مووی ریویو: فلم چکر


مصنف۔ ظفر عمران
ہدایت کار۔ یاسر نواز
کاسٹ۔ یاسر نواز، احسن خان، نیلم منیر، احمد حسن

سسپنس اور تھرل فلم کا ایک بہت جاندار یانرا ہے۔ دنیا بھر میں اس پر بہت شاہکار فلمیں بن کر انتہائی کامیاب بھی ہوتی رہی ہیں۔ ہالی وڈ کی شاندار فلمیں جیسے
The Bourne identity، The adjustment bureau، The Inception،
لاجواب سسپنس کے ساتھ باکس آفس پر بے انتہا کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ بالی وڈ میں دلیپ کمار صاحب کی آخری فلم قلعہ اس کی ایک مثالی تصویر ہے جو شروع سے لے کر آخر تک ناظر کو جکڑے رکھتی ہے۔ کاجول کی فلم گپت بھی ایسی ہی ایک ناقابل فراموش فلم تھی۔ پاکستان میں نیو سینما کی آمد کے بعد یہ ناقابل فہم طور پر سمجھ لیا گیا ہے کہ صرف رومانٹک کامیڈی ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس متھ کو گو شعیب منصور شہرہ آفاق فلم بول کے ذریعے توڑ چکے ہیں مگر یاسر نواز بجا طور پر داد کے مستحق ہیں کہ ان کی اور ظفر عمران کی جوڑی نے مل کر ایک بہت اعلیٰ فلم لکھی اور بنائی ہے۔

کہانی کے مطابق کبیر (احسن خان) ایک کمپنی میں ملازم ہے اور اپنی خوبرو مگر سادہ دل بیوی مہرین (نیلم منیر) سے بے انتہا پیار کرتا ہے۔ نیلم کا فلم میں ڈبل رول ہے اور وہ مہرین کی جڑواں بہن زارا کا رول بھی ادا کر رہی ہے جو اس کی ہم شکل ہے اور فلموں کی ایک کامیاب اداکارہ ہے۔ کبیر کو اپنی سالی کا فلموں میں کام کرنا بالکل نہیں بھاتا اور اس نے اپنی بیوی مہرین کا اپنی بہن زارا سے ملنا بند کیا ہوا ہے۔ ایک دفعہ سر راہے ملاقات پر وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور زارا کو دوبارہ وہاں آنے پر قتل کی دھمکی بھی دے دیتا ہے۔

مہرین کا فلیٹ جس بلڈنگ میں ہے وہاں ایک سادہ دل جوڑا بھی رہتا ہے جن کا مہرین کی طرف بہت آنا جانا ہے۔ اس میں مرد سربلند چیمہ (احمد حسن) مہرین کو بہنوں جیسا پیار دیتا ہے اور اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔ دوسری طرف زارا ایک نک چڑھی اداکارہ ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہو جاتی ہے۔ ایک گانے کی شوٹنگ کے دوران اس کے پاؤں میں موچ آ جاتی ہے تو وہ شوٹنگ چھوڑ کر فلم ساز (محمود اسلم) کا لاکھوں کا نقصان کرا بیٹھتی ہے۔ فلم ساز اسے اس عمل کے سنگین نتائج کی دھمکی دیتا ہے۔

کبیر ایک ہفتے کے لیے شہر سے باہر جاتا ہے تو زارا مہرین کو ملنے آتی ہے اور اسے اکساتی ہے کہ وہ زارا کی جگہ ایک ہفتہ زندگی سے لطف اٹھائے۔ چونکہ دونوں ہم شکل ہوتی ہیں اس لیے مہرین زارا کی جگہ اس کے فلیٹ میں چلی جاتی ہے۔ وہاں اسے فلم سٹار کا پروٹوکول بہت بھاتا ہے۔ ایک رات ایک نامعلوم شخص اس کے فلیٹ میں گھس کر اسے بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیتا ہے۔ زارا جو کہ مہرین بنی ہوتی ہے ایک دم کبیر کے آنے اور پھر مہرین (زارا) کے قتل سے سٹپٹا کر مہرین بننے کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ انسپکٹر شہزاد (یاسر نواز) آئی جی سے کہہ کر اس کیس کی تفتیش خود اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے۔ اس کا شک بجا طور پر کبیر پر ہوتا ہے جس نے اسے قتل کرنے کی دھمکی دی ہوئی تھی مگر زارا (مہرین) کے قتل کے بعد اس کی بہن کے حق میں ہوئی ایک سو کروڑ کی انشورنس سارا معاملہ چکرا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے بعد مووی ایک انتہائی فاسٹ ٹیمپو میں چلتی ہوئی ناظر کو چکر پر چکر دیتی ہے اور آخر میں جب حقیقت کھلتی ہے تو ناظر بے اختیار تالیاں بجانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

فلم کی سب سے قابل ذکر شے اس کا بیک گراؤنڈ میوزک ہے۔ بڑی مشکل سچوایشنز میں بیک گراؤنڈ میوزک ایک انتہائی اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ فلم کا کیمرہ اور فریم ورک بھی کمال کا ہے۔ آؤٹ ڈور میں ایکشن اور تعاقب کے وقت کیمرہ ورک بہت حساس ہوتا ہے ذرا سی غلطی سارے کئیے کرائے پر پانی پھیر سکتی ہے مگر فلم میں اس امر پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جہاں جہاں ڈرون شاٹس لیے ہیں وہ بھی بالکل پرفیکٹ بیٹھے ہیں۔ لائیٹنگ حیرت انگیز طور پر ان ڈور میں، جہاں لائیٹنگ ایک بہت بڑا امتحان ہوتی ہے، بہت اعلیٰ ہے مگر آؤٹ ڈور میں جہاں لائیٹ بائیں ہاتھ کا کھیل ہونا چاہیے، کہیں کہیں کمزور نظر آئی۔

اداکاری میں اگر سب سے سر فہرست کسی کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ بلاشبہ نیلم منیر ہے۔ ان کا کردار ایک انتہائی مشکل کردار تھا۔ ڈبل رول میں اک سادہ لوح گھریلو خاتون اور ایک نک چڑھی طرح دار ایکٹرس کے کرداروں میں بہت مشکل مراحل تھے مگر انہوں نے یہ نہایت آسانی سے ادا کئیے۔ مہرین کے قتل کے بعد ان کا رول کئی مشکل لیئرز لیے ہوئے تھے جہاں انہیں اپنے کائیاں پن کو معصومیت کے لبادے میں اوڑھنا ہوتا تھا۔ بیک وقت انہیں ایک حسینہ فتنہ پرداز، ایک مفاد پرست دھوکے باز اور ایک عیار ڈھونگی کے سوانگ رچانے تھے۔ کئی سینوں میں انہیں یک دم المیہ سے طربیہ شیڈ کی طرف مراجعت اختیار کرنی تھی۔ مجھے کہہ لینے دیجئیے کہ نیلم، جن کی عمومی شہرت ان کا ہوش ربا حسن اور ہونٹ کا تل ہے، اس فلم میں ایک بے مثال اداکارہ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ امید ہے اب مستقبل میں انہیں روایتی رومانٹک ہیروئن کی بجائے جاندار پرفارمنس والے رول دیے جائیں گے۔

احسن خان گو بہت بڑا نام ہے لیکن شاید یہ رول ان کے لیے نہیں تھا۔ وہ رومانٹک رول ہی بہتر کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر غصے کے تاثرات دیتے ہوئے تو وہ اچھی خاصی مضحکہ خیز شکل بنا لیتے تھے۔ یاسر نواز نے اپنے رول سے بھرپور انصاف کیا ہے اور مقام شکر ہے کہ انہوں نے اپنی اٹھاون انچ کی کمر کو بھی ڈائٹنگ کر کے بیالیس چوالیس تک لے آیا ہے۔ اس فلم میں سب سے چونکا دینے والی اداکاری احمد حسن نے کی ہے۔ ایک سادہ دل مگر سچے وکیل کے رول میں انہوں نے ایسی شاندار اداکاری کی ہے جو برسوں یاد رکھی جائے گی۔

فلم کے نغمے اور رقص کمرشل ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ڈالے گئے ہیں جو مناسب ہیں۔ ایک نغمے میں ویسے پرنسس آف ہوپ کے ارد گرد شوٹنگ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ فلم لو بجٹ بھی نہیں ہیں کہ کسی بہتر جگہ نہ جایا جا سکے۔ ان سنگلاخ پہاڑوں کی بجائے اگر سوات وغیرہ جیسے کسی پر فضا مقام کا انتخاب کیا جاتا تو بہتر تھا۔ فلم چونکہ کراچی میں بنی ہے اس لیے کامیڈی کے نام پر پنجابی کرداروں کو احمق دکھانا وہاں کی ریت ہے۔ اس فلم میں بھی ایسی ہی واہیات باتیں کامیڈی کے نام پر شامل کی گئی ہیں۔ خیر پنجابیوں کا ظرف بہت بڑا ہے، وہ اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ فلم کے مکالمے بہت جاندار ہیں اور ظفر کے قلم سے نکل کر دو آتشہ ہو گئے ہیں۔

آخری تجزئیے میں ایک بہت جاندار فلم ہے جو ناظرین کو آخری سین تک سیٹ کے اگلے کنارے پر بٹھائے رکھتی ہے۔ ریٹنگ 9 / 10


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments