم جمع کرایا اب ایک ایک دن گن گن کر گزر رہا تھا۔ وہ ان لمحات کے تصور سے ہی خوش ہوتے رہتے جب ان کی گود میں بھی ایک پھول جیسا بچہ ہو گا۔ وہ ہر دفعہ ایک جوش و امید کے ساتھ ایدھی سینٹر فون کرتی لیکن ہر دفعہ جواب ہوتا کہ ابھی ہمارے پاس کوئی بچہ نہیں آیا۔ ایسے ہی سال گزر گیا لیکن اس وقت کتنی حسرت ہوئی ہوگی جب انھوں نے ایدھی سینٹر میں یہ لکھا دیکھا کہ ”ایدھی میٹھادر سینٹر میں ژندہ بچے نہیں آرہے ہیں جس کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لئے فارم لینا اور دینا بند کر دیا گیا ہے“ ۔

یہ ایک جوڑے کی کہانی نہیں ایسے نا جانے کتنے جوڑے ہیں جو کسی بچے کے ذریعہ اپنے ویران گلشن میں بہار کا انتظار کر رہے ہیں۔ جو کسی بچے کو اپنا کر اسے اچھی زندگی، اچھی تعلیم اور وہ محبت دینا چاہتے ہیں جو اس کا حق ہے، جو کسی وجہ سے اس کے والدین اسے نہ دے سکے۔ وہ اپنے دلوں میں محبت کے پکتے ہوئے لاوے کو کسی معصوم لمس سے ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں۔

ماضی میں جب لوگ اپنے ان چاہے بچوں کو سڑک کنارے یا کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیتے تھے تو عبدالستار ایدھی نے ایدھی سینٹروں کے باہر جھولا رکھ کر یہ اعلان کیا تھا کہ اپنے بچوں کو ماریں نہیں بلکہ ان جھولوں میں ڈال دیں۔ یہ انسانیت کے تحفظ کی بہترین مثال تھی۔ انھوں نے اس بارے میں سوچا جس کے بارے میں حکومت کو سوچنا چاہیے تھا۔ انھوں نے وہ کا انجام دیا جو حکومتی سطح پر بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں صرف برائی دیکھنے کی عادت ہے جن کی مثال اس گندی مکھی کی طرح ہے جو ہمیشہ زخم پر بیٹھتی ہے ایسے لوگوں نے اس نیک کام پر بھی اعتراض کیا کہ ایدھی صاحب زنا کو فروغ دے رہے ہیں، جبکہ وہ تو وہی کام کر رہے تھے جس کا بیڑا انھوں نے اٹھایا تھا یعنی انسانیت کی خدمت اور اس کا تحفظ ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ وہ انسان دنیا میں کیسے آیا۔ ان کے نزدیک سب انسان برابر تھے اور ہر انسان کو جینے کا حق تھا۔

لیکن اب شاید لوگوں کے دل پتھر ہو گئے ہیں بے حسی حد سے بڑھ گئی ہے یا انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی کسی انسان کی جان لینا کسی جانور کو مارنے سے زیادہ آسان ہے۔ کسی معصوم کی جان لیتے ہوئے ان کے ہاتھ نہیں کانپتے اللہ کے خوف سے ان کے دل نہیں لرزتے۔ معصوم پھول جیسے بچے جن کو دیکھ کر پیار و محبت کے علاوہ کوئی احساس نہیں جاگتا، جنھیں غیر بھی دیکھیں تو بے اختیار پیار کرنے لگتے ہیں ان کے اپنے ہی والدین یا رشتہ دار کس طرح موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں؟

فیصل ایدھی اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ہمارے مراکز کے باہر رکھے گئے جھولوں میں آنے والے زندہ نومولود بچوں کی تعداد ہر مہینے 20 کے قریب ہوتی تھی، جنھیں ہم بے اولاد خاندانوں کو ایک پراسس کے بعد گود دیتے تھے لیکن اب یہ تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اب گزشتہ چھ یا سات سالوں سے مردہ بچوں کی تعداد میں اضافی ہوا ہے۔ یہ بچے سڑکوں کے کنارے یا کچرے کنڈیوں میں ایسی حالت میں ملتے ہیں کے انسانیت بھی شرما جائے۔

کراچی میں موجود تمام مراکز کے تین مہینے کے دوران اکٹھا کیے گئے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف گزشتہ تین ماہ میں ہر مہینے 25 سے 30 نومولود بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔ ایدھی کے اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی شہر میں جنوری 2022 میں 14 نومولود لڑکوں اور 7 لڑکیوں سمیت 21 لاشیں ملی، فروری میں بھی اسی طرح 21 بچوں کی لاشیں ملی، اور مارچ میں 13 لڑکوں اور 4 لڑکیوں سمیت 17 لاشیں ملی۔

اس قتل عام کی روک تھام کے لئے حکومت کو اپنے وسائل استعمال کرنے چاہیے۔ علماء اکرام کو چاہیے کے وہ اپنے وعظ و خطبات میں اس جرم کی مذمت کریں کہ یہ قانوناً اور شرعاً بہت بڑا جرم ہے۔ میڈیا کو اس کے لئے کیمپین چلانی چاہیے۔ لوگوں کے دلوں میں انسانی جان کی قدروقیمت پیدا کریں۔ کسی کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ اس کی ملکیت نہیں ہے کہ دل چاہا تو زندہ رکھا ورنہ مار کر کچرے میں ڈال دیا۔ ہر بچہ ان تمام حقوق کے ساتھ جو اسے اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں اس دنیا میں آتا ہے۔ جس جان کو اللہ نے دنیا میں بھیج دیا تو ناحق اس کی جان لینے کا حق کسی کو نہیں یہاں تک کہ اس کے والدین کو بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments