اینڈوکرنالوجسٹ کی زندگی کا ایک دن


فیس بک میں ایک گلچ کی وجہ سے پرانی پوسٹیں مختلف گروپس میں اوپر آ گئیں اور اس میں میں نے اپنے لکھے ہوئے پانچ چھ سال پرانے نوٹ دیکھے۔ اس دوران کافی کچھ بدل چکا ہے۔ کورونا کی وبا نے دنیا بدل دی ہے۔ مریض دیکھنے، ان کے علاج کرنے اور اسٹوڈنٹس کو پڑھانے کے نظام میں کافی تبدیلیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم سب میں لکھنا شروع کرنے سے پہلے ہم سب گروپ کے بہت سارے لکھاری ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ ہم سب گروپ کی وجہ سے بہت سے نئے دوست بنے اور اس میگزین کو پڑھنے سے میری معلومات میں اضافہ ہوا اور دنیا کے معاملات پر چاہے سرسری ہی سہی مگر نظر رکھنے کا موقع ملا۔ ہم سب جہاں بھی ہیں، اپنی زندگی اور اردگرد کے حالات کے بارے میں لکھنے سے ایمپتھی یعنی دوسرے انسانوں کے لیے احساس اور دنیا کے مختلف علاقوں کے بارے میں معلومات بڑھانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ایک بلاگ ایک زندگی میں ایک کھڑکی ہے جس سے پڑھنے والے لکھنے والے کی نظر سے اس کے اردگرد کی دنیا کو دیکھ سکتے ہیں۔

اپریل 2022 کا مہینہ ختم ہونے کو ہے۔ یہ اوکلاہوما کا خاص طوفانی موسم ہے۔ بدترین بگولے تقریباً ان ہی مہینوں میں یہاں سے گزرتے ہیں۔ بگولے گزر جانے کے بعد بالکل سکون ہوجاتا ہے اور موسم معصوم سا لگتا ہے۔ بالکل نہیں کہہ سکتے کہ وہ اتنی تباہی کر چکا ہے۔ آج نارمن، اوکلاہوما میں صبح سے بارش ہو رہی ہے۔ صرف ایک دو مہینے میں ہی ہر طرف سبزہ پھیل گیا ہے اور رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ یہ صرف بمشکل دو مہینے اور چلے گا پھر شدید گرمیوں کی دھوپ سب کچھ جلا بھسا کر کتھئی سا کردے گی اس لیے یہی موقع ہے کہ اس خوبصورتی کو آنکھوں میں سمو لیا جائے۔

جو لوگ سبزیاں اگاتے ہیں ان کے لیے یہی مناسب وقت ہے کہ اپنی سبزیاں زمین میں لگا دیں۔ دنیا کے ہر علاقے کی آب و ہوا کے لحاظ سے ان جگہوں کا اپنا کیلنڈر ہوتا ہے۔ ہر مہینے الگ الگ چیزوں کو لگانے کا درست وقت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نارمن میں پیاز اور آلو فروری میں بونے ہیں، ٹماٹر، ہری مرچیں اور بینگن اپریل اور مئی میں اور بھنڈی مئی جون میں۔ اس وقت میرا پودے بونے کا شیڈول بالکل اپ ٹو ڈیٹ چل رہا ہے جس کی مجھے بہت خوشی ہے۔

صبح میں نے اپنی کتی اسٹورمی کو نہر کے کنارے چہل قدمی کروائی۔ اگر میرے پاس یہ کتی نہ ہوتی تو میں صبح سویرے روزانہ موسم کی پروا کیے بغیر چلنے پھرنے کے لیے ہرگز نہ نکلتی۔ اسٹورمی کی وجہ سے میری صحت اچھی رہنے کا امکان ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جو لوگ کتے پالتے ہیں، ان میں دل کی بیماریاں کم ہوتی ہیں اور ان کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ کتوں کو باہر گھومنے جانا بہت پسند ہوتا ہے۔ وہ بچوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں اور انسانوں سے بغیر کسی صلے کی امید کے محبت کرتے ہیں۔

پچھلے ہفتے جب بگولے آنے کا خطرہ تھا تو ہم سب گیراج کے نیچے بنے ہوئے شیلٹر میں چھپ گئے لیکن اسٹورمی نے اس کے اندر آنے سے صاف انکار کر دیا۔ جب تک طوفان گزر جائے اس کو گھر کے اندر بند کرنا پڑا۔ بگولوں کی تباہی میں بہت سے جانور مر جاتے ہیں اور کافی گم بھی ہو جاتے ہیں۔ جانوروں کی فلاح بہبود پر کام کرنے والی تنظیمیں ان گمے ہوئے جانوروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور ان کے مالکین تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ پالتو جانوروں کی دیکھ بھال ان کے مالکین کی اہم ذمہ داری ہے۔

آج اینڈوکرنالوجی کے کلینک میں میرے پہلے مریض تھائرائڈ کی بیماری کے لیے واپس آئے تھے۔ وہ ہسپانوی میں بات کرتے ہیں اس لیے ایک ہسپتال کی ترجمان سروس استعمال کی۔ ہسپتال نے ہمیں ایک آئی پیڈ مہیا کیا ہے جس میں دنیا کی کئی مختلف زبانوں کو بولنے والے ترجمان کے زریعے مریضوں سے بات کر سکتے ہیں۔ ہمارے دوسرے مریض ذیابیطس کے فالو اپ کے لیے آئے تھے۔ ان کی صحت توقع سے بہت بہتر معلوم ہوئی۔ ان کو حال ہی میں کیسنر کی بیماری لاحق ہو گئی تھی اور یہ اچھا ہوا کہ جلد سطح پر اس کے بارے میں معلوم ہو گیا اور ان کا مناسب علاج ممکن ہوا۔

ان کے بعد ایک 25 سالہ نوجوان آدمی کو دیکھا جس کو ٹیسٹواسٹیرون کی کمی کی وجہ سے اینڈوکرنالوجی کلینک میں بھیجا گیا تھا۔ ان کے طویل انٹرویو سے یہ معلوم ہوا کہ سولہ سال کی عمر میں آرنلڈ شیوازنگر کی طرح مسلز بنانے کی خاطر انہوں نے بلیک مارکیٹ سے ٹیسٹواسٹیرون کی دوائی لینا شروع کردی تھی جس کی وجہ سے اپنے جسم نے یہ اہم ہارمون بنانا چھوڑ دیا تھا۔ کچھ ٹیلی وزٹ تھیں جن میں مریضوں کو وڈیو چیٹ کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔

کورونا کی وبا سے پہلے ہمارے کلینک میں ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے ذیابیطس کے کئی کیس دیکھے۔ کچھ ٹائپ ون، کچھ ٹائپ ٹو۔ پیراتھائرائڈ کی بیماری جو خون میں کیلشیم کی مقدار بڑھا دیتی ہے، اینڈوکرائن کے کلینک میں دیکھی جانے والی تیسری بڑی بیماری ہے۔ اس کا علاج کسی دوا سے ممکن نہیں۔ وہ صرف سرجری سے ممکن ہے۔ ہم ہر مریض سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے تمام ضروری ویکسینیں لگوائی ہیں یا نہیں؟ تقریباً ہر ہفتے ایک یا دو ایسے مریض ہوتے ہیں جو ویکسینوں کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہیں۔ ان سے بات چیت چلتی رہتی ہے۔

آج صبح یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں کارڈیالوجی کا لیکچر تھا۔ اس میں میں نے اس تحقیق کے بارے میں سنا جس میں وی اے ہسپتال کے ہزاروں مریضوں کے ریکارڈز کے جائزے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو کورونا وائرس سے معمولی سی بھی بیماری ہوئی تھی، ان میں دل کی بیماری کا خطرہ ان لوگوں کی نسبت زیادہ ہو گیا جن کو کورونا کی بیماری نہیں ہوئی تھی۔ یہ مشاہدات ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ پرہیز علاج سے کتنا بہتر ہے۔ میرے ذہن میں کل ایک دیکھے ہوئے ذیابیطس کے 70 سالہ مریض پھر گئے جن کی ایک ٹانگ ذیابیطس کی وجہ سے کٹی ہوئی تھی۔

ایک لمحے کو میرے دل میں خیال آیا کہ ان کو یہ اسٹڈی بھیجتی ہوں لیکن میں نے یہ ارادہ بدل دیا۔ آدم گڈمین کی کتاب ”تھنک اگین“ میں انہوں نے ذکر کیا کہ اگر ہم لوگوں کا خیال بدلنے کے لیے حقائق پیش کریں تو وہ اپنے غلط خیالات میں مزید راسخ ہو جاتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں ریٹائرڈ ہوں اور اب اپنا بلاگ لکھتا ہوں۔ یہ سن کر مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے ان سے کئی سوالات کیے۔

ان کے بلاگ کے بارے میں پوچھا اور اس کو پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چند منٹ کی گفتگو کے بعد میرے جوش پر پانی پھر گیا۔ ایسا بلاگ لکھنے کا کیا فائدہ ہے جس میں آپ حقیقت سے کٹ گئے ہوں اور ویکسین کے خلاف لکھتے ہوں؟ اس بڑھاپے میں بھی انہوں نے کورونا کی ویکسین نہیں لگوائی۔ امریکہ میں کورونا کی وبا سے ہونے والی اموات ایک ملین سے تجاوز کرچکی ہیں۔ اس مسئلے کا علاج ایک ہی ہے کہ لوگ جو بھی کہہ رہے ہوں، آپ ان سے اس بارے میں مزید سوالات کریں۔ سوال سننے سے ان کو اپنی بات پر خود غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میڈیسن آدھی سائنس ہے اور آدھی آرٹ۔ کسی بیماری کے بارے میں ایک کتاب میں پڑھ لینا، اس بیماری کو ایک جیتے جاگتے انسان میں دیکھنے سے مختلف بات ہے۔ کتابی علاج بھی ہر مریض پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے۔

آج اپریل کی کلاس کے اسٹوڈنٹس کا آخری دن تھا۔ سب اسٹوڈنٹس نے اپنی پرسنل اسٹیٹمنٹ سنائی۔ ہر انسان کی کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس بھاگتی زندگی میں چند لمحے حالات پر غور کرنا ہمیں زندگی میں معنی تلاش کرنا سکھاتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے ایک ڈاکٹر اور ٹیچر بننے کا موقع ملا۔ ایڈمنسٹریشن سے کھینچ تان، انشورنس کمپنیوں سے بحث اور فارما انڈسٹری کے مسائل کے باوجود ہمارے ہاتھ میں زندگیاں بہتر بنانے کی طاقت ہے۔ اور امیزنگ اسپائڈر مین کے مطابق، ”عظیم طاقت ہونے کے ساتھ عظیم ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).