سری لنکا کا معاشی بحران چین کے لیے آزمائش کیوں ؟


ویب ڈیسک — سنگین معاشی بحران کے باعث سری لنکا نے ہنگامی بنیادوں پر چین سے ڈھائی ارب ڈالر کی مالی معاونت کی درخواست کی ہے جس کے جواب میں چین نے تین کروڑ دس لاکھ ڈالر کی ’فوری انسانی امداد‘ دینے کا اعلان کیا ہے لیکن قرضوں کی ادائیگی میں رعایت کی اپیل پر چپ سادھ لی ہے۔سری لنکا نے چین سے 11 ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کو آئندہ برس دس جنوری تک مؤخر کرنے کی اپیل کی تھی لیکن چین نے تاحال اس کا جواب نہیں دیا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے چین عالمی سطح پر اپنا ایک ایسا تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے قابلِ انحصار دوست کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن اب سری لنکا میں صدر گوتابایا راجا پکسے اور دیگر رہنماؤں کی قرض مؤخر کرنے کی اپیل نے چین کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق چین کے لیے یہ تاثر اس لیے بہت اہمیت رکھتا ہےکہ وہ اپنے اسی امیج کی بنیاد پردرجنوں ممالک کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو(بی آر آئی) کے تحت انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کی تعمیر پر قائل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ 2013 کے بعد سے چین بی آر آئی کے منصوبے پر 800 ارب ڈالر کی خطیر رقم صرف کرچکا ہے۔

چین کا بی آر آئی منصوبہ دنیا میں اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے اور اپنی تعمیراتی کمپنیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کانٹریکٹ حاصل کرنے کے ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ چین اس منصوبے کو معاشی میدان میں اس کے بقول امریکہ کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کی جانب ایک قدم قرار دیتا ہے۔

دوسری جانب امریکہ سمیت بعض دیگر حلقے چین پر الزام عائد کرتے ہیں کہ چین کی سفارتی پالیسی ترقی پذیر ممالک کو قرضے کے جال میں پھنسا کر انہیں اپنی امداد کے مرہون منت بنانا ہے۔ چینی سفارت کار ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

چین کی ہچکچاہٹ

ماہرین کے نزدیک بی آر آئی منصوبوں کے لیے فراہم کردہ قرضوں کو مؤخر کرنے میں چین کی ہچکچاہٹ حیران کُن ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سنگا پور سے منسلک سینئر فیلو گینشن وگناراجا کا کہنا ہے کہ چین سری لنکا کے قرضوں کی ادائیگیوں میں رعایت یا طریقہ کار میں تبدیلی سے ہچکچا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کی سیبلا داس گپتا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین کو خدشہ ہے کہ اگر وہ سری لنکا کے قرضوں کی ادائیگی میں کوئی رعایت دیتا ہے تو اس سے ایک مثال قائم ہوجائے گی۔

ان کے مطابق بظاہر چین کی اس ہچکچاہٹ کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر ایسی مثال قائم ہو گئی تو آئندہ بھی اسے بی آر آئی کے تحت دیے گئے قرضوں پر دیگر ممالک سے بھی ایسے ہی مطالبات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سری لنکا میں حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی ٹیکس کٹو تیوں کو قرضوں کے باعث سنگین معاشی بحران پیدا ہونے کی بنیادی وجہ بتایا جاتا ہے۔ جب کہ کرونا وائرس کے باعث پابندیوں کی وجہ سے سیاحت پر انحصار کرنے والی سری لنکن معیشت کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

عالمی معاشی حالات کی وجہ سے سری لنکا کے لیے غیر ملکی ترسیلاتِ زر میں بھی کمی آئی۔ ان اسباب کی وجہ سے سری لنکا کے پاس ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی ادائیگیوں کے لیے مطلوبہ زرمبادلہ بھی باقی نہیں بچا۔ اس وجہ سے خوراک اور بجلی کی قلت بھی پیدا ہوگئی۔

اس وقت سری لنکا کی معیشت 51 ارب ڈالر کے بھاری قرضوں تلے دبی ہوئی ہے۔ اس دباؤ کی وجہ سے سری لنکا عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے تعاون مانگ رہا ہے۔ اس غیر ملکی قرض میں چین کے بی آر آئی منصوبے کے تحت سری لنکا کو دیے گئے 11 ارب ڈالر کے قرضے بھی شامل ہیں۔

’قرض کے بدلے زمین‘

نئی دہلی کے منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز سے منسلک ایسوسی ایٹ فیلو گلبین سلطان کا کہنا ہے چین کی جانب سے سری لنکا کے قرضوں کی ری شیڈیولنگ سے گریز کے پیچھے ایک خفیہ ایجنڈا ہے۔

ان کے مطابق چین سری لنکا کی صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور مناسب موقع آنے پر واجبات کے بدلے اس کی زمینیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اس طرح قرض کے بدلے زمینوں کے حصول سے بی آرآئی کے تحت بننے والے منصوبے براہ راست چین کی ملکیت میں چلے جائیں گے۔

گلبین سلطان اس کے لیے چینی فنڈز سے سری لنکا میں بننے والے ہمبنٹوٹا بندرگاہ کے منصوبے کی مثال بھی دیتی ہیں جس میں قرضوں کی عدم ادائیگی کی بعد اس کی 70 فی صد ملکیت چینی کمپنی کو دے دی گئی تھی۔

ان کے مطابق سری لنکا کو اس وقت چینی منصوبے سے متعلق مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ اگر اس موقع پر سری لنکا مزید قرضوں سے بچنے کے لیے چینی منصوبوں پر کام روکتا ہے تو اسےچینیوں کو ازالے کی رقم ادا کرنا پڑے گی۔ ان کے بقول چین کو سری لنکا میں بی آر آئی کے منصوبوں سے متعلق کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔

دوسری جانب کولمبو میں قائم تھنک ٹینک ویرائٹ ریسرچ کے مطابق چین سری لنکا کے مسائل کا براہِ راست ذمے دار نہیں ہے۔ سری لنکا کے غیر ملکی قرضوں میں چین کا حصہ صرف 15 فی صد ہے۔ ملک کے زیادہ تر قرضے دیگر ممالک کو جاری کردہ بانڈز سے حاصل کیے گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments