بیس برس پہلے کی عید


ہم کمرے میں چار لوگ ہیں اور چاروں ہی اپنے اپنے موبائل میں سر دیے اپنی اپنی دنیا میں گم ہیں۔ آج انتیس کا روزہ ہے اور قوی امید ہے کہ کل عید ہوگی لیکن ہم چاروں اس وقت شدید بوریت کا شکار ہیں اور ہمارے پاس عید منانے کا صرف ایک انتظام ہے کہ ہمارے پاس ایک مضبوط اور مستحکم انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ یہی باتیں سوچتے سوچتے میں بیس برس یا اس سے زائد پہلے کے عرصے میں جا پہنچتا ہوں جب میں اپنے لڑکپن میں تھا جیسے آج میرا بیٹا ہے اور میں وہ وقت یاد کرنے لگتا ہوں کہ اس وقت عید کیسے ہوتی تھی۔

پہلی بات تو یہ تھی کہ اس دور میں ہم لوگ بوریت جیسے لفظ سے نا آشنا تھے اور ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے تھے۔ پہلی خوشی ہمیں رمضان میں ملتی تھی جب اسکول کا وقت تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کم کر دیا جاتا تھا اور ہر پیریڈ کا دورانیہ پینتالیس منٹ سے کم کر کے آدھا گھنٹہ کر دیا جاتا۔ اسکول میں پڑھائی کم اور عید کی تیاری کے بارے میں زیادہ گفتگو کی جاتی۔ روزے پورے رکھے جاتے اور اسکول میں بچوں کی حاضری کم نہ ہوتی آج کل کی طرح نہیں اگر بچے روزے رکھتے ہیں تو اسکول نہیں جاتے ورنہ اس کے الٹ کام ہوتا ہے۔

آج کل کے بچوں میں جذباتی لگاؤ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہم اپنے دوستوں کے لیے عید کارڈ اور تحفہ خریدا کرتے تھے۔ عید کارڈ دو قسم کے ہوتے تھے ایک فلمی اداکار و اداکارہ کے فوٹو ہوتے جن پر عید کا پیغام لکھا جاتا دوسرے عید کارڈ جو کافی ڈیزائن والے ہوتے، خوبصورت اور مہنگے ہوتے جن پر بڑے خوبصورت عید پیغامات لکھے ہوتے۔ عید کارڈ بچے دوستی کے حساب سے دیتے اگر دوستی زیادہ ہوتی تو مہنگا اور خوبصورت عید کارڈ دیا جاتا ورنہ تصویر والے کارڈ سے نپٹا دیا جاتا بعض مرتبہ کچھ بچے فلمی کارڈز جمع بھی کرتے۔ عید کارڈ پر چند مخصوص اشعار بھی لکھے جاتے جن میں سے چند مجھے یاد ہیں۔

ڈبے میں ڈبہ، ڈبہ میں کیک
میرا دوست لاکھوں میں ایک

عید آئی ہے زمانے میں
میرا دوست گر گیا غسل خانے میں

سویاں پکی ہیں سب نے چکھی ہیں
یار تم روتے کیوں ہو تمہارے لیے بھی رکھی ہیں

آج کل تو وٹس ایپ پر عید مبارک منجانب لکھ کر ارسال کر دیا جاتا ہے اور فرض ادا ہو جاتا ہے۔

بیس سال پہلے عیدی لینا بھی ایک فن ہوتا تھا بڑی منتوں اور ترلوں کے بعد عیدی ملتی تھی پھر اس کو بڑھانے کے لیے بھی خوب جتن کیے جاتے تھے مل کر منصوبے بنائے جاتے تھے۔ آج کل کے ماں باپ یعنی ہم بہت پھسڈی ہیں بچوں کے کہنے پر فوراً عیدی دے دیتے ہیں اور کوئی شغل میلہ نہیں لگتا اور بچے عیدی وصول کر کے پھر اپنے موبائل میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں۔ عید کے پہلے دن مجھے یاد آتا ہے کہ والد صاحب کے ساتھ سب رشتے داروں کے گھر جایا کرتے تھے اب یہ رسم بھی ختم ہوتی جا رہی ہے بچے تو پہلے انکار کر دیتے ہیں کہ بابا آپ ہو آئیں ہم بور ہو جاتے ہیں۔

عید کے دوسرے دن ہم اپنی والدہ کے ساتھ اپنی ننھیال جایا کرتے تھے اور سارا دن اپنے کزنوں کے ساتھ خوب کھیلتے تھے اور ہلا گھلا کیا کرتے تھے۔ کرکٹ کھیلی جاتی تھی رس لگائی جاتی تھی اور پورا دن خوب تماشا ہوتا تھا۔ آج کل بھی جایا جاتا ہے لیکن بولٹ کو ساتھ رکھا جاتا ہے تاکہ بوریت نہ ہو۔ عید کا تیسرا دن کزنوں یاروں کا ہوتا تھا۔ لمبی لائن میں لگ کر فلم کی ٹکٹیں خریدی جاتی اور فلم دیکھی جاتی تھی اور فلم کے بعد اکثر باہر سے کھانا کھایا جاتا، موٹر سائیکل بھگائے جاتے رات کو فلڈ لائٹس میں کرکٹ کھیلی جاتی اور عید کے تین دن بس آنکھ جھپکتے گزر جاتے اور آج کل تینوں دن موبائل کی سکرین پر گزر جاتے ہیں

ہائے! وہ بھی کیا دن تھے جب ہم جن تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments