’ذمیم دفتری‘ اور ’صدقے کا پتھر‘، ترکی میں ضرورت مندوں کی مدد کی منفرد روایات


رمضان اور عید پر غریب اور نادار افراد کی مدد کرنا مسلم معاشروں میں عبادت کے ساتھ ساتھ ایک روایت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔

دنیا کے مختلف خطوں میں رمضان کے دنوں میں بڑے پیمانے پر افطار کے اہتمام اور خیراتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ عید سے قبل غریب افراد کو تہوار کی خوشی میں شامل کرنے کے لیے صدقہ فطر بھی ان ایام سے مخصوص عبادت ہے۔ اس کے علاوہ مالدار افراد کے لیے غریب اور نادار افراد کی مدد کے لیے زکوۃ ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔

دوسروں کی مدد کے اسی تصور کے تحت کئی مسلم ممالک میں مقامی روایات بھی ہیں جن میں ترکی میں ایک روایت ’ذمیم دفتری‘ یا قرض کا کھاتہ کے نام سے آج بھی برقرار ہے۔

ترکی میں محلے اور بازاروں میں قائم پرچون کی دکانوں پر ادھار پر دیے گئے سودا سلف کا حساب جن رجسٹرز یا کھاتوں میں رکھا جاتا تھا انہیں ’ذمیم دفتری‘ کہا جاتا ہے۔

صاحبِ استطاعت افراد رمضان کے دنوں میں محلوں اور بازاروں میں قائم سودا سلف کی دکانوں پر ایسے گھرانوں کے واجبات ادا کردیا کرتے تھے جو مالی مشکلات کی وجہ سے قرض لوٹانے کے قابل نہیں ہوتے تھے اور اسی روایت کو ’ذمیم دفتری‘ کہا جاتا ہے۔

عثمانی دور میں خیراتی سرگرمیوں سے متعلق ’جرنل آف مسلم فلنتھراپی اینڈ سول سائٹی‘ میں اپنے مضمون میں امریکی ریاست کولوراڈو میں قائم ریجس یونیورسٹی سے منسلک سماجی علوم کی ماہر دملہ اسک لکھتی ہیں کہ یہ مالدار افراد اپنی شناخت خفیہ رکھتے تھے اسی لیے بھیس بدل کر جایا کرتے تھے۔

وہ لکھتی ہیں کہ وہ اپنی شناخت تو چھپاتے ہی تھے لیکن ان لوگوں کے نام بھی معلوم نہیں کرتے تھے انہوں نے جن کے قرض کی ادائیگی کی ہوتی تھی۔

اس طرح قرض کی ادائیگی کی یہ روایت پر چون کی دکانوں سے خاص تھی کیوں کہ ترکی میں صرف یہیں سے ادھار پر سامان کی خریداری کا رواج تھا اور ابھی تک باقی ہے۔

دملہ اسک کے مطابق اس روایت کے آغاز کی تاریخ اور سن و سال کا پتا نہیں لگایا جاسکتا لیکن مختلف ریکارڈز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عثمانی سلطنت کے دور ہی سے شروع ہوئی تھی۔

عثمانی سلطنت کے دور میں ترکی میں لین دین اور ادھار پر دیے گئے سامان کے کھاتوں کا ریکارڈ بھی ملتا ہے اور مؤرخین کے مطابق اس دور میں کاروباری اور تجارتی امور کی لکھت پڑھت عام ہوچکی تھی۔

آج بھی روایت برقرار ہے

ترکی میں آج بھی ذمیم دفتری کی یہ روایت برقرار ہے۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کے مقابلے میں اب اس میں کچھ تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں۔ اب وہاں فلاحی اور کاروباری ادارے بھی اس میں حصہ لیتے ہیں۔

ترک اخبار صباح نیوز کے مطابق کئی علاقوں میں تاجر تنظیمیں اب علی الاعلان اشیائے ضروریہ کے واجبات ادا کرنے لگی ہیں لیکن بعض علاقوں میں اب بھی متمول حضرات خاموشی سے یہ کام کررہے ہیں۔

اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق مشرقی صوبے ایلازی میں مقامی متمول حضرات ادھار کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ’خفیہ پیغام رساں‘ کو بھیجتے ہیں۔ وہ معلومات جمع کرکے رقم کی ادائیگی کردیتا ہے اور قرض ادا کرنے والوں کی شناخت کسی کو معلوم نہیں ہوپاتی۔

صدقے کا پتھر

سماجی علوم کی ماہر دملہ اسک کے مطابق عثمانی سلطنت میں نادار افراد کی مدد کی ایسی ایک اور روایت تھی جو اب فراموش ہوچکی ہے۔

استنبول سمیت مختلف شہروں میں پتھروں کے اونچے ستون نصب کیے جاتے تھے جن پر لوگ صدقے یا عطیات کی رقم رکھ جایا کرتے تھے جہاں سے ضرورت مند افراد یہ عطیات لے جایا کرتے تھے۔ صرف استنبول میں ایسے 160 ستون تھے جن میں سے آج بہت کم ہی باقی بچے ہیں۔

ان پتھروں کو ’صدقہ تاشلری‘ یا صدقے کے پتھر کہا جاتا تھا۔ ایسا ہی ایک ستون توپ کاپی محل میں سلطان کی رہائش کے باہر بھی نصب کیا گیا تھا۔

تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھر کے یہ ستون عام طور پر اتنے بلند ہوتے تھے، اور ایسے مقام پر بنائے جاتے تھے کہ اس کا اوپری حصہ آسانی سے نظر نہیں آتا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی ہاتھ بلند کرے تو دیکھنے والوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ رقم رکھ رہا ہے یا وہاں سے اٹھا کر لے جا رہا ہے۔

سلطنتِ عثمانیہ میں شامل رہنے والے علاقوں یروشلم، تیونس اور مقدونیہ کے شہر اوخرید میں بھی ایسے ستونوں کا سراغ ملتا ہے۔

دملہ اسک لکھتی ہیں کہ عثمانی دور میں صدقہ اور غریبوں کی امداد کے لیے یہ طریقہ عام ہونے کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات ہیں جن میں گم نامی اور خاموشی سے دوسروں کی مدد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments