روداد سفر حصہ 19


ٹرین کا سفر بس کے سفر سے زیادہ طویل اور تھکا دینے والا تھا۔ ٹرین میں سفر کے لیے بس میں تین گھنٹے گاؤں سے لان زو ( Lanzhou ) شہر، وہاں چار پانچ گھنٹے کا قیام، پھر وہاں سے شنگھائی چھبیس گھنٹے کا سفر اور پھر ساڑھے چار گھنٹے میں ایوو شہر۔ لیکن ایک بات ہے ٹرین کا سفر دلچسپ رہا کہ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہی۔ ٹرین چلی تو کچھ ہی دیر میں ٹرین ہوسٹس نے آ کر ٹکٹ لے لیا اور سیٹ نمبر اور برتھ نمبر کا کارڈ دے دیا۔

ٹرین ہوسٹس ٹکٹ اپنے پاس رکھ لیتی ہیں، اس طرح معلوم ہوتا ہے کس مسافر نے کس سٹیشن پر اترنا ہے۔ مسافر کے اسٹیشن قریب آنے پر اسے ٹکٹ دے کر کارڈ واپس لے لیتی ہیں۔ اس طرح مسافر مطلوبہ اسٹیشن آنے سے پہلے ہی اترنے کی تیاری کر لیتے ہیں۔ یہی ٹرین ہوسٹس واش روم اور سیٹوں کے درمیان راہداری کی صفائی بھی وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرین کے اندر سیکورٹی والے بھی چکر لگاتے ہیں اور لوگوں کے آئی ڈی کارڈ چیک کرتے ہیں۔ ان کے پاس سکینگ ڈیوائس ہوتی ہے، جس سے آئی ڈی کارڈ کی انٹری ہو جاتی ہے۔

رات کے وقت تقریباً ًسبھی مسافر سو گئے، اس لیے صرف پاس بیٹھے لوگوں سے ہی علیک سلیک ہوئی۔ صبح کے وقت دائیں بائیں مسافر بھی باری باری میرے قریب آتے اور اپنی معلومات جھاڑنے کی کوشش کرتے کہ مسلمان ایسے ایسے ہیں اور پاکستان ایسا اور ویسا ہے۔ بہرحال ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی جو کسی دور میں کراچی میں مزدوری کرتے رہے تھے۔ وہ مجھ سے مل کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگ بہت اچھے ہیں اور وہاں مفت میں کھانا بھی مل جاتا تھا۔

میرے سامنے کی سیٹ پر ایک کاروباری شخص اور اس کے ساتھ ایک فوجی بیٹھا تھا۔ وہ شخص یہ کہہ رہا تھا کہ اب چائنا میں ایسے ہی ایک پارٹی کی حکومت نہیں چل سکتی، ہمیں ضرور حقیقی جمہوریت کی طرف جانا چاہیے کیونکہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے۔ فوجی نے کہا کہ یہ بات کم ازکم میری زندگی میں ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہاں چائنا میں میرے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کوئی سیاسی گفتگو سنی، جس سے اندازہ ہوا کہ اس قوم میں بھی سیاسی شعور رکھنے والے کچھ لوگ موجود ہیں۔

وگرنہ حکومت کا دباؤ اور خوف کلچرل ریولوشن ( cultural Revolution ) کے بعد اتنا شدید ہے کہ اس موضوع پر کوئی بھی اپنی دلچسپی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ یہاں کی کمیونسٹ حکومت کے کسی عمل پر تنقید بغاوت کہلاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں ایک محکمہ تنقید سے بالا تر سمجھا جاتا ہے اور اس محکمے جسے سارے ادارے کہہ رہے ہوتے ہیں، کے خلاف بات کرنے والوں سے یہود و ہنود کی سازشوں کی بو آنے لگتی ہے۔ تائیوان جو کبھی چائنا کا حصہ تھا، وہاں آج کل جمہوریت ہے۔ وہاں ہم نے الیکشن ہوتے دیکھے تھے اور وہاں کی حکومت پر کھلی تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ تائیوان کے چائنیز اس چائنا کے باشندوں کی نسبت زیادہ باشعور قوم ہیں۔ وہ لوگ اس چائنا کو اپنا حصہ سمجھتے اور یہ چائنا تائیوان کو اپنا حصہ مانتے ہیں۔

اللہ اللہ کر کے ایوو ریلوے اسٹیشن پہنچا، باہر نکلتے وقت سیکورٹی افسر نے سب چائنیز کا آئی ڈی کارڈ چیک کیا اور اپنے پاس موجود ایک ڈیوائس سے اسے سکین کیا۔ اس طرح سرکاری ریکارڈ میں مسافر کی انٹری اس شہر میں خودکار نظام کے تحت ہو جاتی ہے جہاں وہ موجود ہوتا ہے۔

رات کو بہت دیر سے اپنے آشیانہ پر پہنچا، پہنچتے ہی نہا دھو کر کپڑے بدلے اور سو گیا۔ اگلے دن صبح اٹھ کا انڈے بنائے اور کپڑے دھونے میں مصروف ہو گیا۔ پھر گھر کی صفائی کی اور فریج صاف کر کے اسے بھرنے کے لیے سبزی منڈی کی طرف نکل گیا۔

ایوو میں بہت بڑی اور صاف ستھری سبزی منڈی ہے۔ یہاں منڈی میں ایک طرف سبزیاں اور دوسری طرف ( sea food ) ملتا ہے جہاں دکاندار نے ایک پانی کی ڈگی بنائی ہوتی ہے، جس میں زندہ مچھلیاں موجود ہوتی ہیں۔ گاہک اپنی پسند کے مطابق زندہ خرید سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جھینگے بھی زندہ ملتے ہیں۔ صرف سمندری مچھلی فریز ہوئی ملتی ہے۔ سبزیوں میں ایسی ایسی سبزیاں جو پاکستان میں کم ہی کبھی دیکھی ہوں گی۔ الگ الگ ڈھیریاں لگی ہوتی ہیں شاپر اٹھائیں اور اپنی پسند کی سبزی ڈالیں اور تول کر رقم ادا کریں۔

سب سے اہم مشروم ہوتے ہیں جن کی کئی اقسام موجود ہوتی ہیں اور دوسری لمبی چائنیز بند گوبھی، کنول کی جڑ، بانس کی کونپلیں، بروکلی اور کئی طرح کی عجیب سبزیاں وہاں دستیاب ہوتی ہیں۔ وہاں ایک طرف گوشت کی مارکیٹ ہے، غیر مسلموں کی گوشت مارکیٹ الگ ہے جہاں سے ایسی بو ہوتی ہے کہ وہ لوگ خود بھی ناک پر ہاتھ رکھ کر گزرتے ہیں۔ وہاں سور کا گوشت عام ملتا ہے لیکن سامنے دیکھنے سے ہی پہنچانا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی گوشت کی الگ دکانیں ہیں۔

گائے کا گوشت بغیر ہڈی کے ملتا ہے اور بکری کا گوشت ہڈی والا۔ مرغی زندہ بھی ملتی ہے اور ذبح کی ہوئی بھی۔ پکانے کے لیے بہت کچھ گھر لے آیا۔ کچالو پکائے اور دن رات کا کھانا اکٹھا کھایا اور سو گیا۔ اگلے دن مارکیٹ کے لیے نکلا، کام ختم کر کے گھر آیا اور اپنے یمنی دوست نجیب کو کال کی اور اسے گھر آنے کی دعوت دی، اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا، گپ شپ لگائی اور سو گیا۔

صبح چار بجے کے قریب داخلی دروازے پر دستک ہوئی تو میری آنکھ کھل گئی، دروازہ کھولا تو بیگم صاحبہ سامنے موجود تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی تفتیشی انداز میں گھر کی مختلف چیزوں کو دیکھنا شروع کیا کہ شاید کوئی مشکوک چیز سامنے آ جائے۔ مجھ سے بھی سوال جواب کیے، جیسے کسی کھوج میں ہو لیکن میری خوش قسمتی کہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مجھے پہلی بار اس قدر تعجب ہوا کہ بار بار آئینے کی طرف نظر اٹھتی، تا کہ جان سکوں کہ مجھ میں ایسی کیا خوبی ہے کہ مجھ پر بھی کوئی شک کر سکتا ہے۔ بہرحال میرے اس تعجب میں خوشی کے تاثرات بھی شامل تھے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خاکستر میں ابھی کوئی چنگاری باقی ہے، جسے میں تو محسوس نہ کر سکا لیکن میرے رازدان نے بھانپ لیا۔

اس خوش فہمی کے دل میں آتے ہی، خیال ہوا کہ چنگاری کی تلاش کے لیے کیوں نہ اس خاکستر کو ٹٹولا جائے۔ یہ خیال آتے ہی چند لمحوں کے لیے دیدوں سے پابندی ہٹا دی اور انہیں آوارگی کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ پہلی آزمائش کے دوران ہی مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ جذب و طلب کے ان پوشیدہ ارمانوں اور رد و قبول کی تمام تر کشمکش میں، میں در غیر میں اپنے لیے تالیف کا کچھ سامان نہ کر سکوں گا۔ شاید یہ چنگاری خود ہی خود میں جلنا اور خاکستر میں ہی رہنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظر اٹھی بھی تو بہکنے سے پہلے ہی سرنگوں ہو گئی۔

میری بیٹی حنا مجھ سے بہت اٹیچ تھی اور ہر وقت میرے ساتھ ہی چمٹی رہتی۔ اس حد تک مجھ سے مانوس تھی کہ کہ میری بیگم کو کہنا پڑتا کہ یہاں میں بھی ہوں۔ رات کو خاص طور پر مجھ سے لپٹ کر سوتی اور مجھے کہتی کہ وہ ”اللھم باسمک اموت واحیا“ والی دعا مجھے پڑھاؤ۔ نماز پڑھنے کے لیے میں اپنی کالونی ہی کی ایک مسجد میں جاتا تو وہ بھی میرے ساتھ جاتی اور سجدے کے دوران اکثر میری کمر پر چڑھ جاتی۔ اس کے پہننے کے لیے میں فراک ہاتھ کی کڑھائی کروا کر پاکستان سے لے کر جاتا تھا اور وہ بہت شوق سے پہنتی تھی۔

میری بیگم کی ساری سہیلیاں اسے بہت شوق سے ملنے آتی اور اس کی بہت تعریف کرتی تھیں۔ ان سہیلیوں میں جب بھی کوئی نو مسلم آتی تو وہ میری بیگم کے لیے خوشی ہی خوشی لاتیں۔ کیونکہ یہ اس کے اپنے راستے کی حقیقی ساتھی تھیں اور انہی سے وہ سب اعتراضات اور مشکلات ڈسکس کر سکتی تھی۔ جب بھی کوئی نسلی مسلمان آتیں تو وہ عجیب محسوس کرتی اور اس طرح کی عورتیں ہمارے گھر دو تین مرتبہ ہی آتیں پھر نہیں آتیں۔ شاید وہ میری بیگم کے رویے سے سمجھ جاتی ہوں گی۔

یہ نسلی مسلمان عادت سے مجبور ہو کر میری بیگم کے سامنے اپنی قابلیت بھی جھاڑ دیتی تھیں۔ کوئی نہ کوئی ایسی روایت بھی ضرور سنا دیتیں جو میرے لیے مشکل پیدا کر دیتی تھیں کہ اس کی کیسے تاویل کی جائے۔ مثال کے طور پر عورتوں کے بال بنانے سنوارنے پر بہت ہی سخت قسم کی وعید۔ عجیب صورت حال کر دیتیں کہ ہمارے پروردگار کو عورت کے بال سنوارنے سے آخر اتنی نفرت کیوں ہے۔ درآں حالانکہ یہ فطرت بھی تو اسی خدا کی بنائی ہوئی ہے جس کے تحت عورت اپنا بناؤ سنگار کرتی اور خود کو خوبصورت دیکھنا چاہتی ہے۔

ایک مرتبہ انہی مسلمان عورتوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ہمارے گھر میں مہندی داخل ہو گئی۔ اور کہا کہ گیا کہ یہ مہندی مسلمان عورتوں کے لیے خاص ہے اس سے کسی مسلمان عورت یا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پھر کبھی کبھی ہمارے گھر میں مہندی لگانے کی محفل لگ جاتی۔ یعنی میری بیوی کی کوئی سہیلی مہندی لے کر آ جاتی اور سب مسلمان عورتیں ایک دوسری کو نقش و نگار کی فنکارانہ صلاحیتیں دکھانا شروع کر دیتیں۔ اسی طرح ایک دن سرمہ بھی داخل ہو گیا۔

میں رات گھر واپس آیا تو بیگم کی آنکھیں سرمے سے لدی دیکھ کر حیران ہو گیا۔ میں ابھی محو حیرت ہی تھا کہ بیگم نے خود ہی ہنستے ہوئے کہا کہ کیا میں چڑیل لگ رہی ہوں۔ اس بات کی تائید کر کے خود کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا، اس لیے صرف یہی کہ سکا کہ سرمہ اچھا لگ رہا ہے۔ سرمہ اور مہندی کیوں حلال ہیں اور وہ مسکارہ قابل نفرت کیوں یہ مجھے بھی معلوم نہ ہو سکا۔ ایک دن جمعہ کی نماز پڑھ کر میں اور میری بیگم مسجد سے باہر نکلے تو ایک صاحب زمین پر کپڑا بچھا کر مسلم اشیاء بیچ رہے تھے۔

ان میں دانت صاف کرنے کی ایک مسلم مسواک بھی پیک ہوئی پڑی تھی وہ بھی میری بیگم نے مسلم مسواک سمجھ کر خرید لی۔ یعنی لوازمات مسلمانی دھیرے دھیرے پورے ہوتے چلے گئے۔ میں پریشان رہا کہ اگر کسی دن میری بیگم نے ان سب چیزوں کا تنقیدی نظروں سے جائزہ لیا تو میں کیا بتاؤں گا کہ یہ چیزیں کب مسلمان ہوئی تھیں۔ اس وقت تک میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ ایسی ہی روایات کی طرف سے تھا۔ یہ معلوم ہے کہ یہ روایات ایک ایک دو دو فقروں میں بیان کی جاتیں ہیں اور بالعموم جس پس منظر میں بات کہی گئی ہوتی ہے وہ پس منظر ان روایات کا حصہ نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ روایات اس وقت کے حالات، عربوں کے کلچر، اور ان محافل کی تفصیل ہی بیان کرتی ہیں جن میں یہ بیان کی گئی ہوتی ہیں۔

وقت تیزی سے گزرتا ہے اور اس کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ یہ بچے کبھی بڑے نہ ہوں اور ہم ان سے ایسے ہی کھیلتے رہیں۔ یہ ایسے ہی ہم سے اپنی معصوم سی فرمائشیں کرتے رہیں اور ہم دوڑ دوڑ کر ان کی وہ فرمائشیں پوری کرتے رہیں۔ یہ ایسے ہی ہمارے ساتھ ضد کریں اور ہم ان کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک کر ہار مان لیا کریں۔ کسی بھی شخص کی زندگی میں اس کے بچوں کا بچپن ہی سب سے پیارا اور پیار بھرا وقت ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت کی یادیں ساری زندگی ہمارے ساتھ رہتی اور چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتی رہتی ہیں۔ یہ خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت کہ شاید ہم اپنے بچوں کے بچپن میں ہی دوبارہ اپنا بچپن دیکھتے اور انجوائے کرتے ہیں۔ یہی فرشتے ہیں جو خدا اپنی رحمت سے انسان کو عنایت کرتا ہے۔

ای نہر وگدی وچھوڑیاں دی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments