وہ سوالات جو والدین کو اساتذہ سے سکول میٹنگز میں پوچھنے چاہئیں


اس حقیقت سے سب آشنا ہیں کہ اسکولوں میں فراہم کی جانے والی تعلیم کے ساتھ ساتھ والدین کی تعلیمی سرگرمیوں میں شمولیت بھی بچے کی تعلیمی کامیابی کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ بچوں کی تعلیمی کارکردگی کو جانچنے اور اس کے متعلق اقدامات کے لیے اسکول والدین اور اساتذہ کی میٹنگ (Parent Teacher meeting) منعقد کرتے ہیں۔ یہ میٹنگ کسی بھی بچے کو سمجھنے کا بہترین موقع ہوتی ہے۔ اس سے اساتذہ اور والدین دونوں کو بچوں کو سمجھنے اور ان کی کارکردگی ابھارنے کا موقع ملتا ہے، جس سے بہتر تعلیمی اور سماجی نتائج سامنے آتے ہیں۔

ماہرین والدین کو اپنے بچے کے استاد کے ساتھ ایک ٹرم میں متعدد بار بات چیت کرنے کی تجویز دیتے ہیں، تاکہ بچے کی خوبیوں اور کمزوریوں کی شناخت ہو سکے۔ بچوں کے روزمرہ مسائل سامنے آئیں اور بچے کی مجموعی نشوونما کا جائزہ لیا جائے۔

بہت سے والدین جب ان میٹنگز میں شامل ہوتے ہیں تو وہ زیادہ تر روایتی سوالات ہی پوچھتے ہیں جن کا مقصد صرف اپنے بچے کے نمبروں کے گرد گھومتا ہے۔ اور کچھ والدین مصروفیات یا دیگر وجوہات کے باعث ایسی میٹنگز میں جانے سے اجتناب کرتے ہیں اور اگر جائیں بھی تو رزلٹ لیتے ہی لوٹنے کی کرتے ہیں۔ بعض میٹنگز میں والدین بشمول اساتذہ کے، تحمل کا دامن چھوڑتے بھی نظر آتے ہیں، جس سے یوں محسوس ہوتا کہ بچوں کی بجائے انہیں کونسلنگ کی ضرورت ہے۔

اساتذہ اور والدین کے درمیان ایک موثر میٹنگ کے لیے جہاں اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے وہیں والدین کی بھرپور تیاری کے ساتھ شرکت بھی ضروری ہے۔ اس لیے یہاں بہت سے ایسے سوالات پیش کیے جا رہے ہیں جو والدین اساتذہ کے ساتھ زیربحث لا کر بچوں کی کارکردگی کے متعلق جان کر اسے بہتر بنا سکتے ہیں۔

* آپ کے مطابق میرے بچے کی کیا خوبیاں ہیں؟
* میرے بچے کی کیا کمزوریاں ہیں؟
* میرا بچہ عام طور پر کیسا ہے۔ کیا وہ خوش/ناخوش/موڈی وغیرہ ہے؟
* کیا میرا بچہ اسکول کے نصاب اور سرگرمیوں کے مطابق کام کر رہا ہے؟
* میرا بچہ اپنا ہوم ورک اور کلاس ورک کیسا کر رہا ہے؟
* آپ کی رائے میں، مجھے اپنے بچے کے ہوم ورک کے لیے ایک دن میں کتنا وقت دینا چاہیے؟

* ہر روز ہوم ورک کرنے میں اپنے بچے کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے؟ (یہ سوال ابتدائی کلاسوں کے طلبہ کے لیے اہم ہے ) ۔

* آپ کتنی بار ٹیسٹ سیشن یا امتحان لیتے ہیں؟ اور ان کے درجات کا میرے بچے کے تعلیمی مستقبل پر کیا اثر پڑتا ہے؟

* میرے بچے کے لیے کون سے مضامین سب سے زیادہ مشکل ہیں؟ یا میرا بچہ کن شعبوں میں آپ کو کمزور محسوس ہوتا ہے؟ اور ہم کس طرح سے بچے میں بہتری لا سکتے ہیں۔

* میں اس کی دلچسپی کو اس مضمون میں کیسے بڑھاؤں جس سے وہ مطالعہ کرنے سے گریز کرتا ہے؟
* کیا میرے بچے کو صرف ٹیسٹوں میں یا عام طور پر اسکول کے کام میں مشکلات کا سامنا ہے؟
* کیا آپ نے دیکھا ہے کہ میرا بچہ کسی مخصوص قسم کے مضمون میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے؟

* آپ کی کیا رائے ہے کہ میرا بچہ اپنے وقت کا استعمال کیسے کرتا ہے؟ کیا یہ وقت پر اپنے ذمے لگائے کام مکمل کر لیتا ہے؟

* کیا میرے بچے کو پڑھانے میں آپ کو کوئی چیلنج درپیش ہے؟ ہم مل کر ان پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
* کلاس میں میرے بچے کا رویہ اساتذہ اور دیگر طلبہ کے ساتھ کیسا ہے؟
* میرے بچے کی تعلیمی کارکردگی اس کے ساتھی طلبہ کے مقابلے کیسی ہے؟

* کیا آپ (استاد) یہ سوچتے ہیں کہ میرے بچے کو سوشلائز کرنے میں دشواری ہو رہی ہے؟ ایسی صورت حال میں ہم اس سے کیسے نمٹیں گے؟

* میرے بچے کی غیرنصابی سرگرمیوں میں دلچسپی کیسی ہے؟ کیا یہ کھیل کود میں حصہ لیتا ہے؟
* ہم اپنے بچے کو دوست بنانے اور زیادہ نتیجہ خیز بات چیت کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
* بچے جو وقت آن لائن صرف کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کو محدود کرنے کے لیے آپ کی کیا تجاویز ہیں؟
* تعلیمی لحاظ سے توقعات کو برقرار رکھنے کے لیے ہم گھر پر کیا کر سکتے ہیں؟

* آپ کن سوالات کا کہیں گے کہ میں روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچے سے پوچھوں کہ اسکول یا آپ کی کلاس میں کیا ہو رہا ہے؟

* آپ کا پسندیدہ تدریسی انداز کیا ہے؟ آپ کے طریقہ کار سے مطابقت رکھنے کے لیے گھر پر کون سے طریقے لاگو کیے جا سکتے ہیں؟

اگر آپ اپنے بچے کو درپیش کسی مسئلے کے لیے اسکول کے اوقات کے بعد کسی استاد سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں، تو اس سے براہ راست رابطہ کرنے سے پہلے، اسے فون کرنے کے لیے استاد کی اجازت لینا یقینی بنائیں۔

اگر آپ استاد کے کام اور اسکول کے تعاون کا احترام اور تعریف کرتے ہیں، تو وہ والدین کے مسائل کو بھی زیادہ سمجھیں گے۔ ایک استاد اور والدین کی شراکت آپ کی زندگی میں سب سے قیمتی رشتوں میں سے ایک ہے، لہذا اس کو پروان چڑھائیں۔

(نوٹ: اس تحریر کے لیے مواد بہت سے تعلیمی تحقیقی جرائد جیسا کہ جرنل آف سکول سائیکالوجی و دیگر میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں اور ماہرین تعلیم لینا گھوش اور عالیہ خان کے کام سے اخذ کر کے ترتیب دیا گیا۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments