پاکستانی سیاست کا المیہ


دنیا میں کسی بھی علم۔ سائنس، فلسفہ، مذہب، ادبیات، اقتصادیات، تعمیرات اور سیاسیات وغیرہ کو صحیح معنوں میں پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ان کے تہذیبی پس منظر اور اصطلاحات سے واقفیت ازحد ضروری ہے، ورنہ علم پر طالب علم کا گرفت کمزور، ناقص اور سطحی ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، علمی اصطلاحات دریا کو کوزے میں بند کرنے کا کام ہے۔ سیاست سے شغف رکھنے کی وجہ سے روز سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے طفیل مختلف سیاسی اصطلاحات دیکھنے، پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ ان سیاسی اصطلاحات میں زیادہ تر عالمی طور پر تشکیل شدہ ہیں، مثلاً آمریت، جمہوریت، شہنشائیت، اشتراکیت، مطلق العنانیت اور فسطائیت وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ سیاسی اصطلاحات ایسی بھی ہیں جو کسی ملک یا مخصوص خطے کی سیاست اور سماجی رویوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

گیٹ نمبر چار بھی ایک سیاسی اصطلاح ہے جو روز ہم سیاست دانوں سے ٹی وی ٹاک شوز یا پریس کانفرنسوں میں عموماً سنتے رہتے ہیں۔ گیٹ نمبر چار کی اصطلاح عسکری ذہنیت یا فوج کی سیاست میں مداخلت کا استعارہ ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ المیہ قائد ملت لیاقت علی خان کی 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت باغ میں شہادت تک جاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو عدالتی فیصلے کے ذریعے پھانسی گھاٹ اتارا گیا۔ بد عنوانی کے نام پر نواز شریف اور بینظیربھٹو کے تخت کا تختہ کر دیا گیا۔ بعد ازاں جنرل پرویز مشرف نے اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کی خاطر دونوں کو جلا وطن کر دیا۔ آج تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری ہے۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں فوجی حکمران بلا واسطہ تیس سال سے زیادہ اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ اور بالواسطہ مختلف سیاسی مہروں کے ذریعے اقتدار پر قابض چلے آ رہے ہیں۔

شومئی قسمت سے پاکستان میں تمام ادارے شروع دن سے اپنی آئینی حدود پامال کرتے رہے ہیں، لیکن دیگر اداروں کی نسبت ایک ادارے میں مستقل مزاجی کچھ زیادہ دیکھنے کو ملی ہے۔ جسے یونانی مفکر افلاطون مسلسل بے انصافی سے تعبیر کرتے ہیں۔ افلاطون اپنی کتاب ”الجمہوریہ“ میں انصاف اور بے انصافی کے درمیان حد فاصل مقرر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”ریاست کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات اور فرائض کو بخوبی نبھانا انصاف جب کہ دوسروں کے آئینی اختیارات اور فرائض میں مداخلت بے انصافی ہے“

راقم الحروف کی نظر میں جو کثیر الجہتی اور ناقابل تلافی نقصان اس مداخلت نے ملک کو پہنچایا ہے اتنا نقصان نیوکلیئر اثاثے رکھنے والے پڑوسی دشمن ملک بھارت نے بھی نہیں پہنچایا ہو گا۔

نمبر ( 1 ) : سیاست برائے ذاتی کاروبار

سیاست عام طور پر عوامی تائید سے خدمت خلق کے لیے کی جاتی ہے اور عموماً سیاست دانوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے، لیکن اس کے بر عکس غیر سیاسی مداخلت  نے عوامی سیاست کے دروازے عام لوگوں پر ہمیشہ کے لیے بند کر دیے ہیں۔ سیاسی افق پر سماجی کارکنوں کے بجائے فصلی بٹیروں اور اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کی بھرمار ہے۔ ان مہروں نے سیاست کو عبادت کے بجائے ذاتی کاروبار سمجھا ہے، مفاد عامہ کے بجائے اپنے اہل و عیال کے لیے لوٹ مار اور عوام کے بجائے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کو ترجیح دی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملکی خزانے کے بجائے شخصی اثاثوں نے دن دونی رات چوگنی ترقی کرلی ہے۔

نمبر ( 2 ) : جمہوری عدم استحکام

ہمارے ملک کے زیادہ تر قانون ساز کسی مخصوص نظریے پر کاربند ہونے کے بجائے ہواؤں کے رخ کو دیکھتے ہوئے وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ آج تک کوئی ایک منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ رتی بھر اختلاف پر وزیر اعظم کو بے دخل کر دیا جاتا ہے جس سے جمہوری تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ جمہوری عدم استحکام کا بلا واسطہ تعلق معاشی دیوالیہ پن سے ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی معیشت چلنے پھرنے کے بجائے اکثر امریکہ اور آئی ایم ایف کے وینٹیلیٹر پر ہوتی ہے یا ہمسایہ ملک چین کی انتہائی نگہداشت وارڈ (ICU) میں جان بلب رہتی ہے۔

نمبر ( 3 ) : عوامی قیادت کا فقدان

مسلسل غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی وجہ سے سیاست میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں، طلبہ، سماجی کارکنان، اور بالخصوص شریف اور عزت دار لوگوں کی دلچسپی کم ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں ایوان اقتدار کی راہداریوں تک نوابوں، سرداروں، جاگیر داروں، قبضہ مافیا، چوروں، لٹیروں، قاتلوں، اور منشیات فروشوں کی رسائی آسان ہو گئی ہے۔ جب اس طرح کے لوگ عوام کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں تو عوام ہمیشہ کے لیے حقیقی اور عوامی نمائندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔

نمبر ( 4 ) : موروثیت کا فروغ

عوامی نمائندگی کے فقدان کی وجہ سے اقتدار کی منتقلی کی چابیاں تقریباً تین نسلوں سے عوام کے بجائے چند سیاسی خاندانوں کے قبضے میں رہی ہیں جو عوام پر من پسند حکمرانی کرتے آرہے ہیں اور عوام کئی دہائیوں سے غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس طرح کے مضبوط غلامانہ ماحول میں باشعور اور آزاد اذہان کی نشوونما نہیں ہو پاتی۔

نمبر ( 5 ) : پارلیمانی برتری اور آئینی بالادستی خطرے میں

پارلیمنٹ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ غیر جمہوری سوچ کی حامل جماعتیں اور افراد اس ادارے کو بے وقعت کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً صدارتی آرڈیننس پاس کراتے رہتے ہیں۔ من پسند فیصلے صادر کرنے کے لیے فرد واحد کی سوچ کو اجتماع پر مسلط کیا جاتا ہے۔ آئین کسی قوم یا ملک کا باضابطہ راہنما قانون ہوتا ہے، مگر بد قسمتی سے ایک مخصوص ٹولہ اس تحریری دستاویز کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پارلیمانی برتری اور آئینی بالادستی پیوند خاک ہوجاتی ہے۔

نمبر ( 6 ) : بین الاداراتی تصادم

سیاسی تبدیلی دراصل عوام کی ذمہ داری ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اختیارات کو بعض قانون نافذ کرنے اور احتساب کرنے والے اداروں نے اپنی بقا کے لیے خطرناک سمجھا ہے۔ جوڈیشل ایکٹیو ازم، نیب کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ اور FIA وغیرہ جیسے دیگر قومی اداروں کی سیاست اور سیاسی امور میں حد سے زیادہ دل چسپی بھی مداخلت کی مذموم کوشش ہے۔

نمبر ( 7 ) : زرد صحافتی وبا

صحافت ایک عوام دوست اور باوقار لوگوں کا پیشہ ہے۔ غیر جانب داری اور سچ اس پیشے کے بنیادی ستون ہیں۔ بد قسمتی سے میڈیا سچ کے بجائے طاقت کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر میڈیا چینل کسی نہ کسی طاقتور کی لونڈی ہے۔ حق اور باطل کی تمیز کرنا بہت دشوار ہو گیا ہے۔ ہمارا ملک اس وقت زرد صحافتی وبا کی لپیٹ میں ہے۔ اداروں اور افراد پر تعمیری تنقید وبال جان بن جاتی ہے۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments