حضرت علی کا گورنر مصر کو خط (آخری حصہ)


حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے گورنر مصر کو لکھے گئے خط کے چوتھے اور آخری حصہ کے ساتھ حاضر ہیں۔ آپ نے ایک بہترین نبض شناس ہونے کے ناتے حکمران کی ایسے امور کی جانب توجہ مبذول کروائی جس سے ریاست مضبوط اور حکومت ہر دل عزیز ہوتی ہے۔ آپ نے نماز دین کا ستون ہونے کے باوجود اس میں میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین کی۔ ایفائے عہد، ناحق قتل و غارتگری سے گریز اور حکمران کے رعایا دوست ہونے کے اصولوں کو حکومت کی بنیادی اساس بیان کیا۔ آپ نے فرمایا:

امامت:دیکھو! جب امامت کرنے لگو تو ایسی امامت نہ کرنا کہ لوگ نماز ہی سی بیزار ہوجائیں اور ایسی امامت بھی نہیں کہ نماز کا کوئی رکن ضائع ہو جائے۔ یاد رکھو نمازیوں میں ہر قسم کی لوگ ہوتے ہیں، تندرست، بیمار بھی اور ضرورت مند بھی، رسول اللہ جب خود مجھے یمن بھیجنے لگے تو میں نے عرض کیا تھا یارسول اللہ! امامت کس طرح کروں گا؟ جواب ملا کہ، تیری نماز ویسی ہو جیسی سب سی کم طاقتور نمازی کی ہو سکتی ہے اور تو مومنوں کے لئے رحیم ثابت ہونا۔

یہ بھی ضروری ہے کہ رعایا سے تمہاری روپوشی کبھی لمبی نہ ہو۔ رعایا سی چھپنا حاکم کی تنگ نظری کی ثبوت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حاکم رعایا کے حالات سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ جب حاکم رعایا سی ملنا جلنا چھوڑ دیتا ہے تو رعایا بھی ان لوگوں سے ناواقف ہو جاتی ہے جو اس سے پر دے میں ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے لوگ برے بن جاتے ہیں۔ اچھائی برائی بن جاتی ہے اور برائی اچھائی۔ حق اور باطل میں تمیز اٹھ جاتی ہے اور بات یہ ہے کہ حاکم بھی آدمی ہوتا ہے اور ان سب باتوں کو جان نہیں سکتا جو اس سے چھپا لی جاتی ہیں۔ حق کی سر پر سینگ نہیں کہ دیکھتے ہی سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ دیا جائے۔

سوچو تو تم دو میں سے ایک قسم کی آدمی ہو گے یا تو حق کے مطابق خرچ کرنے میں سخی ہو گے اگر ایسی ہو تو تمہیں چھپنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ حق کی طرف سے جو کچھ تمہارے ذمہ واجب ہو چکا ہے اسے ادا کرو گے یا اور کئی نیک کام کر گزرو گے۔ دوسری صورت میں یا پھر تم بخل وضع کی آزمائش میں ڈالے گئے ہو تو اس صورت میں بھی چھپنا غیر ضروری ہے کیونکہ اس قماش کے آدمی سے لوگ بڑی جلدی مایوس ہو کر خود ہی کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔

حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تم سے لوگوں کی زیادہ تر ضرورتیں ایسی ہوں گی جن سے تم پر کوئی بوجھ نہ پڑے گا۔ وہ کسی ظلم کی شکایت لے کر آئیں گے یا کسی معاملے میں انصاف کی طالب ہوں گے ۔ تمہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حاکم کے درباریوں اور مصاحبوں میں خود غرضی، زیادتی، بد معاملگی ہوا کرتی ہے۔ ان کی شر سے مخلوق کو بچانے کی صورت یہی ہے کہ ان کی برائیوں کے سرچشمے ہی بند کر دیے جائیں۔

خبر دار! کسی مصاحب یا رشتہ دار کو جاگیر نہ دینا۔ ایسا کرو گے تو یہ لوگ رعایا پر ظلم کریں گے۔ خود فائدہ اٹھائیں گے اور دنیا و آخرت میں مخلوق خدا کی بد گوئی تمہارے سر پڑے گی۔ حق کسی کے خلاف پڑے اس پر حق ضرور نافذ کرنا چاہیے چاہے تمہارا عزیز قریب ہو یا کوئی دیگر اس بارے میں تمہیں مضبوط اور ثواب خداوندی کا آرزو مند رہنا ہو گا۔ اس سے حق کا وار خود تمہارے رشتہ داروں اور عزیز ترین مصاحبوں پر کیوں نہ پڑے تمہیں خوش دلی سے یہ گوارا کرنا ہو گا۔

بے شک تم بھی آدمی ہو اور تمہیں خوش دلی سے کوفت ہو سکتی ہے۔ لیکن تمہاری نگاہ ہمیشہ نتیجے پر رہنی چاہیے۔ یقین کرو نتیجہ تمہارے حق میں اچھا ہی ہو گا۔ اگر رعایا کو تم پر کبھی ظلم کا شبہ ہو جائے تو بے دھڑک رعایا کے سامنے آجانا اور اس کا شبہ دور کر دینا۔ اس سے تمہارے نفس کی ریاضت ہوگی۔ دل میں رعایا کے لئے نرمی پیدا ہوگی اور تمہارے عذر کا بھی اظہار ہو جائے گا۔ ساتھ ہی تمہاری یہ غرض بھی پوری ہو جائے گی کہ رعایا حق پر استوار ہے۔

دیکھو! جب دشمن ایسی صلح کی طرف بلائے جس میں خدا کی رضا مندی ہوتو انکار نہ کرنا کیونکہ صلح میں تمہاری فوج کے لئے آرام ہے اور خود تمہارے لئے بھی فکروں سے چھٹکارا اور امن کا سامان ہے لیکن صلح کے بعد دشمن سے خوب چوکس خوب ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ ممکن سے صلح کی راہ سے اس نے تقرب اس لئے حاصل کیا ہو کہ بے خبری میں تم پر ٹوٹ پڑے۔ لٰہذا بڑی ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں حسن ظن سے کام نہیں چل سکتا اور جب دشمن سے معاہدہ کرنا یا اپنی زبان اسے دے دینا تو عہد کی پوری پابندی کرنا۔

زبان کا پورا پاس کرنا۔ عہد کو بچانے کے لئے اپنی جان تک کی بازی لگا دینا کیونکہ سب باتوں میں لوگوں کا اختلاف رہا ہے مگر اس بات پر سب متفق ہیں کہ آدمی کو اپنا عہد پورا کرنا چاہیے۔ مشرکوں تک نے عہد کی پابندی ضروری سمجھی تھی حالانکہ مسلمانوں سے بہت نیچے تھے اس لئے کہ تجربوں نے انہیں بتا دیا تھا کہ عہد شکنی کا نتیجہ تباہ کن ہوتا ہے۔ لٰہذا اپنے عہد وعدے اور دی ہوئی زبان کے خلاف کبھی نہ جانا۔ دشمن سے دغابازی نہ کرنا کیونکہ یہ خدا سے سر کشی ہے اور خدا سے سرکشی بے وقوف و سرکش ہی کیا کرتے ہیں۔

معاہدے : عہد کیا ہے؟ خدا کی طرف سے امن وامان کا اعلان ہے جو اس نے اپنی رحمت سے بندوں میں عام کر دیا ہے۔ عہد خدا کا حرم ہے جس میں سب کو پناہ ملتی ہے اور جس کی طرف سبھی دوڑتے ہیں۔ خبردار! عہد و پیمان میں کوئی دھوکہ، کوئی کھوٹ نہ رکھنا اور معاہدے کی عبارت ایسی نہ ہونے دینا کہ گول مول مبہم ہو، کئی کئی مطلوب اس سے نکلتے ہوں۔ اگر کبھی ایسا ہو جائے تو عہد دے چکنے کے بعد ایسی عبارت سے فائدہ نہ اٹھا نا اور یہ بھی یاد رہے کہ معاہدہ ہو چکنے کے بعد اگر اس کی وجہ سے پریشانی لاحق ہو تو ناحق اسے منسوخ نہ کر دینا۔ پریشانی جھیل لینا، بد عہدی کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ بد عہدی پر خدا تم سے جواب طلب کرے گا اور دنیا و آخرت میں اس کے مواخذے سے کہیں مفرنہ ہو گا۔

خون ناحق: خبر دار! خون ناحق نہ بہانا کیونکہ خونریزی سے بڑھ کر بد انجام، نعمت کا ڈھانے والا، مدت کو ختم کرنے والا کوئی کام نہیں۔ قیامت کے دن جب خدا کا دربار عدالت لگے گا تو سب سے پہلے خون ناحق ہی کے مقدمے پیش ہوں گے اور خدا فیصلہ کرے گا۔ یاد رکھو، خونریزی سے حکومت طاقت ور نہیں ہوتی بلکہ کمزور پڑ کر مٹ جاتی ہے اور یہ تو کھلی بات ہے کہ قتل عمد میں تم نہ خدا کے سامنے کوئی عذر پیش کر سکتے ہو نہ میرے سامنے۔ لیکن اگر سزا دنیا میں تمہارے کوڑے، تلوار اور ہاتھ سے نادانستہ اسراف ہو جائے تو حکومت کے غرور میں مقتول کا خون بہا اس کے وارثوں کے حوالے کرنے سے باز نہ رہنا۔

طرز بیان اچھا ہو یا برا صرف الفاظ کی سچائی کی طرف دھیان دو۔ خبر دار! خود پسندی کا شکار نہ ہونا۔ نفس کی جو بات پسند آئے اس پر بھروسا نہ کرنا۔ خوشامد پسندی سے بچنا کیونکہ شیطان کے لئے یہ زریں موقع ہوتا کہ نیکو کاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے۔

خبردار! رعایا پر کبھی احسان نہ جتانا۔ جو کچھ اس کے لئے کرنا اسے بڑھا چڑھا کہ نہ دکھانا اور وعدہ خلافی بھی کبھی نہ کرنا۔ احسان جتانے سے احسان مٹ جاتا ہے۔ بھلائی کو بڑھا کر دکھانے سے حق کی روشنی چلی جاتی ہے اور وعدہ خلافی سے خدا بھی ناخوش ہوتا ہے۔ اور حق کے بندے بھی۔ اللہ تعالی فرما چکا ہے، خدا کو نہایت ناپسند ہے کہ ایسی بات کہو جو نہیں کرتے ہو۔

جلد بازی سے کام نہ لینا۔ ہر معاملے کو اس کے وقت پر ہاتھ میں لینا اور انجام کو پہنچا دینا۔ نہ وقت سے پہلے اس کے لئے جلدی کرنا نہ وقت آ جانے پر تساہل برتنا۔ اگر معاملہ مشتبہ ہوتو اس پر اصرار نہ کرنا۔ روشن ہو تو اس میں کمزوری نہ دکھانا۔ اصل یہ ہے کہ ہر کام اس وقت پر کرنا اور ہر معاملے کو اس کی جگہ رکھنا۔ کسی ایسی چیز کو اپنے لئے خاص نہ کرلینا جس میں سب کا حق برابر ہے اور نہ ایسی باتوں سے انجان بن جانا جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ خود غرضی سے جو کچھ حاصل کرو گے تمہارے ہاتھ سے چھن جائے گا اور دوسروں کو دے دیا جائے گا۔ جلد ہی تمہاری آنکھوں پر سے پردے اٹھ جائیں گے اور مظلوم سے جو کچھ لے چکے ہو اس کی داد رسی ہوگی۔

دیکھو! اپنے غصے، طیش کو اور ہاتھ، زبان کو قابو رکھنا۔ سزا دینے کو ملتوی نہ کر دینا، یہاں تک کہ غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔ اس وقت تمہیں اختیار ہو گا کہ جو مناسب سمجھو کرو۔ مگر اپنے آپ پر قابو نہ پاسکو گے۔ جس تک پروردگار کی طرف واپسی کا معاملہ تمہارے خیالات پر غالب نہ آ جائے۔ گزری ہوئی منصف حکومتوں، نیک دستاتیر، ہمارے نبی کے واقعات اور کتاب اللہ کے فرائض ہمیشہ یاد رکھنا تاکہ اپنی حکومت کے معاملات میں ہمارے عمل کی پیروی کر سکو۔

آخر پہ حضرت علیؓ نے لکھا کہ

تمہیں پوری کوشش سے میری ہدایتوں پر عمل کرنا چاہیے جو اپنی اس وصیت میں لکھ چکا ہوں۔ میرا یہ عہد تم پر حجت ہے اور اس کے بعد اپنے نفس کی خواہشوں کا ساتھ دینے میں کوئی عذر نہ پیش کر سکو گے۔ میں اللہ بزرگ و برتر سے دست بد دعا ہوں جس کی رحمت وسیع اور قدرت عظیم ہے۔ کہ مجھے اور تمہیں اس راہ کی توفیق بخشی جس میں اس کی رضامندی اور مخلوق کی بھلائی ہے۔ ساتھ ہی بندوں میں نیک نامی اور ملک کے لئے ہر طرح کی اچھائی ہے اور یہ کہ اس کی نعمت ہم پر پوری ہو۔ اس سے عزت افزائی بڑھتی اور یہ کہ میرا اور تمہارا خاتمہ سعادت و شہادت پر ہو۔ بے شک ہم اللہ کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔

والسلام علیٰ رسول والسلام علی ابن طالب اللہ کا بندہ ٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments