ہاسٹل میں میرا پہلا دن


ہاسٹل کا نام سن کر جہاں باقی لوگوں کے ذہنوں میں چرس، پوڈر، افیم اور فحاشی آتی ہیں، میرے ذہن میں بھی یہی سب کچھ آیا تھا۔ بلکہ میں نے تو دو تین چیزیں اضافی بھی سوچ رکھی تھیں۔ پھر بھی نہ جانے کس طرح میرے گھر والے مان گئے کہ اس شہزادے کو ہاسٹل بھیج دیا جائے۔ اس معاملے میں میری رائے بھی طلب کی گئی، لیکن اہمیت اتنی ہی دی گئی جتنی پاکستانی گھرانوں میں شادی کے وقت لڑکی کی رائے کو دی جاتی ہے۔ یعنی کہ طلب تو ضرور کی جاتی ہے مگر کیا وہی جاتا ہے جو انھوں نے پہلے سے طے کر رکھا ہوتا ہے۔

کالج میں داخلہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا، اب وقت تھا کہ مجھ جیسے نازک بندے کو بے گھر کر دیا جائے یعنی کہ ہاسٹل شفٹ کر دیا جائے۔ امی جان نے ساری چیزیں ایسے پیک کیں جیسے میرے لوٹنے کا دور دور تک کوئی سوال نہ پیدا ہو۔ ابو جان نے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی رقم تھما دی کہ بوقت ضرورت میرا شہزادہ کہیں کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہو۔ ہاتھوں میں خطیر رقم دیکھ کر دل کچھ مطمئن سا ہوا کہ اب وہاں پر دل لگنے کے زیادہ مواقع ہوں گے ۔ کیوں کہ پیسے سے ہی تو کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار۔ شہنشاہی۔

بڑے بھائی نے اپنے دوست کو ساتھ ملا کر مجھے ہاسٹل میں ایسے چھوڑ کر آئے جیسے اغواکار تاوان ملنے پر بچہ گھر چھوڑ کر آتے ہیں۔ ہاسٹل میں پہلا قدم رکھا ہی تھا کہ ایک پکی عمر کا نوجوان سگریٹ سلگائے، ننگ بدن، ٹراؤزرز تو اس نے جیسے بس بدن پر لٹکا رکھا تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ بس ابھی سرکا ابھی سرکا۔ داڑھی موصوف نے اتنی بڑھا رکھی تھی کہ مجھے لگا کہ شاید کوئی ادب کا استاد ہے۔ کیوں کہ عموماً ادب کے استاد ہی اس حلیے کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ تو بعد میں معلوم پڑا کہ موصوف نے ایف ایس سی آنرز کر کے اب بی ایس آنرز کر رہے ہیں۔ ایف ایس سی آنرز اس لیے کہ موصوف نے چار سال لگائے پاس کرنے میں۔ خیر کچھ باتیں تو پہلے دن ہی سچ ثابت ہوئیں۔

اب اگلا مرحلہ میرے لیے یہ تھا کہ کمرے کا انتخاب کیا جائے کہ کون سے کمرے کو اپنا ہجر بخشا جائے۔ اس سلسلے میں دو تین کمروں کا معائنہ کیا تو ہاسٹل کے داخلی دروازے کے ساتھ والا کمرہ منتخب کیا گیا۔ کمرے میں داخلے ہوتے ساتھ دیکھتا ہوں کہ ایک دم سناٹا ہے اور دو نوجوان ہاتھوں میں کتابیں لیے مسلسل پڑھ رہے ہیں اور انھیں اس بات سے بھی کوئی لینا دینا نہیں کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔ یہ جذبہ دیکھا تو خود کو بھی اس ماحول کے لیے پسند کیا اور خود سے ہی مخاطب ہو کر کہا کہ لے بھئی آج سے تیری زندگی تو سنور گئی۔ اتنے پڑھنے والے لوگوں میں رہ کر تو بندہ ویسے ہی بڑا عالم فاضل بن جائے گا۔ اپنا ساز و سامان ایک کونے میں رکھ کر اپنے لیے چارپائی کے لیے ہاسٹل وارڈن کے حضور ایک عرضی کی گئی کہ حضور ہمیں ایک عدد چارپائی عنایت کی جائے، جس پر ہم سو کر خود کو دین و دنیا سے آزاد کر سکے۔

رات کے کہیں گیارہ بجے جا کر چارپائی مہیا کی گئی اور وہ بھی ایسی کہ کیا کہنے! ۔ لیٹنے لگے تو پہلے دو تین عجیب سے آوازیں نمو دار ہوئیں، جیسے سہاگ رات کو نئے بیڈ سے ہوتی ہیں۔ اب یہ سوال نہ پوچھا جائے کہ ہمیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔ لیکن ہم خود ہی اس کا جواب دیے دیتے ہیں کہ آپ ہمارے بارے میں عجیب سے وسوسے نہ پالیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میٹرک میں میرا ایک دوست کلاس میں لکڑی کے ایک خستہ حال دروازے کو بڑے نفاست سے گھما کر اس میں سے بیڈ کے مسلسل ہلنے کی آواز نکالتا تھا اور ساتھ بتاتا تھا کہ پہلی رات کو کون سی آوازیں آتی ہیں اور ایک ہفتے بعد ان آوازوں میں کس حد تک ٹھہراؤ آتا ہے۔ پھر چارپائی پر ابھی سیدھے ہوئے ہی تھے کہ تشریف ایسے لٹک گئی جیسے کسی شخص کو ہاتھوں اور پیروں سے باندھ کر کسی کنوئیں میں اتارا جا رہا ہو۔ دن کی تھکن سے جسم پہلے ہی چور تھا، لیٹتے گئے تو تھوڑی دیر بعد خود کو خود سے جدا پایا۔

اب علی الصبح ہی آنکھ کھل گئی، باقی دونوں روم میٹس سکون سے سو رہے تھے۔ واش روم جانے لگا تو اپنا صابن ڈھونڈنے لگا۔ پورا بیگ ٹٹول مارا مگر مجال ہے کہ صابن صاحب نے اپنا چہرہ مبارک دکھانے کی زحمت کی ہو۔ پھر سوچا کہ کیوں نہ اپنے روم میٹس کا صابن صرف اور صرف آج کے لیے استعمال کیا جائے۔ ویسے بھی اس کے بعد تو ہم نے ایک ساتھ ہی رہنا ہے۔ صابن اٹھایا اور سیدھا واش روم۔ معاملات نمٹا کر باہر سنک میں ہاتھ دھو ہی رہا تھا کہ اوپر سے روم میٹ آ گیا اور چہرہ لال۔

اپنا صابن اٹھاتے ہوئے کھری کھری دو سنا گیا۔ میں بڑا پریشان ہوا کہ یار صابن ہی تو ہے۔ اس میں بھڑکنے والی کیا بات ہے۔ روم میں واپس گیا اور چپ چاپ بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا۔ وہ صابن والے صاحب مجھے مسلسل گھورے جا رہے تھے۔ وہ ناشتہ کرنے گیا تو دوسرے روم میٹ سے اس بات کا تذکرہ کیا کہ یار صرف صابن استعمال کرنے پر موصوف نے اتنا ہنگامہ کیا۔ وہ کہنے لگا شاید تمہیں معلوم نہیں ”ہاسٹل میں دوست کا صابن استعمال کرنے پر اتنا ہی ہنگامہ ہوتا ہے جتنا کہ دیور کا بھابھی کے ساتھ لب و کنار ہونے پر ہوتا ہے۔“ یہ بات سن کر ہمیں ساری کہانی پلے پڑ گئی۔

ناشتہ کرنے کے بعد جو سب سے بڑا مسئلہ میرا سامنے تھا، وہ تھا کالج کے یونیفارم کو استری کرنا۔ استری تو ہم ساتھ لائے نہیں تھے، اب استری کو ڈھونڈنے کے لیے پورا ہاسٹل چھان مارا۔ ہر کوئی بس یہی کہہ رہا ہے یار ابھی مجھ سے فلاں بندہ لے کر گیا ہے اور جب وہاں پہنچو تو اگلا کہتا کہ ابھی ابھی فلاں مجھ سے لے کر گیا۔ جب اسے وقت فلاں کے پاس پہنچا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ بھئی ہم تو استری لائے ہی نہیں۔ یہ بات بڑی مایوس کن لگی۔

خیر تھک ہار کر روم میں واپس آئے تو دیکھا اپنا روم میٹ ہی اپنا یونیفارم استری کر رہا ہے۔ ”بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں“ مگر یہ کہاوت یہاں درست ثابت نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہاں بچہ ہر دو منٹ بعد اپنا جگہ بدل رہا تھا۔ یونیفارم استری کر کے زیب تب کیا اور تیار ہو کر کالج جانے ہی لگے تھے کہ دیکھتا ہوں کہ جوق در جوق طلباء ہمارے کمرے میں آ رہے ہیں اور سامنے الماری میں پڑی بوٹ پالش اور برش اٹھا کر بوٹ پالش کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک تو کمرہ رستے میں تھا، اوپر سے انھیں معلوم ہوتا تھا کہ ہاسٹل میں کوئی بھی نیا نوجوان آئے تو اس کے پاس ساری چیزیں پوری ہوتی ہیں۔ یہ ان کے لیے اچھا موقع ہوتا تھا کہ نئے چیزوں پر ہاتھ صاف کیے جائیں۔ انھوں نے ہمارے سامان پر ہاتھ صاف کیے تو پھر کہیں جا کر کالج روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments