ہمارا عشق: پاکستان اور افواج پاکستان


کسی بھی ملک کی فوج عوام کا اعتماد، اور ملکی سلامتی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ پاکستانی فوج ہمارا وہ ادارہ ہے جس کا نام ہمیشہ عزت سے لیا جاتا ہے، ایک فوجی جوان کو دیکھ کر بچے محبت سے ہاتھ ہلاتے ہیں، قریب ہوں تو ہاتھ ملاتے ہیں۔ ہر جوان اور ہر بزرگ کی نظر میں فوجی بھائیوں کے لئے بہت احترام پایا جاتا ہے۔ یہ وہ عزت ہے جو ایک عزت دار معاشرے میں سرحدوں کے محافظوں کو دی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اپنی فوج سے پاکستانیوں کا پیار، لگاؤ اور ان پر اعتماد منفرد ہے۔

سرفروشی ہے ایماں تمہارا
جراتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کرے سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم

پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات نے غیر سیاسی لوگوں کو بھی اچھا خاصا سیاسی بنا دیا ہے۔ عام آدمی بھی خود کو ماہر تجزیہ کار سمجھ کر سیاست پر تبصرہ کرتا نظر آتا ہے۔

کچھ دوست بیٹھے اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کے گن گا رہے تھے اور ساتھ ساتھ نا پسندیدہ کو برا بھلا کہنے میں مصروف تھے۔ ایک دوست نے کہا کہ تمام سیاسی شخصیات کے چہرے کو دیکھیں تو بہت آسانی سے فیصلہ ہو جائے گا کہ ایماندار کون ہے اور بے ایمان کون۔ دوسرے دوست نے کہا کہ وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ تیسرے صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلاں سیاست دان کی ضد نے ملک کا بہت نقصان کروا دیا ہے۔ چوتھے شخص نے ایک سیاست دان کو پیٹرولیم مصنوعات کی ایک اہم قسم کے نام سے پکارا۔ بقول منیر نیازی

شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا

آخری دوست کی باری آئی تو اس نے ماحول کی گرما گرمی کو بھانپتے ہوئے کسی بھی سیاست دان کی مخالفت میں بولنے سے انکار کیا اور کہا کہ اسے اپنے ملک اور اپنے رشتوں سے پیار ہے اس لئے وہ آپس کے تعلق کو سیاسی اختلاف کی بھینٹ نہیں چڑھنے دے گا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ باقی معاملات کی طرح سیاست میں بھی جذبات پر قابو رکھنا بہت ضروری ہے، اپنی سوچ اور برداشت کو وسعت دیں اور ہر کسی کی ذاتی رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔ سیاسی گفتگو کی وجہ سے تعلق ٹوٹتے اور دوستوں کو دشمن بنتے دیکھا گیا ہے۔

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

پاکستان میں سازش اور مداخلت کی بحث نے بہت سے رشتوں میں نفرت کو داخل کر دیا ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ جو شخص رشتوں کو سوچ میں اختلاف کی وجہ سے نہیں سنبھال سکتا ہے وہ کسی سیاسی پارٹی کا حامی یا کارکن بن کر کیسے تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے روزگار پر توجہ دینے کی بجائے آج کل ملکی سیاست پر گفتگو کرنے میں ہر وقت مصروف نظر آتے ہیں۔ جن کو ٹویٹر کے سپیلنگ نہیں آتے تھے وہ روزانہ درجنوں ٹویٹ کر رہے ہیں۔

بلا شک و شبہ فوج کی طاقت میں عوام کی محبت اور بھروسے کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب جنگیں صرف تلواروں، بندوقوں یا گولہ باری سے لڑی اور جیتی جاتی تھیں۔ ہمارا ہر دشمن اس تاک میں ہے کہ پاکستانی فوج کو کیسے کمزور کیا جائے، دشمن کا بہت بڑا ہتھیار ہے کہ عوام کے دلوں میں فوج کے لئے نفرت پیدا کر کے ملک کو کمزور کیا جائے۔ ہمارا دن کا چین اور رات کی پرسکون نیند اسی ادارے کی بدولت ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دشمن کی ہر سازش کو سمجھیں اور ناکام بنا کر محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ گناہ سے نفرت کریں گناہ گار سے نہیں، میں کہتا ہوں گناہ گار پر ترس کھائیں جو اپنی دنیا و آخرت کی تباہی میں مصروف ہو۔

اختلاف کی بہت ساری اقسام میں سے ایک شخصی اختلاف ہے جس کے معنی ہیں کسی فرد کی سوچ سے اتفاق نہ کرنا۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کسی کی انفرادی سوچ یا عمل سے متفق نہ ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس سے منسلک ہر چیز پر فتوے لگا دیے جائیں۔

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
آئیے نظریہ پاکستان کو سمجھیں

اور ہر اس کام سے گریز کریں جو ہمارے ملک اور اداروں کا دنیا میں تماشا بنائے۔ اللہ پاکستان اور افواج پاکستان کی حفاظت کرے۔ آمین۔

میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا
میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن
چاند میری زمیں، پھول میرا وطن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments