سمرسٹ ماہم کی ایک کہانی : Mr. Know-All


ترجمہ: شاہد اختر

پتہ نہیں کیوں مجھے کچھ لوگوں کو دیکھتے ہی ان سے نفرت ہو جاتی ہے۔ بلکہ کچھ سے تو بغیر دیکھے ہی۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے کیبن کا شریک کوئی میکس کلاڈا نام کا شخص ہے تو یہ سن کر ہی مجھے گھن سی آئی۔ اگر کوئی مسٹر سمتھ یا مسٹر براؤن ہوتا تو الگ بات تھی۔ لیکن کلاڈا؟ یہ تو نام ہی سے کوئی چھٹا ہوا بدمعاش لگتا تھا۔ کہیں کا بھی ہو، انگریز تو ہر گز نہیں تھا۔

لیکن کیا کرتا؟ جنگ کی وجہ سے جہازوں میں اکیلا کیبن ملنا نا ممکن تھا۔ میں سان فرانسسکو سے یوکوہاما جا رہا تھا۔ پندرہ دن دو برتھ کے کیبن میں اس کے ساتھ گزارنے کا خیال ہی مجھے پریشان کر رہا تھا۔

جب میں کیبن میں داخل ہو تو اس کے بھاری بھرکم سوٹ کیس آدھی سے زیادہ جگہ گھیرے ہوئے تھے۔ ایک فولادی ٹرنک پر ملکوں ملکوں کے لیبل چسپاں تھے۔ باتھ روم کے کاؤنٹر پر اس کا شیو کا سامان کھلا رکھا تھا۔ برش کے آبنوسی ہینڈل پر اس کے نام کے ابتدائی حروف، ”ایم۔ کے“ ، سنہرے رنگ میں جڑے ہوئے تھے۔ فرنچ پرفیوم اور بالوں کی کریم کی بوتلوں سے کاؤنٹر بھرا تھا۔ میری نفرت میں اب حقارت بھی شامل ہو گئی تھی۔ کوئی بہت ہی چھچھورا آدمی لگتا ہے۔ میں نے سوچا، اور اپنا سوٹ کیس برتھ پر رکھ کر جہاز کے لاؤنج میں آ کر بیٹھ گیا۔

”آپ مسٹر ماہم ہیں؟“

تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک شخص میری میز کے قریب آ کر مجھ سے مخاطب ہوا۔ جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے گرم جوشی سے ہاتھ آگے کیا۔

” میرا نام کلاڈا ہے۔ میکس کلاڈا۔“
یہ کہہ کر وہ بغیر پوچھے میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

”ہم کیبن میٹ ہیں۔ مجھے ڈر تھا کہ جہاز والے مجھے کسی غیر ملکی کے ساتھ برتھ نہ دے دیں۔ آپ کا تعلق بھی انگلستان سے ہے نا؟“

”ہاں۔“
میں نے ایک لفظی جواب دیا اور پھر خاموشی اختیار کر لی۔
”ہم انگریزوں کو ہمیشہ اکٹھے رہنا چاہیے، خاص طور پر غیر ملکوں میں۔ “
” تو کیا آپ بھی انگریز ہیں؟“
میں سوال کیے بغیر نہ رہ سکا۔
” سو فیصدی انگریز، صاحب۔ آپ کیا مجھے امریکی سمجھے تھے؟“
مسٹر کلاڈا نے پاسپورٹ جیب سے نکال کر دکھایا۔

میں خاموش رہا۔ اصل میں برٹش پاسپورٹ تو انگریز سرکار کی رعایا میں کسی کو بھی مل سکتا تھا۔ کلاڈا میں انگریزوں والی کوئی بات نہیں تھی۔ قد چھوٹا، رنگت سانولی، کریم سے چپڑے ہوئے گھنگریالے بال۔ کسی گرم علاقے کا رہنے والا دکھائی دیتا تھا۔

” کیا پئیں گے آپ؟“
” سکاچ۔“
میں نے پھر ایک لفظ میں جواب دیا۔
”آپ تاش کے پتوں کا ایک کرتب دیکھنا پسند کریں گے؟“
”نہیں۔“

میرے جوابات ایک کی گنتی پر اٹک گئے تھے۔ کلاڈا نے مجھے تین کرتب منع کرنے کے باوجود دکھا ہی دیے۔ وہ انتہائی باتونی نکلا اور نیو یارک، جاپان، سیاست، فیشن، تھیٹر، حکومتی پالیسی، غرض ہر مضمون پر انتھک بولتا رہا۔ جب میرے کان پک گئے تو میں نے اٹھتے ہوئے کہا کہ میں اب چلتا ہوں تاکہ ڈائننگ روم میں اپنی سیٹ کا پتہ کروں۔

” اوہ، اس کی فکر نہ کریں۔ میں نے سوچا چونکہ ہم ایک ہی کیبن میں ہیں اس لئے ہمیں ڈنر بھی ایک ہی میز پر کرنا چاہیے۔ میں نے اپنی اور آپ کی سیٹیں ایک ہی میز پر ریزرو کرا دی ہیں۔ “

اب نہ صرف میں کیبن میں مسٹر کلاڈا کا شریک تھا بلکہ دن میں تین کھانے بھی اس کے ساتھ کھانے پڑتے۔ اگر میں تازہ ہوا کے لئے ڈیک پر جاتا تو وہ بھی چہل قدمی کے بہانے ساتھ ہو لیتا۔ سائے کی طرح ہر وقت میرے ساتھ چپکا رہتا۔ اس کے فرشتوں کو بھی احساس نہیں تھا کہ دوسرا اس کی موجودگی کا خواہش مند نہیں ہے۔ مگر آدمی تھا بہت ملنسار۔ پل بھر میں ہر اک سے گھل مل جاتا۔ تین دن میں جہاز پر ہر کوئی اسے جاننے لگا تھا۔ تفریح کے ہر پروگرام کے پیچھے اس کا ہاتھ ہوتا۔

چاہے گولف ہو یا مقابلہ موسیقی، ڈانس پارٹی ہو یا تاش کے کھیلوں کا ٹورنامنٹ، فینسی ڈریس ہو یا نیلام۔ کچھ بھی اس کی شمولیت کے بغیر نہ ہوتا۔ وہ ہر موضوع پر ایک حتمی رائے رکھتا تھا۔ ہر مضمون پر خود کو اتھارٹی گردانتا۔ جہاز کے مسافروں نے اس کو عقل کل کا لقب دے دیا تھا اور چڑنے کی بجائے وہ اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتا۔

کلاڈا طبیعت کا انتہائی خوش باش لیکن سخت جھکی بھی تھا۔ بات بات پر بحث کرتا اور جب تک سننے والے کو اپنے نقطہ نظر پر نہ لے آتا، یا خاموش نہ کر دیتا، چین سے نہ بیٹھتا تھا۔

ڈنر ٹیبل پر میرے اور کلاڈا کے علاوہ جہاز کا ڈاکٹر اور ایک رامزی نام کا شخص موجود ہوتے۔ کبھی کبھی جہاز کا کپتان بھی ہمارے ساتھ ڈنر کے لئے بیٹھ جاتا۔ رامزی بہت ہٹ دھرم اور جھگڑالو تھا۔ ہر وقت اپنی منطق چھانٹتا۔ تیس پینتیس کے پیٹے میں ہو گا۔ فربہ جسم۔ چربی سے بھرا پیٹ سوٹ کے بٹن توڑ کر آزادی کے چند سانس لینے کے لئے بے چین۔ وہ کلاڈا کی ہر بات کی مخالفت برائے مخالفت کرتا۔ اگر ان دونوں میں بحث شروع ہو جاتی تو ہاتھا پائی پر نوبت آنے کا خطرہ ہوتا۔

رامزی کا تعلق ڈپلومیٹک سروس سے تھا۔ پچھلے سال شادی کے فوراً بعد اسے جاپان کے سفارت خانے میں ملازمت کا چارج لینے کے لئے اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر آنا پڑا۔ مسز رامزی سال بھر تک شوہر سے الگ نیو یارک رہی۔ اب وہ اسے ساتھ لے کر اپنی پوسٹ پر واپس جا رہا تھا۔

مسز رامزی کو اگرچہ ملکہ حسن تو نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن اس میں ایک ایسی نفاست اور دلکشی تھی جو دیکھنے والوں کا دل موہ لیتی۔ وہ تقریباً چوبیس پچیس سال کی ہوگی۔ لباس اگرچہ پیرس کے کسی فیشن ڈیزائنر کا نہ سہی لیکن جو بھی پہنتی بہت سلیقے سے پہنتی تھی۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک پروقار مسکراہٹ ہوتی۔ ہمارے اس بحری حلقہ احباب میں مسز رامزی کو بہت عزت اور مقبولیت حاصل تھی۔

ایک دن نہ جانے کیسے گفتگو کا رخ موتیوں کی طرف مڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب بولے کہ جاپان میں ایک نئی صنعت زور و شور سے فروغ پا رہی ہے اور وہ ہے نقلی موتیوں کی تجارت۔ یہ موتی اس قدر اعلی پیمانے پر بنائے جا رہے ہیں کہ اب اصلی اور نقلی موتیوں میں امتیاز مشکل ہو گیا ہے۔

کلاڈا ایسے موضوع کو، بغیر اپنی رائے دیے، کسی حالت میں اس بیان پر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے پوری خود اعتمادی سے کہا کہ یہ ناممکن ہے۔ نقلی سے اصلی کا دھوکہ صرف نادان لوگ ہی کھا سکتے ہیں۔ جنہیں تھوڑا بہت بھی موتیوں کے بارے میں علم ہے وہ ایک نظر میں پہچان لیتے ہیں کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا۔ پھر اس نے ہمیں موتیوں کے بارے میں ایک طویل لکچر دیا۔ ہم قائل ہونے ہی والے تھے کہ رامزی صاحب بحث میں کود پڑے۔ رامزی کو موتیوں کی الف ب تک معلوم نہیں تھی۔ لیکن صرف کلاڈا کو نیچا دکھانے کے لئے اس نے کہا کہ نقل اور اصل میں حتمی امتیاز ممکن ہی نہیں۔ اور ایسا دعوی صرف اور صرف جھوٹ پر ہی مبنی ہو سکتا ہے۔

یہ سن کر کلاڈا کو تو جیسے آگ لگ گئی۔ اس نے زور سے میز پر مکہ مارا اور للکار کر کہا کہ رامزی کو اسے جھٹلانے کی جرات کیسے ہوئی۔

”میں نے ابھی تک آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میرے کاروبار کی نوعیت کیا ہے۔ میں ایک جوہری ہوں اور میری مہارت کا مرکز موتی ہیں۔ میں جاپان اسی مقصد کے لئے جا رہا ہوں کہ وہاں سے اصلی موتی برطانیہ اور امریکہ میں امپورٹ کر سکوں اور نقلی دھوکہ باز موتیوں کے تاجروں سے اصلی موتیوں کی مارکیٹ کو بچا سکوں۔ ان موتیوں کے بارے میں مجھے ہر اہم بات معلوم ہے۔ اور جو میں نہیں جانتا وہ جاننے کے قابل ہی نہیں۔ کوئی مائی کا لال ایسا مصنوعی موتی نہیں بنا سکتا جس کو میں ایک نظر میں نہ پہچان لوں۔“

یہ کہہ کر اس نے مسز رامزی کی طرف دیکھا اور سامعین سے پر جوش انداز میں مخاطب ہو کر کہا۔

”چلیں، نہ گھوڑا دور نہ میدان۔ اب یہی موتیوں کی مالا دیکھ لیں جو مسز رامزی نے پہنی ہوئی ہے۔ ان موتیوں کی قیمت میں دس سال تک کیا، کبھی بھی ایک پیسے کی کمی نہیں آ سکتی، صرف اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ “

مسز رامزی کچھ شرمائی اور موتیوں کی مالا کو اپنے بلاؤز کے گلے کے اندر چھپا لیا۔
رامزی بھی اپنی فطرت سے مجبور تھا اور حجت کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
” تو کلاڈا صاحب آپ کے خیال میں یہ موتی خاصے قیمتی ہیں؟“

” قیمتی؟ یہ تو نہایت انمول موتی ہیں۔ میں نے جیسے ہی ایک نظر ان پر ڈالی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں غیر معمولی نوعیت کے سچے موتی دیکھ رہا ہوں۔“

رامزی کی باچھیں کھل رہی تھیں۔ وہ ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کلاڈا اس کے دام میں پھنس چکا ہے اور اسے نیچا دکھانے کا اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔

”اچھا، تو آپ کے خیال میں اس مالا کی کیا قیمت ہو گی؟“
رامزی نے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔

”کم ازکم پندرہ ہزار ڈالر۔ اور اگر یہی ہار آپ ففتھ ایونیو کے کسی فیشن ایبل اور اعلی درجے کے سٹور سے خریدیں تو تیس ہزار ڈالر۔“

”ہا، ہا، ہا۔“
رامزی نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔

” بس آپ کی اصلیت پتہ چل گئی کلاڈا صاحب۔ حقیقت یہ ہے کہ مسز رامزی نے نیو یارک چھوڑنے سے ایک دن پہلے یہ ہار ایک معمولی سے ڈپارٹمنٹ سٹور سے صرف اٹھارہ ڈالر میں خریدا تھا۔“

کلاڈا کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔
” بکواس۔ اس ہار کے موتی نہ صرف اصلی ہیں بلکہ انتہائی کمیاب بھی۔“
”چلو، اگر ایسا ہی ہے تو شرط لگا لیتے ہیں۔ میں سو ڈالر دوں گا اگر یہ موتی مصنوعی نہ نکلے۔“
رامزی نے کلاڈا کو چیلنج کیا۔
”ٹھیک ہے۔ منظور۔“

”دیکھیں، کسی یقینی بات پر شرط لگانا مناسب نہیں ہے۔ شرط تو وہاں لگاتے ہیں جہاں دوسرے کا جیتنا بھی ممکن ہو۔“

مسز رامزی نے اپنے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اگرچہ وہ مسکرا رہی تھی لیکن یہ مسکراہٹ کچھ ناپسندیدگی کا اظہار بھی کر رہی تھی۔

” کیا برے لگتے ہیں اگر سو ڈالر مفت میں آ جائیں؟ اب میں اتنا بھی بے وقوف نہیں ہوں کہ آئی نعمت کو ٹھکرا دوں۔“

” لیکن یہ بات ثابت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ تو صرف ہمارا کہنا ہے، مسٹر کلاڈا کے دعوے کی تردید میں۔“
مسز رامزی بضد تھی کہ شرط نہ لگے۔

” اچھا، مجھے دیکھنے دیں۔ اگر یہ موتی مصنوعی ہوئے تو میں فوراً جانچ لوں گا۔ سو ڈالر کی میرے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ ذرا دیجئے ہار مجھے۔“

”ہاں، بیگم اتار دو ہار۔ اور مسٹر کلاڈا کو جی بھر کے تفتیش کرنے دو۔ ابھی پتہ چل جائے گا۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔“

مسز رامزی نے دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے کی طرف بڑھائے تاکہ زنجیر کا کانٹا کھول سکے۔ کچھ دیر کوشش کرنے کے بعد اس نے کہا،

” چھوڑو پرے، زنجیر کھل نہیں رہی۔ کوئی بات نہیں۔ مسٹر کلاڈا ہماری بات پر یقین کر لیں گے۔“

اب میری چھٹی حس مجھے بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اور جو کچھ بھی ہو گا اچھا نہیں ہو گا۔ لیکن مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ہو گا کیا۔ میں نے کچھ کہنے کا ارادہ کیا لیکن خاموش رہا۔

” کیسے کوئی بات نہیں؟ اب میں اتنی آسانی سے تو سو ڈالر نہیں گنواؤں گا۔ میں دیکھتا ہوں یہ کانٹا کیوں نہیں کھل رہا۔“

یہ کہہ کر رامزی اپنی بیوی کی کرسی کے پیچھے آیا اور زنجیر کھول کر کلاڈا کے ہاتھ میں تھما دی۔

کلاڈا نے کوٹ کی جیب سے ایک محدب شیشہ نکالا اور غور سے موتیوں کا معائنہ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے زنجیر رامزی کو واپس کر دی اور کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اس کی نظر مسز رامزی پر پڑی۔

مسز رامزی کی رنگت بالکل پیلی پڑ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شدید خوف جھلک رہا تھا اور ساتھ ہی ایک التجا جس کو رامزی کے علاوہ اور ہر کوئی صاف دیکھ سکتا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بے ہوش ہونے کے قریب ہے۔

کلاڈا کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔ وہ کسی اندرونی کشمکش میں مبتلا نظر آ رہا تھا جیسے اپنے آپ پر قابو بانے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر اس نے دھیمی اور ندامت بھری آواز میں کہا۔

” میں غلطی پر تھا۔ یہ بہت ہی اچھی نقل ہے۔ مجھ کو دھوکہ ہو گیا تھا۔ یہ موتی مصنوعی ہیں۔ اٹھارہ ڈالر اس مالا کی صحیح قیمت ہے۔ “

یہ کہہ کر اس نے جیب سے اپنا بٹوا نکالا اور سو ڈالر کا ایک نوٹ رامزی کو دے دیا۔ رامزی کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ اس نے نوٹ جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”امید ہے اب آپ کو سبق حاصل ہو گیا ہو گا کہ اتنی خود اعتمادی بھی اچھی نہیں۔ اب پتہ چلا کہ حضور عقل کل نہیں ہیں۔“

میں نے کن اکھیوں سے دیکھا کہ کلاڈا کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔

کہانی آگ کی طرح پورے جہاز میں پھیل گئی۔ رات گئے تک موتیوں کی مالا موٖضوع گفتگو رہی۔ لوگ کلاڈا کا مذاق اڑاتے رہے۔ مسز رامزی یہ کہہ کر کہ اس کے سر میں شدید درد ہو رہا ہے، اپنے کیبن میں واپس چلی گئی۔

اگلی صبح جب میں شیو کر رہا تھا تو کیبن کے دروازے کے نیچے سے ایک ہلکی سی سرسراہٹ کی آؤ از آئی۔ میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ جب میں نے فرش پر نظر ڈالی تو ایک لفافہ پڑا ہوا تھا۔ میں نے اٹھا کر دیکھا تو اس پر مسٹر کلاڈا کا نام بڑے بڑے حروف میں بہت خوش خطی سے لکھا ہوا تھا۔

”یہ کیا ہے؟“

کلاڈا نے پوچھا۔ میں نے لفافہ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے میرے سامنے ہی اسے کھولا لیکن خط کی بجائے اس میں سے سو ڈالر کا ایک نوٹ نکلا۔ کلاڈا نے میری جانب دیکھا۔ اس کے چہرے پر سرخی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے لفافے کو پھاڑ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور مجھے دے کر کہا کہ ان کو جہاز کی گول کھڑکی سے سمندر میں پھینک دوں۔ جیسا اس نے کہا میں نے ویسا ہی کیا۔ لیکن مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ ہی بیٹھا،

” تو کیا وہ موتی اصلی تھے؟“
کلاڈا جواب دینے سے پہلے کافی دیر تک گہری سوچ میں ڈوبا رہا اور پھر بولا،

” کوئی آدمی دوسروں کے سامنے اپنی ذلت اور تضحیک برداشت نہیں کر سکتا۔ شادی شدہ زندگی کے ڈرامے میں بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں۔ لیکن اگر نئی نویلی دلہن کی محض ایک غلطی کی وجہ سے یہ رشتہ شروع ہوتے ہی ختم ہو جائے تو یہ ڈرامہ ایک بہت بڑی ٹریجڈی میں بدل جاتا ہے۔ “

اس لمحے میرے دل میں اس کے لئے ایک نئی عزت اور احترام نے جنم لیا۔

سو ڈالر کا نوٹ ابھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ کلاڈا نے کوٹ کی جیب سے بٹوا نکالا اور نوٹ احتیاط سے اس میں رکھ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments