کیا فوری انتخابات ممکن ہو سکیں گے؟


کچھ ماہ قبل کل کی حزب اختلاف اور آج کی حکومت کا بنیادی نقطہ ملک میں فوری منصفانہ اور شفاف انتخابات تھا اور ان کے بقول عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہی ملکی مسائل کے حل کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس وقت کی تحریک انصاف کی حکومت کا موقف تھا فوری انتخابات ممکن نہیں اور انتخابات 2023 سے قبل ممکن ہی نہیں۔ یہ دو بیانیہ کے درمیان اس وقت کی حکومت اور حزب اختلاف کی سیاست عملی طور پر ملکی سیاست پر غالب تھی۔

لیکن اب دونوں سیاسی فریقین کے درمیان سیاسی یوٹرن کی کہانی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد عمران خان کی مزاحمتی تحریک کا بنیادی نقطہ ”فوری نئے انتخابات“ کا مطالبہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس کل کی حزب اختلاف اور آج کی مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کے بقول فوری انتخابات ممکن نہیں اور یہ انتخابات پانچ برس کی مدت کے خاتمہ کے بعد مقررہ شیڈول کے مطابق ہی ہوں گے ۔

ایک عمومی خیال یہ ہی تھا کہ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی یا خاتمہ کے بعد سیاسی بحران افہام و تفہیم کی سیاست کی جانب بڑھے گا اور عمران خان کوئی بڑی سیاسی مزاحمت پیدا نہیں کرسکیں گے۔ لیکن عمران خان نے اقتدار سے باہر نکل کر جو بڑی سیاسی پذیرائی یا عوامی طاقت کی بنیاد پر جو بڑے سیاسی جلسوں میں اپنی سیاسی طاقت شو کی ہے وہ بہت سے حلقوں کے لیے حیران کن ہے۔ عمران خان چند ماہ قبل تک اپنی حکمرانی کی وجہ سے سخت تنقید میں تھے اور ان کے حامی بھی ان کی کارکردگی کو چیلنج کرتے تھے۔

لیکن جو اقتدار سے رخصتی کے لیے عمران خان حکومت کے خاتمہ کا جن کرداروں نے سیاسی اسکرپٹ لکھا اور جس انداز سے اس کی تعمیل کی گئی اس نے عمران خان کی اہمیت یا ان کے خلاف عالمی سازش کے بیانیہ کو زیادہ طاقت دے دی ہے۔ عمران خان کی تحریک کا بنیادی نقطہ فوری انتخابات کا مطالبہ ہے مگر کیا وہ اس نقطہ کو طاقت کے اہم مراکز میں منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور کیا ان کے سیاسی مطالبہ کو سیاسی پذیرائی مل جائے گی اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

یہ دیکھنا ہو گا کہ عمران خان کس حد تک اپنا سیاسی دباؤ یا عوامی مزاحمت کو بنیاد بنا کر نئی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ پر دباؤ بڑھانے میں کامیابی حاصل کرسکیں گے؟ کیونکہ اگر فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم کیا جاتا ہے تو اس کا ایک اہم نقطہ عوامی مزاحمت ہی ہوگی جو یقینی طور پر طاقت کے مراکز کو دباؤ میں لا سکتی ہے۔

عمران خان کے پاس اس وقت تین سیاسی کارڈ ہیں۔ اول وہ عوامی طاقت کو بنیاد بنا کر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ پر سیاسی دباؤ بڑھائے کہ وہ اس حکومت کے مقابلے میں جلد نئی نگران حکومت اور نئے انتخابات کے ماحول کو پیدا کرے۔ دوئم وہ نئے انتخابات کے مطالبہ میں شدت پیدا کرنے کے لیے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا سیاسی کارڈ کھیل کر ایک بڑے سیاسی بحران کو پیدا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس بڑے پیمانے پر نئی حکومت کے لیے ضمنی انتخابات کرانا اتنا آسان کام نہیں ہو گا۔

سوئم ان کے پاس ایک خطرناک کارڈ اپنی حکومت کے خاتمہ میں عالمی سازش اور کچھ پاکستانی کرداروں کا ہے اور حالیہ ان کی سیاسی مقبولیت یا عوامی پذیرائی بھی اس کارڈ کا نتیجہ ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کو اقتدار سے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت نکالا گیا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عمران خان حکومت کے خاتمہ کا سیاسی اسکرپٹ جس نے بھی لکھا ان کو فوری طور پر وہ نتائج نہیں مل سکے جو وہ سمجھ رہے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی بحران کم نہیں بلکہ بڑھا ہے اور اس نے عملاً فیصلہ ساز قوتوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔

نئے انتخابات کی اس بحث میں ایک بڑا نقطہ موجودہ نئی سیاسی مخلوط حکومت کی اپنی کارکردگی بھی ہوگی۔ کیونکہ اس وقت جو حکمرانی اور معیشت سمیت مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری اور گورننس کے مسائل ہیں ان سے نئی حکومت کیسے نمٹتی ہے اور کیسے یہ عوامی سطح پر اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرتی ہے خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ تمام جماعتوں پر مشتمل نئی حکومت کا مل کر چلنا اور حکومت کرنا خود ان جماعتوں کی اپنی سیاست کے لیے بڑا چیلنج ہو گا۔

اس نئی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا سارا سیاسی بوجھ بھی مسلم لیگ نون کو ہونا ہے اور ان کو ہی اس محاذ پر عوامی تنقید یا ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب سیاسی محاذ پر مسئلہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کا نہیں بلکہ نئی مسلم لیگ نون کی حکومت کا ہو گا اور ان کو ہی ہر محاذ پر اپنی کارکردگی کے تناظر میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اب فوری انتخابات عمران خان کا مطالبہ اور 2023 میں انتخابات آج کی حکومت کا نعرہ بن چکا ہے۔ لیکن قومی سیاست سے جڑے بیشتر سیاسی پنڈتوں کے بقول جو ملکی سیاسی بحران ہے وہ حکومت کی تبدیلی اور نئی حکومت کی تشکیل کے باوجود سیاسی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ان کے بقول جو حالات بن رہے ہیں ان سے حالات کی سیاسی کشیدگی میں نئے فوری انتخابات ناگزیر ہو گئے ہیں۔ اگرچہ آج کی حکومت میں شامل بہت سی جماعتوں میں موجود انفرادی افراد بھی نئے فوری انتخابات کو ہی مسئلہ کا حل قرار دے رہے تھے مگر جو نئی سیاسی صورتحال بن رہی ہے ان کو بھی لگتا ہے کہ نئے فوری انتخابات آج کی حکومت اور اس میں شامل جماعتوں کے مفاد میں نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حکمت عملی میں اب فوری انتخابات شامل نہیں۔ جبکہ اس کے برعکس عمران خان اسلام آباد میں ایک بڑے سیاسی دھرنے کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں اور ان کے بقول یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نئے انتخابات کا اعلان نہیں ہو گا۔

یہ ہی وجہ کہ عمران خان نے ایک بڑا واضح پیغام فیصلہ ساز قوتوں کو دیا ہے اور ان کے بقول جن سے بھی جہاں اور جیسے غلطی ہوئی ہے اس کا ایک ہی ازالہ ہے اور وہ نئے انتخابات ہیں۔ ان کے بقول وہ کسی بھی سطح پر اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے اور ان کے بقول اس بحران کا حل ہی نیا سیاسی مینڈیٹ ہے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا عمران خان سمجھ رہے ہیں کیونکہ طاقت کے مراکز میں مختلف آپشنز کی بنیاد پر فیصلہ سازی کا عمل ہوتا ہے۔

دیکھنا یہ ہو گا کہ عمران خان کی مزاحمت کی تحریک کتنا اثر دکھاتی ہے اور کس حد تک یا کتنے لمبے عرصہ تک وہ اپنی اس مزاحمت کے ماڈل کو قائم رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عمران خان کے مقابلے میں نئی حکومت کی سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی اور وہ کیسے عمران خان کی مزاحمت کے مقابلے میں اپنے کارڈ کھیل کر اس مزاحمت کو کمزور کرتی ہے۔ اگر اس عمران خان کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کا فائدہ حکومت کو کم اور عمران خان کو زیادہ ہو گا۔

اس لیے یہ حکومت کی بھی مشکل ہوگی کہ وہ عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاست اور طاقت کے درمیان کیسے توازن قائم کرے۔ اس وقت نئے انتخابات کا نعرہ کی عملی طور پر ایک ہی مضبوط آواز تحریک انصاف کی ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہیں یا نہیں فوری انتخابات ان کا بڑا مطالبہ کسی صورت میں نہیں ہو گا۔

فوری طور پر نئے انتخابات کا راستہ یا فیصلہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ کیونکہ فی الحال سیاسی منظرنامہ میں ایسا ہی لگتا ہے کہ فوری انتخابات کا سیاسی فائدہ تحریک انصاف کو ہی ہو گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین اتنی آسانی سے عمران خان کے مطالبہ پر خود کو سرنڈر نہیں کریں گے۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ عمران خان کے خلاف ان کو مختلف مقدمات میں الجھایا جائے اور ان کی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے جو بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی اقدامات کرنا پڑیں وہ کیا جائے گا۔

اسی طرح حکومت کی کوشش ہوگی کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ میں جو دوریاں پیدا ہوئی ہیں ان کو اور زیادہ بڑھایا جائے اور خود کو ہی ایک بڑے متبادل کے طور پر فیصلہ ساز قوتوں میں برقرار رکھا جائے۔ نئے انتخابات کی صورت میں ایک مشکل الیکشن کمیشن بھی ہے۔ اس کمیشن کے بقول نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے پیش نظر فوری انتخابات ممکن نہیں اور یہ انتخابات مئی 2023 سے قبل ممکن نہیں ہوں گے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف میں بھی ٹکراؤ کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments