”میزباں“ کیسے کیسے


میں سمر قند سے بذریعہ بلٹ ٹرین واپس تاشقند آ رہا تھا۔ ان دونوں تاریخی شہروں کا فاصلہ قریب لاہور سے اسلام آباد جتنا ہے۔ ازبکستان کی سیر کے دوران صرف اس بلٹ ٹرین پر ہی، جسے وہاں ’افراسیاب‘ کہتے ہیں، سفر کا موقع مل جائے تو بندے کے پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔ یہ جدید سہولتوں سے آراستہ ایک شاندار ٹرین تھی اور اس کا سفر بڑا آرام دہ اور پرلطف تھا۔ ٹرین پر میرے ساتھ والی سیٹ پر تیس بتیس سال کا ایک ازبک جوان بیٹھا تھا۔

ٹرین روانہ ہوئی تو میں نے نوٹ کیا وہ کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ سیاحتی ممالک کے مہذب باشندے سیاحوں کے ساتھ گفتگو میں پہل کرنے سے کتراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اکثر مقامی لوگ سیاحوں سے بلاوجہ بات چیت کرتے رہتے ہیں جس سے سیاح اکتائے ہوتے ہیں لہذا سمجھدار لوگ عموماً تھوڑا ریزرو رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں بھی ایسی صورت حال بھانپ کر اس جوان سے میں نے خود ہی بات شروع کی۔ اس کا نام تیمور تھا اور وہ تاشقند کا رہائشی تھا۔

تیمور کی زبان فارسی تھی اور انگریزی بس گزارے لائق آتی تھی۔ میں نے اپنی علمیت اور فارسی ادبیت کی دھاک بٹھانے کے لیے بچپن میں یاد کیے فارسی کے دوچار اشعار از قسم، آواز سگاں کم نہ کنند رزق گدا را ’، اسے سنائے مگر، حسب توقع، وہ متاثر نہیں ہوا۔ لیکن اس یہ ہوا کہ اس سے باقاعدہ گفتگو شروع ہو گئی۔ تیمور تاشقند کے ڈاؤن ٹاؤن میں رہتا تھا۔ اسے جب پتا چلا کہ مجھے تاریخ سے شغف ہے تو اس نے کہا پھر تو مجھے اس کا علاقہ وزٹ کرنا چاہیے۔

وہاں کئی قدیم تاریخی عمارتیں ہیں۔ اور پھر اس علاقے کا مقامی کھانا بے حد لذیذ ہے۔ اس کی پرخلوص دعوت سے میں بڑا متاثر ہوا اور لذیذ مقامی کھانے کا ذکر سن کر میں نے ایک آدھ دن میں اس کا علاقہ وزٹ کرنے کا وعدہ کر لیا۔ ہم تاشقند اسٹیشن پر اترے تو اس نے تیسری بار مجھے اپنی طرف آنے اور کھانے کی دعوت دی۔ میں نے مسکرا کر پھر وعدہ کیا، ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں میں بڑی خوشگوار حیرت سے سوچ رہا تھا کہ یہ مقامی لوگ کیسے شاندار مہمان نواز ہیں یعنی معمولی سی واقفیت پر تیمور کتنے اصرار اور تاکید سے مجھے دعوت دے رہا تھا۔

اگلے دن میں تاشقند میں ڈرائی فروٹ کی بڑی مارکیٹ ’چار سو بازار‘ میں تھا کہ مجھے تیمور کی کال آئی کہ آپ ابھی تک میری طرف کیوں نہیں آئے۔ میں نے معذرت کی اور کل آنے کا پکا وعدہ کیا۔ اگلے دن میں نے قریب گیارہ بجے تیمور کی طرف جانے کا پروگرام بنایا۔ کوئی ایک گھنٹے کا سفر تھا۔ میں نے تیمور کے لیے تھوڑی سی لوکل سویٹس اور پھول لیے، ٹیکسی پکڑی اور اس کی بھیجی ہوئی لوکیشن پر اس کی طرف روانہ ہو گیا۔ قریب سارا شہر کراس کر کے کوئی گھنٹے بھر کے سفر کے بعد میں اس کے علاقے میں پہنچا۔

تیمور فون پر طے کی ہوئی جگہ پر موجود تھا۔ وہ مجھے بے حد تپاک سے ملا۔ میں نے اس کے لیے لائی ہوئی چیزیں اس کے حوالے کیں اور پھر اس نے گرم جوشی سے کہا کہ یہاں قریب ہی اس علاقے کا بہترین ریسٹورنٹ ہے لنچ کا وقت ہو گیا ہے پہلے وہاں سے کھانا کھاتے ہیں۔ ہم ٹیکسی میں بیٹھے اور ریسٹورنٹ روانہ ہو گئے۔ راستے میں وہ لذیذ کھانے کی بڑی تعریف کرتا رہا۔ مقامی ازبک لوگ ہماری طرح روایتی روٹی نہیں کھاتے۔ یہ گوشت خور قوم ہے۔

ان کا زیادہ تر کھانا گوشت اور سلاد پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھانے سے پہلے قہوہ لازمی پیتے ہیں یہاں گھوڑے کا گوشت اور اس کے کباب وغیرہ بہت مرغوب غذا ہیں۔ خیر جہاں ہم کھانا کھا رہے تھے وہاں ایسا نہیں تھا۔ وہاں کا مٹن اور بار بی کیو مشہور تھا۔ تیمور نے مینیو کارڈ مجھے دکھایا اور مجھے یہاں کی مشہور اور اپنی فیورٹ ڈشز کے متعلق بتایا۔ ہم نے کافی سارا کھانا آرڈر کیا۔ کھانا لگا تو تیمور بڑی خوشی اور شوق سے مجھے کھانا پیش کرنے لگا۔

میں حیران تھا کہ ایک اجنبی غیر ملکی کے لیے یہ ازبک جوان کس گرم جوشی سے حق میزبانی ادا کر رہا ہے۔ کھانا واقعی بے حد مزیدار تھا۔ کھانا ختم ہوا تو تیمور نے ویٹر کو بل لانے کو کہا۔ ویٹر آیا تو تیمور نے اس سے بل لے کر فوراً بٹوا نکالا اور لوکل کرنسی ”سم“ کے کچھ نوٹ گنے اور پھر نوٹ اور بل ویٹر کے حوالے کر دیے۔ میں اس دوران تشکر بھرے انداز میں تیمور کو دیکھتا رہا۔ اگلے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ ویٹر میری طرف آیا اور اس نے وہی بل میری طرف بڑھا دیا۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ میں نے اس سے پوچھا اس کا کیا مقصد ہے بل تو ادا ہو چکا ہے۔ ویٹر مسکرایا اور اس نے تیمور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ان صاحب نے صرف اپنے حصے کا یعنی آدھا بل ادا کیا ہے۔ اور باقی آدھا بل آپ کو ادا کرنا ہے۔ اس پر میں نے تیمور کی طرف دیکھا تو اس نے بڑی اپنائیت سے سینے پہ ہاتھ رکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ویٹر کی تصدیق کر دی۔ مجھے جیسے دھچکا سا لگا۔ تیمور کی اعلیٰ میزبانی کا بت دھڑام سے نیچے گر پڑا۔

یعنی جس کھانے کے لیے موصوف مجھے دو دن سے کوئی چھ بار دعوت دے چکے تھے۔ اور جس کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے باقاعدہ اصرار کر کے مجھے یہاں بلایا تھا اس کھانے کے بعد وہ صاحب اپنے حصے کا آدھا بل دے کر سائیڈ پہ ہو گئے تھے۔ یہ طرز میزبانی بڑا عجیب اور میرے لیے بالکل نیا تھا۔ یہ کوئی پچاس ڈالر کے قریب بل تھا جس میں سے آدھا تیمور نے ادا کر دیا تھا۔ خیر! میرے اندر لاہوریت جاگی۔ میں نے ویٹر سے بل لیا اور اسے کہا کہ تیمور سے لیے گئے پیسے اسے واپس کر دے۔ ویٹر نے مجھے استعجابیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے کہا ’سارا بل میں دوں گا‘ ۔ ویٹر نے تیمور کے پیسے واپس کیے تو اس نے میری طرف دیکھا اور پھر کمال التفات اور شکریے کے ساتھ پیسے رکھ لیے۔ اس کے بعد میں نے ویٹر کو سارا بل ادا کر دیا۔

ہم ریسٹورنٹ سے باہر نکل آئے اور اس کے بعد تیمور نے مجھے دو چار مشہور جگہیں دکھائیں۔ تیمور کی گرم جوشی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ شام ہوئی تو میں نے اس سے واپسی کی اجازت چاہی، وہ کہنے لگا سر ادھر نزدیک میں ایک بڑا کمال کا ریسٹورنٹ ہے اس کا کھانا بڑا مزیدار ہوتا ہے آپ رکیں وہاں سے ڈنر کریں گے۔ میں نے بڑی محبت سے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا، ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).