تقصیر بمقابلہ تدبیر
دو دن پہلے مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں چند شر پسند عناصر کی طرف سے ایک سیاسی پارٹی کے وزراء اور کارکنان پر جملے کسنے اور بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنے کی ویڈیوز سامنے آئیں تو سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح چار گروہ بن گئے۔
ایک گروہ وہ جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے مخالف سیاسی پارٹی کو کافر اور پتا نہیں کیا کیا کہہ گیا، دوسرا گروہ تھا جو تقصیر کرنے والی پارٹی کے اس اقدام کی حمایت کی جرات تو نہ کر سکتا تھا لیکن مختلف تاویلیں اور ماضی سے کچھ خطابات نکال کر پیش کر کے بیچ والا راستہ نکالنے کی کوشش کی، تیسرا گروہ ایسا تھا جس نے اس اقدام پر بھنگڑے ڈالے اور کہا کہ ہم نے نبی آخرالزماں محمد مصطفیٰﷺ کے شہر میں بھی چوروں اور ڈاکووں کو رسوا کیا۔ چوتھا اور آخری گروہ ایسا تھا جس نے اس تمام واقعے کی مذمت کی اور کسی پارٹی کو کافر کہنے کی بجائے انہیں انسان سمجھ کر معافی مانگنے کی تلقین کی۔ سب سے بہتر اور سب سے قابل تقلید گروہ یہی تھا جس نے غلط کو غلط کہا لیکن کسی کو دائرہ اسلام سے خارج بھی نہیں کیا۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا وہ باعث شرم ہے اور اس طرح کے قبیح فعل کی اجازت نہیں دی جا سکتی وہ چاہے مریم نواز کے پالتو کریں یا عمران خان کے۔ عمران خان اگر اس بات سے شرمندہ ہیں ہر مسلمان کی طرح تو انہیں اس فعل کی پرزور مذمت کرنی چاہیے۔ ہمیں ان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ ہم کسی کے فعل کو درست یا غلط تو کہہ سکتے ہیں لیکن کسی کو ایمان سے خارج کرنے کا لائسنس ہم میں کسی کے پاس نہیں۔
جو مسجد نبوی ﷺ میں ہوا اسے میں تقصیر کہوں گا جس پر توبہ کی گنجائش بھی ہے اور اس میں معافی بھی مل سکتی ہے لیکن جو مسلم لیگ (ن ) اور ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے مسلسل کفر اور یہودی ایجنٹ والے فتوے لگائے جا رہے ہیں وہ تدبیر ہے۔ وہ معاملے کو ہوا دے کر اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں اور کچھ نہیں۔
ہمارے لئے معتدل راستہ یہی ہے کہ بجائے کسی خاص کو ٹارگٹ کرنے کے مجموعی طور پر اس عمل کو قابل مذمت گردانیں اور دوبارہ سے اس طرح کے کاموں کی نوبت ہی پیش نہ آئے۔ اگر آج ایک حلقہ توجیہات پیش کرے گا اور دوسرا سیدھا ایمان پر حملے کرے گا تو کل کو یہ کیس الٹ ہو جائے گا اور دوسرا غلطی کرے گا اور پہلا دوبارہ سے حملے کرے گا۔ ایک بات کو دیکھ کر تو دل میں امید جاگی ہے کہ ہم چاہے جتنا گناہ گار اور بھٹکے ہوئے بن جائیں صرف حضور اکرم محمد مصطفیٰﷺ کی ذات ہی ہمیں دوبارہ سے یکجا کر سکتی ہے، یہ مسلم امہ انہی کے نام پر کٹ اور مر سکتی ہے۔
ہم پاکستانیوں کو مکہ اور مدینہ کے ادب و تعظیم کی وجہ سے پہچان ملی تھی جو کہ چند واقعات کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے۔ خدارا سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر سوچا کریں۔ ہماری پارٹیوں سے بڑھ کر ہے ہمارا دین اور ہمارا عقیدہ۔ اللہ ہم سب کو حرمت رسول اللٰہ ﷺ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
- سوز کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟ - 09/12/2022
- آرمی چیف کی تقرریر اور پس پردہ حرکات - 23/11/2022
- عمران خان کا لانگ مارچ اور اُس کے نتائج - 01/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).