سزو مزو ڈرہ: سندھ میں پتھروں پر نقش نگاری کا قدیم مقام


سزو مزو یا سدو مدو ڈرہ کیرتھر پہاڑی سلسلے میں پتھروں پر نقش نگاری کا قدیم مقام ہے۔ ڈرہ بلوچی زبان میں ٹیلے یا چھوٹے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس مقام کے قریب قدرتی چشموں کے پانی کا گہرا چشمہ ہے جسے بھی سزو مزو کنب (چشمہ) کہتے ہیں۔ اس مقام کے نام کے سلسلے میں مقامی روایت ہے کہ یہ دو عورتوں کے نام سے منسوب ہے۔ اس مقام کے قریب چاکر گھٹ (گزرگاہ) ہے حو میر چاکر رند سے منسوب ہے۔ روایت کے مطابق بلوچستان پاکستان کے میر چاکر رند اور گہرام لاشاری کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی اس کا ایک معرکہ یہاں بھی ہوا تھا۔

یہاں جنگ کے دوران سزو مزو یا سدو مدو نامی دو عورتوں نے طے کیا تھا کہ اگر ان کے دشمن کی فتح ہوئی تو وہ دشمن کے ہاتھ لگنے سے پہلے پہاڑی سے چشمے میں کود کر خود کشی کر لیں گی۔ اصل میں فتح ان کے رشتداروں کی ہوئی مگر کسی نے انہیں بتایا کہ دشمن کی جیت ہوئی ہے تو دونوں نے پہاڑ سے چشمے میں کود کر خودکشی کر لی تب سے یہ پہاڑ اور چشمہ سزو مزو سے مشہور ہوا۔

اس روایت میں اس لئے صداقت نظر نہیں آتی کہ اس سلسلے میں کوئی تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس قبیلے کی صرف یہ دو عورتیں تھیں جنہوں نے خودکشی کی؟ ان کو دشمن کی جیت کا اپنوں نے بتایا یا دشمن کے کسی آدمی نے؟ یہ سوال بھی روایت کو مشکوک بناتا ہے۔

بہرحال پتھروں پر نقش نگاری کا یہ مقام بہت قدیم ہے۔ یہ مقام سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی کی سرحدوں میں کیرتھر پہاڑی سلسلے میں، واہی پاندھی شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں پہاڑوں کے اندر واقع ہے۔ یہ مقام قدیم زمانے میں سندھ کے مغربی ممالک سے قدیم خشکی یا زمینی تجارتی راستوں میں سے ایک راستے کے قریب تر ہے۔ یہاں سے تجارتی قافلے مصر اور یورپی ملکوں تک جاتے تھے۔ اب یہ راستے بلوچستان پاکستان تک محدود رہ گئے ہیں۔

سزو مزو یا سدو مدو ڈرہ کے قریب پہاڑ پر ہندومت، بدھ مت اور زرتشتی مذہبوں کی مذہبی علامتیں نقش ہیں۔ اس کے علاوہ پہاڑ پر انڈس اسکرپٹ کی علامتیں، قدیم پالی، قدیم برہمی کے حروف اور قدیم برہمی رسم الخط میں سنسکرت کی تحریروں کی نقش نگاری ملتی ہے۔ اس مقام اور نقش نگاری کے بارے میں میری انگریزی کتاب ’انڈس اسکرپٹ ان اسٹونز‘ میں تفصیل سے بحث موجود ہے۔ سنسکرت تحریروں کے پڑھنے کے لئے میں نے ایمیل کے ذریعے سنسکرت کے ماہر میچیئل وٹزیل (Michael Witzel) کو پلیٹیں بھیجیں۔ اس نے صرف یہ بتایا کہ یہ برہمی رسم الخط میں سنسکرت کی تحریریں ہیں جو لگ بھگ ساتویں صدی عیسوی کی ہیں۔ یہاں قدیم برہمی رسم الخط میں سنسکرت کی تین الگ تحریریں نقش ہیں۔ انڈس اسکرپٹ کی علامتیں اور کچھ برہمی حروف شاہی گھوڑے اور ڈانسنگ عورت کی تصویر کے قریب نقش ہیں۔

اس مقام پر پتھروں پر شاہی گھوڑے، سواستیکا، بیلوں، تیر کمان سے شکار کرتے آدمی، خرگوشوں، گھوڑے سواروں، گدھوں، یونیکورن (Unicorn) سواروں، کتوں اور دوسرے جانوروں کی تصویریں نقش کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں زرتشتی مذہب کا آتشکدہ (Temple of Fire) ، بدھ مت کے اسٹوپا (Stupa) اور موہنجو دڑو سے ملنے والی ڈانسنگ گرل سے مماثلت رکھنے والی ناچتی عورت بھی نقش ہے۔ یہاں سمجھ میں نہ آنے والی بہت سی علامتوں کی نقش نگاری موجود ہے جو اب بھی سمجھنے کی منتظر ہیں۔

پہاڑ کا نیچے والا حصہ شاید زلزلوں کی زد میں آ کر ٹوٹ گیا ہے اور نایاب نقش نگاری غائب ہو گئی ہے۔ جہاں تک اس مقام پر نقش نگاری کی قدامت کا سوال ہے تو اس سلسلے میں قیاس قرین ہے کہ یہاں پہاڑ پر نقش نگاری کانسی کے زمانے (Bronze Age) اور لوہے کے زمانے (Iron Age) سے لے کر وسطی دور (Medieval Period) تک کی گئی ہوگی۔ یہ مقام گورکھ ہل اسٹیشن کی طرف جانے والے راستے کے قریب مغرب میں ہے۔ اگر سزو مزو ڈرہ کے مقام تک راستہ بنایا جائے تو گورکھ ہل اسٹیشن جانے والے سیاح یہ قدیم مقام گھوم کر بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments