حضرت علی (رض) کا گورنر مصر کو خط


حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے گورنر مصر مالک بن حارث الاشتر کے خط کا تیسرا حصہ پیش خدمت ہے جس میں آپ نے حکومت کی مستقل مشینری جسے عرف عام میں بیوروکریسی کہتے ہیں کے بارے ہدایت دیں ساتھ ہی معاشی استحکام کے لیے معاشی سرگرمیوں کو فعال کرنے میں تجارت پیشہ افراد کی معاونت، بازار میں قیمتوں میں توازن، کمزور طبقات کی مدد اور نصاف کی فراہمی کے لیے اوپن ڈور پالیسی اپنانے پہ زور دیا۔ خط کا یہ حصہ سرکار کے ہر محکمہ کے صدر پہ آویزاں کیے جانے کی ضرورت ہے۔
آپ نے گورنر سے فرمایا: حکومتی اہلکاروں کے انتخاب میں یہ بھی دیکھنا کہ اگلے حاکموں کے تحت انہوں نے کیا خدمتیں انجام دی ہیں۔ عوام کوان سے کتنا فائدہ پہنچا ہے اور امانت داری میں ان کا شہرہ کیسا ہے؟ ان باتوں کا لحاظ رکھو گے تو بے شک سمجھاجائے گا کہ تم اللہ کے اور اپنی رعایا کے خیر خواہ ہو۔ ہر محکمے کا ایک صدر مقرر کرنا جو محکمے کے تمام کاموں کواپنے ہاتھ میں رکھے۔ تمہارے منشیوں میں جو عیب ہوگا اور تم اس سے چشم پوشی کرو گے تو وہ عیب خود تمہارا سمجھاجائے گا۔ تجاراور اہل حرفت کا پورا خیال رکھنا، ان کو بھی جو مقیم ہیں اوران کا بھی جو پھیری کرتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ ملک کی دولت بڑھاتے ہیں، دور دور سے سامان لاتے ہیں، خشکی، تری، میدانوں ، ریگستانوں ، سمندروں، دریاﺅں ، پہاڑوں کو پار کرکے ضروریات زندگی مہیا کرتے ہیں۔ایسی جگہوں سے مال ڈھونڈتے ہیں، جہاں اور لوگ نہیں پہنچتے، بلکہ وہاں جانے کی ہمت بھی نہیں کرسکتے۔
تاجر اور اہل حرفہ: تاجر اور اہل حرفہ امن پسند لوگ ہوتے ہیں، ان سے شورش وبغاوت کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس پر بھی ضروری ہے کہ پایہ تخت میں بھی اور اطراف ملک میں بھی ان پر نگاہ رکھی جائے، کیونکہ ان میں سے اکثر بڑے تنگ دل، بڑے بخیل ہوتے ہیں۔ اجارہ داری سے کام لیتے ہیں اور لین دین میں چادر ڈال کر لوٹ لینا چاہتے ہیں۔ اجارہ داری کی قطعی ممانعت کردینا، کیونکہ رسول اللہ نےاس سے منع فرمایا ہے۔ لیکن ہاں خرید وفروخت خوش دلی سے ہو۔ وزن یعنی باٹ ٹھیک رہیں۔نرخ مقرر ہوں۔ نہ بیچنے والا گھاٹے میں رہے نہ مول لینے والا مونڈا جائے اور ممانعت پر بھی اگر کوئی اجارہ داری کا مرتکب ہوتو اعتدال کے ساتھ اسے عبرت انگیز سزادی جائے پھر اللہ اللہ۔
غرباء مساکین: ادنیٰ طبقے کے معاملے میں یہ لوگ وہ ہیں، جن کا کوئی سہارا نہیں ۔ فقیر، مسکین، محتاج، قلاش اور اپاہج ان میں ایسے بھی ہیں جو ہاتھ پھیلاتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو ہاتھ نہیں پھیلاتے، مگر خراب صورت حال میں ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں جو فرض خدا نے تمہیں سونپا ہے اس پر نگاہ رکھنا، اسے تلف نہ ہونے دینا۔بیت المال میں ایک حصہ ان کے لئے خاص کر دینا اور اسلام کی جہاں جو اضافی جائیداد موجود ہے اس کی آمدنی میں ان کا حصہ رکھنا۔ان میں سے کون دور ہے، کون نزدیک ہے، یہ نہ دیکھنا، دور نزدیک سب کا حق برابر ہے۔ اور ہر ایک کے حق کی ذمہ داری تمہارے سر ڈال دی گئی ہے۔ دیکھو! دولت کا نشہ تمہیں ان بیچاروں سے غافل نہ کردے۔ اگر تم نے بہت سے اہم کاموں کو پورا کردیا، پھر بھی اس وجہ سے تمہاری معمولی غفلت بھی معاف نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا ان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آنا اور اپنی توجہ سے انہیں محروم نہ کرنا۔
ان میں ایسے بھی ہوں گے جو تمہارے پاس پہنچ نہیں سکتے۔ انہیں نگاہیں ٹھکراتی ہیں اور لوگ ان سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کی خبر گیری بھی تمہارا کام ہے۔ ان کے لئے بھروسے کے آدمیوں کی خدمات خاص کر دینا، مگر یہ آدمی ایسے ہوں جو خوف خدا رکھتے ہوں اور دل کے خاکسار ہوں۔ یہ لوگ ان بے کسوں کے معاملات تمہارے سامنے لایا کریں اور تم وہ کرنا کہ قیامت کے دن تمہیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔یاد رکھو رعایا میں ان بے حد غریبوں سے زیادہ انصاف کا مستحق کوئی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کا جوحق ہے پورا پورا ادا کرتے رہنا، یتیموں کے پالنے والوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا اور ان کا بھی جو بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔جن کا کوئی سہارا باقی نہیں ،جو بھیک مانگنے کے بھی لائق نہیں رہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں حاکموں پر بے شک گراں ہوتی، لیکن پھر بھی سوچنا چاہئے کہ پورے کا پورا حق گراں ہی ہے۔ یہاں خدا حق کوکبھی ان کے لئے آسان کر دیتا جو عاقبت کی طلب میں رہتے ہیں اور اس لئے مشکلات ومکروہات میں اپنے دل کو مضبوط بنالےتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کا یقین اس وعدہ الٰہی پر بختہ ہے جو وہ پروردگار اپنے نےک بندوں سے کرچکا ہے۔
فریادی: اپنے وقت کا ایک حصہ فریادیوں کے لئے خاص کر دینا۔ سب کام چھوڑکر ان سے ملا کرنا ،ایسے موقع پر تمہاری مجلس عام رہے کہ جس کا جی چاہے بے دھڑک چلا آئے۔اس مجلس میں تم خدا کے نام پر خاکسار بن جاﺅ۔ فوجیوں، افسروں اور پولیس والوں سے مجلس کو بالکل خالی رکھنا تاکہ آنے والے دل کھول کے اپنی بات کہہ سکیں، کیونکہ مَیں نے رسول اللہ کو باربار فرماتے سنا ہے، اس امت کی بھلائی نہیں ہوسکتی جس میں کمزوروں کو طاقت ورسے پورا حق نہیں دلایا جاتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس مجلس میں عوام ہی جمع ہوں گے۔ اب اگر بدتمیزی سے بات کریں یا اپنا مطلب صاف بیان نہ کرسکیں توخفانہ ہونا، برداشت کر لینا، خبردار! تکبر سے پیش نہ آنا۔ میری وصیت پر عمل کرو گے تو خدا تم پر اپنی رحمت کی چادریں پھیلا دے گا اور اپنی فرمانبرداری کا ثواب تمہارے لئے اٹل کر دے گا۔ جس کو کچھ دینا اس طرح کہ وہ خوش ہوجائے اور نہ دے سکنا تو اپنا غذر صفائی سے بیان کردےنا، پھر ایسے معاملات بھی ہیں جنہیں خوداپنے ہی ہاتھ میں تمہیں رکھنا ہوگا۔
ایک معاملہ یہی ہے کہ عمال حکومت کے ان مراسلوں کا جواب خود لکھا کرنا جو تمہارے منشی نہیں لکھ سکتے۔ ایک معاملہ یہ ہے جس دن پیسہ آئے اسی دن مستحقوں کو بانٹ دینا۔ اس سے تمہارے درباریوں کو کوفت تو ضرور ہوگی۔ کیونکہ ان کی مصلحتیں تقسیم میں تاخیر چاہیں گی۔ روز کا کام روز ختم کر دینا کیونکہ ہر دن کے لئے انہی کاکام بہت ہوتا ہے۔ اپنے وقت کا سب سے افضل حصہ اپنے پروردگار کے لئے خاص کر دینا اگرچہ سب وقت اللہ ہی کے ہیں۔ بشرطیکہ نیک نیت ہواور رعایا کو اس نےک نیتی سے سلامتی ملتی ہو۔خدا کےلئے دین کو خالص کرنے میں سب سے زیادہ خیال رہے کہ فرائض منصبی بغیر کسی کمی بیشی کے کماحقہ بجالائے جائیں۔ یہ فرائض صرف خدا کے لئے خاص ہیں اور ان میں کسی کا ساجا نہیں۔ دن اور رات میں اپنا ایک وقت ضرورخدا کے لئے خاص کر دینا اور جو عبادت بھی تقرب الٰہی کے لئے انجام دینا، اس طرح انجام دینا کہ ہر لحاظ سے کامل ومکمل ہو۔ کسی طرح کا کوئی نقص اس میں رہ نہ جائے،چاہے اس سے تمہارے جسم کو کتنی ہی تکلیف ہو۔
(جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments