سیاسی ضابطہ اخلاق وقت کی اہم ضرورت


سیاست میں روایات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اچھی روایات فروغ پائیں گی تو تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا پھل ملے گا، بری روایات فروغ پائیں گی تو ایک کے بعد دوسری جماعت ان غلط روایات کی بھینٹ چڑھتی جائے گی۔ آج کی برسر اقتدار سیاسی جماعت جس غلط روایت کو فروغ دے گی کل وہ خود اس کا شکار ہو جائے گی۔ جیسے گزشتہ برسر اقتدار جماعت کی قائم کردہ غلط روایات اس کے اپنے گلے پڑ رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر نئی آنے والی حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ بھول جاتی ہے کہ کل ان کی باری آ سکتی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ کئی دفعہ ان تجربات سے گزرنے کے باوجود آج بھی یہی عمل اسی طرح ہی جاری و ساری ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ انتقامی کارروائیوں، بہتان تراشیوں، جعلی مقدمات، مذہبی جذبات کو ابھارنا، گالم گلوچ اور ہلڑ بازی وغیرہ جیسی غلط روایات کی حوصلہ شکنی کریں ورنہ یہ کل کو آپ کے اپنے گلے پڑ سکتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے سیاسی جماعتیں بلوغلت اور عقلمندی کا مظاہرہ کریں۔ ورنہ سب کی یوں ہی تذلیل ہوتی رہے گی۔ گالیاں دو گے، گالیاں کھاؤ گے، جعلی مقدمات بناؤ گے جعلی مقدمات بھگتو گے، دوسروں پر تشدد کرو گے تو خود بھی تشدد کا سامنا کرو گے، بہتان لگاؤ گے تو بہتان پاؤ گے۔

یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے یہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ اس طرح نہ تو معاشرے ترقی کرتے، ہیں، نہ معاشرے مہذب کہلاتے ہیں اور نہ ہی اس سے معاشروں میں کوئی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل کر سیاسی ضابطہ اخلاق بنائیں اور مذکورہ غلط روایات کا خاتمہ کریں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو ہم خیال جماعتیں بھی آپس میں ایسا سیاسی ضابطہ اخلاق بنا سکتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے پانی سر کے اوپر سے نہیں گزرا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قائم کردہ غلط روایات نے ان جماعتوں کے کارکنوں کے ذہنوں کو بھی زہر آلود کر دیا ہے۔ یہ عمل نہیں رکا تو ہر سیاسی جماعت کا کارکن بد مزاج، بد اخلاق، بد تہذیب، انتہاء پسند اور تشدد پسند بن جائے گا جس کا انجام خانہ جنگی کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔

سیاسی جماعتوں کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ غلط روایات کو فروغ دے رہی ہیں جس کا انجام تباہی ہی تباہی ہے۔ اس وقت وہ جماعتیں برسر اقتدار ہیں جو ان تمام تجربات سے گزر چکی ہیں۔ آج بھی اگر نوے کی دہائی کی طرز سیاست کو اگر فروغ دینا ہے تو پھر ان سارے تجربات اور سیاسی جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی قدرے بہتر روایات کی حامی رہی وہ بھی اس اتحاد کا حصہ جو ان دنوں برسر اقتدار ہے۔

اس لئے آج اس بات کی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں کم از کم چند ایک چیدہ چیدہ نقاط پر مبنی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کر لیں۔ جن میں یہ باتیں شامل ہو سکتی ہیں کہ وہ آئندہ پبلک مقامات پر ہلڑ بازی، گالم گلوچ، تشدد، سیاسی انتہاء پسندی، بہتان ترازی اور پارلیمان کے اندر اور باہر غیر پارلیمانی زبان کے استعمال سے اجتناب کریں گی۔ اس کے علاوہ ایسے نقاط بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جو تمام سیاسی جماعتوں کے عزت و احترام میں اضافے کے علاوہ جمہوری اقدار کے فروغ اور جمہوری اداروں کی مضبوطی میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

جس دن ایسا کوئی سیاسی ضابطہ اخلاق بنانے میں یہ جماعتیں کامیاب ہوجائیں گی وہ دن پاکستان میں جمہوریت کی فتح کا دن ہو گا۔ تمام سیاسی جماعتوں میں ایسے انتہائی زیرک، سنجیدہ، سلجھے اور، منجھے ہوئے سیاست دان موجود ہیں جو موجودہ صورتحال سے نالاں ہیں وہ سر جوڑ کر جب بیٹھ جائیں گے تو اس مہم کو کامیاب بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments