یہ نبی ﷺ کے پیروکار ہیں


مسجد نبوی میں جو کچھ ہوا اس پر مجھے بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر سعودی عرب جیسا سخت ملک نہ ہوتا تو شاید مریم اورنگزیب اور شاہ زین بگٹی کو پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والے آگ لگا کر جلا دیتے۔

مسجد نبوی میں شاہ زین بگٹی کے بال کھینچے گئے۔

مسجد نبوی میں مریم اورنگزیب کو گالیاں دی گئی۔ ایک عورت کو اس طرح گھیرنا اور پھر اس کو گالیاں دینا اور وہ بھی ایسے مقدس مقام پر؟ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہمیں اپنی حدود کا تعین کرنا پڑے گا۔

میں نے اپنی زندگی میں کئی ملکوں کا سفر کیا اور ہمیشہ ان ملکوں کے مشہور چرچ، مندر، ٹیمپل اور عبادت گاہوں میں گیا اور سکون حاصل کیا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عبادت گاہ میں کسی کو لڑتے نہیں دیکھا سوائے ایک قوم کے اور وہ بھی ایک جگہ۔ قوم پاکستانی اور جگہ مسجد نبوی۔

چاہے وہ رمضان المبارک میں افطاری کے ڈبے بٹنے پر ہو یا کسی کو دھکا دینے پر۔ دنیا میں ہم وہ واحد قوم ہیں جو مکہ اور مدینہ منورہ میں بہانے بنا کر نمازیوں سے بھیک مانگتے ہیں۔

اور اب ہم سیاسی جماعتوں کی لڑائی کو مدینہ لے گئے۔ وہ مقام جہاں انسان کو صرف اپنے گناہ یاد آ رہے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔ وہ مقام جہاں جگہ جگہ لکھا ہوا ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے نیچا رکھو، کہیں تمہارے سارے عمل اور عبادات رائیگاں نہ چلے جائیں۔

وہ اسلام، نبی اور قرآن جو کہتا ہے کہ تم کسی دوسرے کے خدا کو برا مت کہو کہیں وہ پلٹ کر تمہارے خدا کو برا نہ کہہ دے۔

پہلے میں اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اتنی نفرت اور عدم برداشت کا شکار ہے لیکن سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا مسجد نبوی کے اس واقعے پر خوشی کا اظہار کرنا اور جن لوگوں نے یہ حرکت کی ان کو سپورٹ کرنے پر مجھے لگا کہ میں غلطی پر تھا۔

میں اس گمان میں تھا کہ ابھی ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح سمجھتے ہیں۔ جو حق و صداقت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں لیکن میں غلط تھا۔

ایک شخص کی اندھی تقلید میں لوگ ہر حد پار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر اس شخص کے لئے انہیں کسی کو جلانا پڑے، قتل کرنا پڑے، مسجد نبوی میں گالیاں دینی ہوں، مسجد نبوی میں کسی کے بال کھینچنے ہوں، اس کے فدائی سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

ہمارا ہمیشہ سے مسئلہ ہمارا نصاب ہے جس نے بچپن سے ہی ہم لوگوں کو نفرت کرنا سکھایا۔ مذہب کے نام پر، قومیتوں کے نام پر، لسانی بنیادوں پر اور اب جو کمی پوری رہ گئی تھی وہ ایک سیاسی جماعت نے پوری کر دی۔

ہم نے کبھی انسان دوستی کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔ ہم نے کبھی کسی ہندو، عیسائی، پارسی اور اپنے سے الگ عقیدہ اور سوچ رکھنے والے کو انسان سمجھا ہی نہیں۔ ہم نے کبھی اپنے معاشرے میں محبت کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔

اس عدم برداشت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں بھی ہم احتجاج کرتے ہیں۔

کسی نے ہمیں سکھایا ہی نہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی عزت اس لئے نہیں کرنی چاہیے کہ وہ غلط ہے کہ صحیح بلکہ اس لئے کرنی چاہیے کہ وہ ایک انسان ہے۔

ہم اس نبی ﷺ کے ماننے والے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد سب کو معاف کر دیا تھا۔ ہمارے نبی کی یہ تعلیمات نہیں ہیں کہ اپنی ذات سے کسی کو تکلیف پہنچائی جائے۔ شاعر عدنان جعفری کی پھر وہی نظم یاد آ گئی جو ہمارے موجودہ معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔

یہ کون ہیں؟
ہجوم ہے۔
ہجوم ہے تو کس لئے؟
نبی ﷺ کے جانثار ہیں
نبی ﷺ کے پاسدار ہیں
نبی ﷺ کو مانتے ہیں یہ
نبی ﷺ کے پیروکار ہیں!
نبی ﷺ میرے رحیم تھے
نبی ﷺ میرے کریم تھے
یہاں پہ کس کی لاش ہے
یہ کون ہے جلا ہوا؟
یہ کون ہے مرا ہوا؟
ہجوم نے جلا دیا؟
رحم جو تھا وہ کیا ہوا
کرم جو تھا وہ کیا ہوا
یہ کون سا ہجوم ہے؟
وہی جو پاسدار تھا
وہی جو جانثار تھا
وہی جو پیروکار تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments