خدا سے جنگ اور ترقی کا خواب


خدا کے ساتھ حالت جنگ میں ہونے سے ترقی نہیں ملتی بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی ملتی ہے جسے ہم آج فخر سے بیان کرتے ہیں۔ سود پر قرض لیتے ہیں اور قومی سطح پر اسے کامیابی کا دعویٰ سمجھتے ہیں۔

اب دنیا کا کسی ریاست کو مغلوب کرنے کا انداز بدل چکا ہے۔ اب جنگوں کے ذریعے نہیں بلکہ معاشی بدحالی میں دھکیل کر محکوم اور مغلوب بنا لیا جاتا ہے، جس کی جھلک دنیا میں نظر آ رہی ہے۔ اور جو ریاستیں معاشی طور پر تباہ ہوجاتی ہیں ان کے باقی اسباب خود بخود ہی مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں اور قومی سلامتی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔

ہمیں بحیثیت قوم اور خاص کر حکمرانوں اور سیاستدانوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی ریاست جس کی آئین میں لکھا ہے کہ کوئی قانون بھی قرآن سنت کے خلاف نہیں بن سکتا، میں سرعام سود کا نظام جاری ہے۔

ویسے تو یہ علمی اور فقہی معاملہ ہے جس کے بارے عصر حاضر کے سکالرز نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اور موجودہ رائج العمل نظام کے مدمقابل اسلامی مالیاتی نظام بھی پیش کیا ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے بھی تدریسی پروگرامز شروع کیے ہوئے ہیں۔ سرسری دیکھا جائے تو قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اتقو اللہ وذروا ما بقی من الربٰو ان کنتم مؤمنین فان لم تفعلوا فاذنوابحربٍ من اللہ ورسولھ

اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہارا لوگوں پر باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان قبول کرو۔ (البقرۃ: 279 )

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملے پر گواہ بننے والے اور اسے تحریر کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔

تو کیا ہم اس پر یقین نہیں رکھتے یا اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ دونوں صورتوں میں خدا اور اس کے رسول ﷺ نے سخت وعید سنائی ہے۔

تو جب خدا اور اس کے رسول سے جنگ شروع کی ہوئی ہو تو پھر دنیا میں رسوائی کے نتائج کوئی عجب بات نہیں۔ جب اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہوئی ہو تو پھر دنیا کے آقاؤں کی غلامی تو لازم ہے۔

اس وقت اگر اندازہ لگایا جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ حفاظ، علما، حاجیوں اور مذہبی جنونیوں کا اگر کوئی ملک ہے تو وہ پاکستان ہے اور دوسری طرف سب سے زیادہ خراب معاملات والا ملک بھی پاکستان ہی ہے جس کی وجہ زندگیوں میں مکمل اسلامی ضابطہ حیات کے اطلاق کا فقدان ہے۔ ہم عبادات پر تو زور دیتے ہیں مگر معاملات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

اسلامی احکامات انسان کی بہتری کے لئے ہیں : اس کائنات کا خالق جانتا ہے کہ انسانی معاشرت کس طرح بہتر ہو سکتی ہے لہذا اس نے اس کا ضابطہ بھی بتا دیا مگر انسان اپنی محدود سوچ اور عقل کے ذریعے اپنی معاشرتی زندگیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جو لا حاصل ہے۔ اور جس معاشی نظام کو ہم اپنائے ہوئے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دولت کا بہاؤ امیروں کی طرف ہے۔ سی این این نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق دنیا کی بیاسی فیصد دولت ایک فیصد لوگوں کی ملکیت میں جا چکی ہے جو سلسلہ جاری ہے اور آنے والے سالوں میں حالات اس سے بھی بد تر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں غربت بڑھتی جا رہی ہے اور امیر امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

سود کی ممانعت میں اس کو ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی بڑا گناہ کہا گیا ہے اور اس سے معاشرے میں تباہی، جنونی پن اور فحاشی جیسے گناہوں کے پھیلنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ہم دین کی آڑ میں اپنی خواہشات کی تکمیل اور مفادات کے حصول کی خاطر کیا نہیں کر رہے۔ ہماری حالت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی تشریح بھی اپنے انہی منطقوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کرتے ہیں جس سے نفرتیں، عدم برداشت اور لالچ بڑھتا جا رہا ہے۔ اور آج اس نقطہ کی روشنی میں اندازہ لگا لیجیے کہ ہم کتنی بڑی بڑی معاشرتی برائیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

آج ہمارا معاشی نظام اس سود کی لعنت میں اس طرح سے لپٹ چکا ہے کہ کوئی شہری بھی اس سے محفوظ نہیں ہے اگر وہ خود براہ راست اس میں شریک نہیں بھی تو اس کے اثرات سے خالی نہیں ہے۔

حال ہی میں ختم ہونے والی حکومت تو بات ہی ریاست مدینہ کی کرتی تھی مگر عملی طور پر کوئی شکل نظر نہیں آئی۔ اس کا بھی سابقہ حکومتوں کی طرح اداروں کے قائم کرنے پر زور تھا جیسا کہ رحمت العالمین اتھارٹی بنائی گئی ہے لیکن اس کی سفارشات کا حشر بھی سابقہ حکومتوں کی طرح ہی ہو گا۔ سیرت سکولوں میں پڑھانے کے احکامات جاری کیے جا رہے ہیں مگر حکمران خود کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے تو خود حکمرانوں کو سیرت پڑھنی چاہیے اور پھر حکومتی اداروں کے اہلکاروں کو پڑھانی چاہیے اور اس پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے۔ اگر عمل کا نمونہ پیش کر دیا جائے تو قوم خود بخود ہی عمل پیرا ہو جائے گی۔ زیادہ تو ان پڑھے لکھے وزیروں اور حکومتی اہلکاروں کو عمل کروانے کی ضرورت ہے جن کو سمجھانا سب سے زیادہ مشکل ہے جو ستاون فیصد بد عنوانی کے مرتکب ہیں اور بقیہ کی راہ ہموار کیے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں جتنی بھی حکومتیں بنیں سب نے اسلام کے نام پر عوام کو ورغلایا، حتیٰ کہ جنگیں اسلام کے نام پر لوگوں کے جذبات کو ابھار کر لڑی گئیں۔ مگر عملی طور پر اسلامی ضابطہ حیات کو اپنانے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ سودی لین دین اتنا سخت ممنوع ہونے کے باوجود بھی ختم نہیں کیا جا سکا۔ بڑے بڑے ادارے بنائے گئے مگر ان کی سفارشات کو کوئی وزن نہیں دیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے موجود ہیں مگر اس کے باوجود حکومت چہ جائے اس پر عمل کرتی، اس پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ یہ گناہ اب تک کی ہر حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔

اب تو فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ بھی آ گیا ہے اور جس کو لاگو کرنے کی 2027 کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔

موجودہ حکومت کو اب اس میں روڑے اٹکانے کی بجائے اس کو لاگو کرنے میں سازگار ماحول بنانا چاہیے، مسلم لیگ کی حکومت کے سر پہلے بھی الزام ہے کہ انہوں نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر کے اس پر عمل میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب شہباز شریف کو تمام الزامات کا ازالہ کرنے کے لئے اس پر عمل کرنے کے آغاز کا شرف حاصل کرنا چاہیے اور ایک روڈ میپ کو دیں تاکہ آغاز ہو اور پانچ سالوں کے عرصے تک مکمل طور پر رائج ہو جائے

آج عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ حکومت سے لے کر حزب اختلاف تک ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کا عندیہ دے رہے ہیں اور مقتدر حلقوں سمیت ان عالمی مالیاتی اداروں کی تمام تر شرائط مان لینے ہی میں خیر سمجھ رہے ہیں۔ حیلوں بہانوں سے حزب اختلاف والے مخالفت بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اس کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔

جب ہم نے اپنی سعی سے اپنے اسلامی نظام معیشت کا استحصال کرنے کی کوشش کی تو نوبت یہاں تک آن پڑی کہ عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی میں چلے گئے اور اب ان سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پہلے ہماری پالیسیاں وہ بناتے تھے اب پالیسیاں بنانے والے ادارے ہی ان کے اختیار میں دے دیے گئے ہیں، وہ جو چاہیں فیصلے کریں۔

خدا اور اس کے رسول سے جنگ اسی کو کہتے ہیں کہ انسان غلط نظام اور دنیاوی آقاؤں کی غلامی میں چلا جاتا ہے اور اس کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور ہم یہ سب کچھ آج دیکھ رہے ہیں۔ جب خدا اورا س کے رسول کی لعنتوں والا راستہ اپنی مرضی سے چنا ہو تو پھر پچھتاوا کیسا۔ دھڑلے سے غلامی کے طوق پہننے پر فخر ہی ایسی قوموں کا مقدر ہوتا ہے۔ اور وہ بھیک کی شکل میں قرضے مانگنے کے لئے قطار میں کھڑے ہو کر عنائت کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں اور حرام اور تباہی کے حصول کو کامیابی گردان رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں اگر دنیا میں ترقی کرنی ہے تو اپنی اقتصادی پالیسی میں اصلاحات لانا ہوگی اور قوم کو یکجہتی سے قربانی دینا ہوگی جس کے لئے سب سے پہلے سیاسی استحکام اور قومی مفاہمت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments