ڈرٹی گیم


سابق وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا میرے پاکستانیو کہہ کر عوام کو مخاطب کرنا ہر محب الوطن کے دل کو بھاتا ہے، ان کے سماجی کام کے بھی لوگ گرویدہ ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کامیاب ترین کپتان رہ چکے ہیں، جن کی قیادت میں پاکستان نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے اور جانے کا عمل یادگار رہے گا کیونکہ انہیں عوام کی بھرپور محبت اور مکمل سپورٹ حاصل ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کامیاب کپتان اور بہترین سماجی امور سر انجام دینے والا عمران خان آخر کیوں دو خاندانوں کی سیاست کی نذر ہوا؟

اس حوالے سے میں بہت سی باتیں اپنے گزشتہ آرٹیکل میں کر چکی ہوں مزید آج کی اس نشست میں بیان کر رہی ہوں، بزرگوں کی مثال ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں پہچانے جاتے ہیں، عمران خان کی سیاسی حکمت عملی دیکھ کر پرانے سیاستدان پہلے ہی جان چکے تھے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے، 2019 میں آصف زرداری نے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مک گیا تیرا شو نیازی، جب ان سے سوال ہوا کہ کیسے؟ تو انہوں کہا جن لوگوں کو خان صاحب اپنا سمجھ رہے ہیں کیا وہ واقعی ان کے ہیں؟

بعد ازاں 2022 میں سب نے سندھ ہاؤس میں انسانی منڈی دیکھی، جس کی وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے غلط ٹکٹوں کی تقسیم بنی، نظریاتی کارکن کو نظر انداز کر کے باہر کے لوگوں کو موقع دینا خان کی پہلی بڑی غلطی تھی، پھر صوبہ پنجاب کو عثمان بزدار کے حوالے کرنے کے ساتھ برطانیہ پلٹ چوہدری سرور کو وہاں کا گورنر مقرر کرنا بھی خان کی سیاسی ناپختگی ثابت ہوئی جبکہ خان صاحب کے پاس عمر چیمہ جیسا دلیر رکن موجود تھا جو آج خان صاحب کے مخالفین کو بہترین ٹف ٹائم دے رہے ہیں، عمران خان نے انہیں نظر انداز کر کے اس بندے کو موقع دیا جس نے پارٹی کو تحریک انصاف بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ وہ تو پیراشوٹر تھے، سابق وزیراعظم عمران خان نے انتظامی کوتاہیوں کے ساتھ (جس کا ذکر میں گزشتہ آرٹیکل میں کرچکی ہوں ) سفارتی غلطیاں بھی کیں جس کی وجہ سے چین اور سعودی عرب ان سے ناراض ہوئے۔

خان صاحب کہتے ہیں ان کے اقتدار کا خاتمہ امریکی خط بنا کیونکہ جب تک تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوئی تھی مگر خط میں اس کا ذکر تھا، حالانکہ سیاسی حلقوں میں دسمبر 2021 سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت تھی، دسمبر سے لے کر 7 مارچ 2022 تک خان صاحب کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کا بہترین موقع تھا مگر خان صاحب کو آخری بال تک کھیلنے کا شوق تھا، جس کے تحت وہ کلین بولڈ ثابت ہوئے، عمران خان کی ناقص حکمت عملی نے شہباز شریف کی راہیں سیدھی کیں تاہم وطن عزیز میں وزارت عظمی کی سیٹ کوئی آسان عہدہ نہیں ہے، شہباز حکومت کے لئے بہت سے چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں، اب یہ تو اللہ جانے ان کا اقتدار میں آنا جذبہ حب الوطن ہے یا اپنے کیسز ختم کروانے کا نظریہ ضرورت، کیونکہ انہوں نے عین اس دن وزیراعظم کا حلف اٹھایا، جس دن ان پر فرد جرم عائد ہونا تھی۔

پھر ان کی کابینہ ملزمان کی وہ فہرست ہے، جن کے کیسز عدالت میں زیر سماعت ہیں، بھئی مانا پڑے گا تبدیلی تو یہ ہے، جس معاشرے میں اگر کوئی شخص ایک بار جیل تو کیا تھانے بھی چلا جائے تو اپنا ہر قسم کا اعتبار کھو دیتا ہے، وہاں کا وزیراعظم کرپشن زدہ کیسز میں سلاخوں کے پیچھے رہا ہے اور عجیب نہیں کہ پھر جانا پڑ جائے کیونکہ آج بھی انہیں عدالت طلب کر رہی ہے تاہم وہ ملک کو ترقی اور کامرانی کی راہ پر گامزن کرنے میں اس قدر مشغول ہیں کہ عدالت جانے سے قاصر مگر سعودی عرب جانے کے لئے مکمل تیار ہیں، شہباز شریف کی کابینہ کا حال بھی محترم وزیراعظم جیسا ہے، اللہ کے فضل سے ہر ایک عدالت کو مطلوب ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری عدالتیں 24 گھنٹے انصاف فراہم کرتی ہیں، جب ہی رات کے بارہ بجے بھی کھل جاتی ہیں، اگر ان انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں نے میری قومی امید کے مطابق بروقت انصاف فراہم کر ڈالا تو کیا ملکی امور جیل سے چلائے جائیں گے؟

شہباز شریف کی حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے آئی تھی تاہم بجلی، پیٹرول مہنگے ہونے کی اطلاعات ہیں، یہ ہی نہیں بلکہ ایل این جی کیس میں گرفتار شدہ وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل معاشی لحاظ سے مزید سخت دن آنے کا عندیہ دے چکے ہیں، جبکہ وہ ماضی قریب میں مہنگائی کے حوالے سے عوام کے لئے بہت پریشان بھی رہ چکے ہیں، ان کی فکر مندی آن ریکارڈ ہے۔

دو اضافی ووٹوں سے بنی شہباز حکومت پہلے دن ڈولتی کشتی معلوم ہوتی ہے، سابقہ ریکارڈ کو مدنظر رکھ کر اس خدشے کو خارج الامکان نہیں کیا جاسکتا کہ قومی اتحاد سے مزین اس حکومت کا رنگ فق کرنے والی جماعت ایم کیو ایم ہی ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ حلف برداری کی تقریب سے قبل وسیم اختر کا مشتعل ہونا، اپنی پارٹی کے سات ووٹوں کا طعنہ دینا، خالد مقبول صدیقی کا حکومتیں بنانے میں ایم کیو ایم کے کردار کو واضح کرنا، حکومت کے لئے خوش آئند نہیں ہے، دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پیپلز پارٹی من پسند وزارتوں کی متمنی ہے مگر مسلم لیگ نون ان کی فرمائشی وزارتوں کو دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے، تاہم بلاول بھٹو زرداری جسے ناتجربہ کار کو وزیرخارجہ بنا کر مسلم لیگ نون نے جوا کھیلا ہے، اس کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں، سب واقف ہیں کہ وزیر خارجہ کے ساتھ ملک کے طاقتور ادارے رابطے میں ہوتے ہیں، ایک نا تجربہ کار کے ہاتھ میں ملکی خارجی امور دینے سے کہیں شہباز شریف کی کانپیں نہ ٹانگ جائیں یہ تو وقت بتائے گا، ادھر عمران خان کامیاب ترین جلسے کر رہے ہیں اور اسلام آباد مارچ کا عندیہ بھی دے چکے ہیں،

عوام عمران خان کے ایک اشارے کی منتظر ہے، جسے شہباز حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی ہے، یقیناً موجودہ حکومت کو یہ اندازہ ہو گا کہ اگر اب عوام کے ساتھ ماڈل ٹاؤن والی سنگین حرکت کی تو یہ سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگی، شہباز حکومت کو آئے ابھی ایک ماہ نہیں ہوا کہ پاک، افغان بارڈر کشیدگی اور ملک میں دہشتگردی نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے، کراچی میں چینی باشندوں کا قتل انتہائی افسوسناک اور الارمنگ ہے، یہ نہ صرف حکومت بلکہ سیکیورٹی اداروں کی کارگردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

صوبہ پنجاب کا آئینی بحران بھی شہباز شریف کا درد سر ہے، آج نہیں تو کل شہباز شریف اس ڈرٹی گیم میں پھنسانے والے کو ضرور اپنا دشمن گردانے گے جس نے انہیں وزیراعظم بنے کا مشورہ دیا تھا، کیونکہ جب شہباز شریف کی ناؤ ڈوبنے لگے گی تو وہ اس طرح سے غائب ہوں گے جسے کبھی تھے ہی نہیں، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پیپلز پارٹی سینٹ کے انتخابات کے دنوں میں کس طرح کی سیاست کرتی رہی ہے، بہت ممکن ہے کہ بجٹ کے بعد موجودہ صورتحال میں تبدیلی نظر آئے، اگر مہنگائی اور بجلی کے تعطل پر قابو نہ پایا گیا تو عوام کے سامنے اچھا بننے کے لئے گیارہ رکنی قومی کابینہ کے اتحادی شہباز شریف کا ساتھ چھوڑنے میں بالکل دیر نہیں کریں گے، بالخصوص میرے سندھ کے وہ پردہ نشین جنہوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کا مشورہ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments