کیا انڈیا ’مغربی ممالک کو خوش کرنے کی پالیسی‘ سے پیچھے ہٹ رہا ہے؟

شکیل اختر - بی بی سی نامہ نگار، دلی


MODI, MACRON
’امریکہ اور مغربی ممالک انڈیا کو روس سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی جرمنی، فرانس اور ڈنمارک کے دورے پر ہیں۔ خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق اس دورے میں باہمی تعلقات کے علاوہ یوکرین کے معاملہ ایک کلیدی موضوع ہو گا اور جرمنی اور فرانس انڈیا کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ یوکرین کے بحران میں غیر جانبداری کی پوزیشن نہ لے اور روس کی براہ راست مخالفت کرے۔

لیکن بظاہر انڈیا اپنے موقف میں کسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہے۔ انڈیا نے یوکرین پر حملے کو بنیاد بناتے ہوئے ابھی تک روس کی مذمت نہیں کی ہے جبکہ عالمی پابندیوں کے باوجود انڈیا بدستور روس سے ہتھیار، تیل اور گیس کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے۔

گذشتہ ہفتے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دلی میں ایک مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انڈیا کو اب مفربی ملکوں کو خوش کرنے والی پالیسی سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے جس سے یہ معلوم ہو کہ ہم کیا ہیں۔ اس میں ہماری سوچ کی عکاسی ہونی چاہیے۔‘

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے رويے میں سختی آئی ہے اور اُن کا لب و لہجہ کافی بدلا ہوا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ جب اپنے امریکی ہم منصبوں سے مذاکرات کے لیے واشنگٹن گئے تو ایک نیوز کانفرنس میں ایک رپورٹر نے روس سے انڈیا کے تیل خریدنا جاری رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب میں کہا تھا ’انڈیا روس سے جتنا تیل ایک مہینے میں خریدتا ہے اس سے زیادہ تیل یورپ آدھے دن میں روس سے خریدتا ہے۔‘

اسی نیوز کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے کہا تھا کہ انڈیا میں حقوق انسانی کی صورتحال پر امریکہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ انڈیا کے وزیر خِارجہ نے ایک اور پریس کانفرنس میں نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ’جس طرح امریکہ انڈیا میں حقوق انسانی کی صورتحال کے بارے میں اپنی رائے رکھتا ہے اسی طرح انڈیا بھی امریکہ میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اپنی رائے رکھتا ہے۔‘

دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاسیات کی پروفیسر ارچنا اپادھیائے کہتی ہیں کہ ’پہلی بار کسی وزیر خارجہ نے امریکہ کو اسی کی زمین پر آئینہ دکھایا ہے۔‘

مودی، پوتن

خاربی امور کے تجزیہ کار سوشانت سرین نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے لب و لہجے میں یہ تبدیلی شاید اس لیے آ رہی ہے کیونکہ انڈیا اب سامراجی دور کی سوچ اور احساس کمتری سے باہر آ رہا ہے۔

’ہمارے اوپر جو مسلط کیا گیا تھا وہ ہم قبول کر لیتے تھے۔ وہ رویہ اب بدل رہا ہے۔ اب تصور یہ ہے کہ اگر ہمارے ساتھ ڈیلنگ کرنا چاہتے ہیں تو آپ اسی پیرائے میں کریں جو ہم ہیں۔ یہ حقیقت زور پکڑ رہی ہے اگر ہمارے اوپر کوئی مصبیت پڑتی ہے تو اس مصبیت سے ہمیں اپنے زور پر ہی نمٹنا پڑے گا۔‘

’ہو سکتا ہے کہ کوئی دوست ملک ہماری مدد کر دے۔ یہ ایک اچھی بات ہو گی لیکن ان کے بھروسے پر رہ کر ہم اپنے عسکری اور دوسرے مسائل نہیں حل کر سکتے۔ اسی لیے انڈیا اب ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو اس کے حق میں ہے۔ یوکرین کے بارے میں بھی انڈیا نے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے وہ اس کے حق میں ہے۔‘

دلی کے ’رائے سینا مذاکرات‘ میں حصہ لیتے ہوئے ایس جے شنکر نے ناروے کے وزیر خارجہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ’یاد کیجیے کہ افغانستان میں کیا ہوا۔ یہاں کی پوری سول سوسائٹی کو دنیا نے یک لخت چھوڑ دیا۔ جب ایشیا میں قانون کی بالادستی کے نظام ( انڈیا چین ٹکراؤ ) کو چیلنج کیا گیا تو ہمیں یورپ سے تجارت بڑھانے کا مشورہ دیا گیا۔ کم از کم ہم کسی کو صلاح تو نہیں دے رہے ہیں۔ افغانستان کے معاملے میں کون سے قانون کے نظام پر عمل کیا گیا تھا۔ کوئی لڑائی کا حامی نہیں ہے۔ یوکرین کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہو گا۔‘

نریندر مودی

’انڈیا اب سامراجی دور کی سوچ اور احساس کمتری سے باہر آ رہا ہے‘: تجزیہ کار

روزنامہ ’ہندو‘ کے مدیر اور تجزیہ کار امت بروا کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے روس کے تئیں مفربی ملکوں کے تیور سخت ہوتے جا رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں روس میں حکومت بدل جائے اور صدر ولادیمیر پوتن اقتدار سے باہر ہو جائیں، ہو سکتا ہے کہ یہ اسی کا ردعمل ہو۔‘

سلمان خورشید سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں وزیر خارجہ تھے۔ وہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی پالیسیوں کو ’ردعمل‘ قرار دیتے ہیں۔

اُن کے خیال میں جے شنکر کا ردعمل کسی آزمودہ سفارتکاری کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت فوری ہے۔ ’ہم شکایت کر کے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم ابھی مغربی ممالک سے شکایت کر رہے ہیں کہ آپ نے ہماری مدد نہیں کی تھی۔ اس وقت ہم مفربی ممالک سے ماضی کے واقعات پر بحث کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سے کیا حاصل ہو گا۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ انڈیا کے لیے یہ بہت مشکل صورتحال ہے۔‘

سلمان خورشید

ہم مغربی ممالک سے شکایت کر رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا: سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید

وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کی حمایت کرنے والے ایک کالم نگار سنبیر سنگھ رنہوترا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ’وزیر خارجہ ایس جے شنکر اعتماد اور خود داری کا ایک ایسا دور لے کر آئے ہیں جو انڈیا کی سفارتکاری میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ انھوں نے ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا ہے۔ آج کوئی بھی ملک انڈیا کے خلاف کچھ بھی بول کر نکل نہیں سکتا، اسے جواب ملتا ہے۔‘

’چین سے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد انڈیا کے تجارتی تعلقات یورپی ممالک اور امریکہ سے اور زیادہ قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ سے انڈیا کی 200 ارب ڈالر سے زیادہ کی سالانہ تجارت ہوتی ہے۔

انڈیا کے سفارتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ کوئی بھی ملک انڈیا کی حقوق انسانی کی صورتحال اور خارجی پالیسیوں کے سبب اپنے اقتصادی مفادات کے پیش نظر اس سے اپنے تعلقات خراب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments