وزیر اعظم مودی کی ایک خاموشی کی تعریف اور ایک پر تنقید

سروج سنگھ - نمائندہ بی بی سی


مودی
یہ سنہ 2016 کی بات ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی انڈیا کی مشرقی ریاست مغربی بنگال کے کھڑگ پور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریر کے دوران پاس کی مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے۔ آواز سنتے ہی پی ایم مودی دو منٹ کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔

اس خاموشی کے بعد وہ اپنی تقریر کا آغاز یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ’ہماری وجہ سے کسی کی عبادت میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے، چنانچہ میں نے تقریر چند لمحوں کے لیے روک دی۔‘

اس کے بعد سنہ 2017 میں گجرات کے نوساری میں ایک میٹنگ میں پی ایم مودی اذان کے وقت تقریر کرتے ہوئے خاموش ہو گئے۔

اسی طرح سنہ 2018 میں انھوں نے شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں ایسا ہی کیا۔ اس وقت پی ایم مودی کی اس ‘خاموشی’ کی کافی تعریف ہوئی تھی۔

اترپردیش کی اہم ریاستی پارٹی سماج وادی پارٹی کے رہنما اعظم خان مودی کے سخت مخالف کہے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس وقت کہا تھا کہ ‘اسے مسلمانوں کی خوشنودی نہ کہا جائے، یہ اللہ کا خوف ہے۔’

مودی

دوسری چپ یا خاموشی

سن 2022 میں ملک کے 100 سے زیادہ سابق بیوروکریٹس وزیراعظم کو خط لکھتے ہیں، جس میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کے خلاف ملک میں جاری مبینہ نفرت انگیز سیاست پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق خط میں لکھا گیا کہ ‘نفرت کی سیاست جس کا اس وقت سماج کو سامنا ہے ایسے میں آپ کی خاموشی (پی ایم) کانوں کو بہرا کرنے والی ہے۔’

واضح رہے کہ گذشتہ کچھ دنوں سے ملک کی مختلف ریاستوں میں آذان اور لاؤڈ سپیکر کے متعلق سیاست گرم ہے۔

مہاراشٹر میں، جہاں ایک پارٹی نے تمام مساجد سے لاؤڈ سپیکر ہٹانے کے لیے تین مئی کی آخری تاریخ مقرر کی ہے وہیں اتر پردیش میں صوتی آلودگی کا حوالہ دیتے ہوئے مندروں اور مساجد سے تقریباً 10 ہزار لاؤڈ سپیکر ہٹا دیے گئے ہیں۔

ان کے علاوہ گوشت پر پابندی، حجاب، شوبھا یاترا (ہندوؤں کے جلوس) پر ملک کے مختلف حصوں میں جو تشدد اور سیاست ہوئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

بیوروکریٹس کے خط میں پی ایم مودی کی جانب سے ان باتوں پر صرف ‘خاموشی’ کا ذکر ہے۔

خط میں لکھا گیا کہ ‘سابق بیوروکریٹس کی حیثیت سے ہم عام طور پر اپنے آپ کو اتنے ترش اور سخت الفاظ میں ظاہر نہیں کرنا چاہتے لیکن جس تیزی سے ہمارے آباؤ اجداد کی تعمیر کردہ آئینی عمارت کو تباہ کیا جا رہا ہے وہ ہمیں بولنے اور اپنا غصہ ظاہر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔’

مودی

ANI

دونوں خاموشیوں کے درمیان فرق

2016، 2017 اور 2018 میں جب پی ایم مودی اپنی تقریر کے دوران آذان کی آواز سن کر خاموش ہو جاتے تھے تو ان کے حریف اعظم خان بھی ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔ لیکن آج ان کی خاموشی پر سوالیہ نشان ہے۔

اس بار بیوروکریٹس نے بھی اس کے متعلق سوالات اٹھائے، معاملہ عدالت تک بھی پہنچا ہے جبکہ سیاسی مخالفین تو سوال اٹھا ہی رہے ہیں۔

بدھ کو کشمیر کی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس سب پر کھل کر بات کی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیاست کے لیے غلط ماحول بنایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال نہ کیا جائے، کیوں بھائی جب مندروں میں ہو سکتا ہے تو مساجد میں کیوں نہیں۔ پانچ وقت کی نماز ہے، اس میں کیا گناہ ہے؟

‘آپ ہمیں کہتے ہیں کہ حلال گوشت نہ کھائیں۔ آخر کیوں؟ ہمارے مذہب میں کہا گیا ہے۔ آپ اس پر پابندی کیوں لگا رہے ہو؟ ہم آپ کو کھانے پر مجبور نہیں کر رہے ہیں۔ بتاؤ کس مسلمان نے کسی غیر مسلم کو حلال گوشت کھانے پر مجبور کیا؟ آپ اپنے مطابق کھائیں، ہم اپنے مطابق کھائیں گے۔ ہم آپ کو یہ نہیں کہتے کہ مندروں میں مائکس نہ لگائیں۔ کیا مندروں میں مائکروفون نہیں ہیں؟ کیا گرودوارے میں مائیک نہیں ہے؟ لیکن آپ کو صرف ہمارا مائیک نظر آتا ہے۔ ہمارے کپڑے کھٹکتے ہیں، آپ کو صرف ہمارا نماز کا طریقہ پسند نہیں ہے۔’

وزیراعظم سے اپیل کیوں؟

بیوروکریٹس کی جانب سے لکھے گئے خط پر 108 افراد کے دستخط ہیں۔ ان میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، قومی سلامتی کے سابق مشیر شیوشنکر مینن، سابق خارجہ سکریٹری سجاتا سنگھ، سابق ہوم سکریٹری جی کے پلئی اور ٹی کے اے نائر شامل ہیں، جو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے پرنسپل سکریٹری تھے۔

نجیب جنگ نے اس خط کے بارے میں نیوز چینل این ڈی ٹی وی انڈیا سے بات کی ہے۔

پی ایم مودی کی خاموشی کے سوال پر نجیب جنگ نے کہا کہ ‘جن بیوروکریٹس نے یہ خط لکھا ہے ان کا نام ‘کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ’ ہے، یہ 200 بیوروکریٹس پر مشتمل گروپ ہے، جب بھی آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہوئی یا داغ لگتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے تو ہم اس کے متعلق خط لکھتے رہتے ہیں۔

‘پچھلے آٹھ دس مہینوں میں ہم نے محسوس کیا ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے، جس میں حکومت کو جو قدم اٹھانا چاہیے تھا وہ نہیں اٹھایا گیا۔ ریاست کے ڈی ایم اور ایس پی کو جو کارروائی کرنی چاہئے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں جیسی اقلیتی برادریوں میں خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

مودی کی پہلی پریس کانفرنس: ’مگر میں چپ رہوں گا‘

20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی پر کیوں خاموش رہے، جاوید اختر کی مودی پر تنقید

نریندر مودی کا خطاب: جب الفاظ نے ’عظیم مقرر‘ کا ساتھ چھوڑ دیا

انھوں نے مزید کہا: ‘ہمارا ماننا ہے کہ ہندوستان میں ایک شخص ہے، جس کی ملک سنتا ہے، اور وہ وزیر اعظم مودی ہیں۔ وہ ایک مضبوط لیڈر ہیں۔ اگر وہ اشارہ کریں گے تو یہ واقعات رک جائیں گے۔ اگر یہ نہ بھی رکے تو یقیناً کم تو ہو جائیں گے۔ جو لوگ یہ کر رہے ہیں ان کو یہ اشارہ ملے گا کہ یہ نہیں چل سکتا۔’

سابق ہوم سکریٹری جی کے پلئی بھی اس خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘اگرچہ فرقہ وارانہ تشدد کے یہ واقعات ریاستوں میں ہو رہے ہیں، ہم ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی خط لکھ سکتے تھے، لیکن وزیر اعظم مودی ایک بااثر رہنما ہیں۔ ان کے ایک سطر بولنے سے ان کا پیغام تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ تک پہنچ جائے گا۔

‘ہم نے اس کی مثالیں پہلے بھی دیکھی ہیں۔ سی اے اے-این آر سی (شہریت کا متنازع قانون) تنازعے کے دوران (وزیر داخلہ) امت شاہ کا بیان آیا تھا کہ این آر سی جلد نافذ ہوگا، لیکن دو دن بعد جب وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے اس وقت سے امت شاہ کی جانب سے این آر سی پر کوئی بیان نہیں آیا اس سے واضح ہے کہ ان کی باتوں کا کتنا اثر ہے۔

خط پر بی جے پی کا ردعمل

بیوروکریٹس کے خط میں کہا گیا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں آسام، دہلی، گجرات، ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور اتراکھنڈ جیسی کئی ریاستوں میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے ایک خوفناک جہت اختیار کر لی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ دہلی کو چھوڑ کر ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور دہلی میں بھی پولیس مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ہے۔

تاہم بی جے پی نے اس خط پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے کہا: ‘یہ گروپ وزیر اعظم مودی کی طرف سے چلائی جانے والی عوامی فلاح و بہبود کی سکیموں جیسے مفت ویکسین، مفت راشن، جن دھن اکاؤنٹ پر کبھی کچھ نہیں کہتا۔ پی ایم مودی کی قیادت میں ہماری حکومت مثبت حکمرانی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ جبکہ ایسے گروہ منفی (سوچ) پھیلانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔’

وزیر اعظم نریندر مودی کی دونوں طرح کی خاموشیوں کے فرق پر بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور آئی جی این سی اے کے سربراہ رام بہادر رائے کہتے ہیں:

‘پہلی خاموشی جو تھی وہ نریندر مودی کے سرو دھرم سمبھاو (تمام مذاہب سے میل) کے سیکولرازم پر یقین کی خاموشی تھی۔ آج کی خاموشی آئینی یونین کا جو وقار ہے، اس کی خاموشی ہے۔

‘مطلب یہ کہ ریاستوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی ہے۔ اگر وزیراعظم کچھ بولیں گے تو اس سے وزیراعلیٰ کے کام میں مداخلت ہوگی۔ امن و امان ریاست کا موضوع ہے۔ ایک تجربہ کار وزیر اعلیٰ ہونے کے ناطے پی ایم مودی جانتے ہیں کہ کہاں بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے۔

نریندر مودی

'جو لوگ وزیر اعظم کو خط لکھ رہے ہیں وہ فرقہ وارانہ رواداری کی کوئی مثال نہیں دے رہے ہیں۔ وہ اس آگ میں اپنی سیاسی روٹیاں پکا رہے ہیں۔ جو کچھ اب ہو رہا ہے، وہ آزادی کے بعد، سنہ 1967 کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔ آج کے حالات مختلف ہیں۔ جو کچھ اکا دکا واقعات ہو رہے ہیں، ریاستی حکومتیں اسے سنبھال رہی ہیں، کوئی نسل کشی نہیں ہو رہی ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ دھرم سنسد روکو تو اتراکھنڈ حکومت نے روک دیا۔ اس لیے ہر بات میں وزیر اعظم کو گھسیٹنا مناسب نہیں۔ بولنے سے زیادہ چپ رہنے میں صبر اور ہوشیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔'

وزیر اعظم نریندر مودی کی دو خاموشیوں کے فرق پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے مشیر سدھیندر کلکرنی کہتے ہیں:

‘اذان کے وقت تقریروں میں خاموش رہنے کی روایت سیاست میں پرانی ہے، میں خود کئی مواقع کا گواہ رہا ہوں جب سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کسی ریلی میں ہوتے اور آذان کی آواز سنتے تو وہ خاموش ہو جاتے۔ مودی نے اسے (2016، 2017، 2018) میں جاری رکھا، یہ بڑی بات ہے۔ وہ شاید آذان کے وقت خاموش نہیں رہنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ روایت چل رہی تھی، اس لیے انھیں خاموش رہنا پڑا۔’

ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘اس سال نفرت کے ماحول میں پی ایم مودی کا خاموش رہنا بڑی بات ہے۔ وزیر اعظم ہوتے ہوئے جب فرقہ وارانہ تشدد اتنا پھیل رہا ہے، دہلی بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے، دھرم سنسد کے نام پر نفرت انگیز تقاریر ہو رہی ہیں لیکن وزیر اعظم کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلتا، یہ خاموشی بغیر کچھ کہے بہت کچھ کہہ رہی ہے، یہ زیادہ قابل مذمت ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments