جب میں ڈپریشن کا شکار ہوا


میں نے جب ایڈورڈز کالج پشاور سے ایف ایس سی کے امتحان میں اچھے نمبر حاصل کیے اور پورے صوبے میں بیسویں پوزیشن حاصل کی تو مجھے کامل یقین تھا کہ مجھے خیبر میڈیکل کالج میں آسانی سے داخلہ مل جائے گا لیکن جب داخلے کی درخواست حاصل کی تو پتہ چلا کہ اس درخواست کی قبولیت کے لیے مجھے ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔

میں نے اپنے والد عبدالباسط سے اپنا مسئلہ بیان کیا تو وہ فرمانے لگے

’ آپ داخلے کی پوری کوشش کریں لیکن قانون کی حدود میں رہ کر اور میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں آپ کے داخلے کے لیے نہ کوئی سفارش کروں گا اور نہ ہی کسی کو رشوت دوں گا‘ ۔

چنانچہ چند دن بعد میں خود ہی ڈپٹی کمشنر کے دفتر چلا گیا تا کہ ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ کی درخواست حاصل کر سکوں۔

درخواست مکمل کی تو پتہ چلا کہ اسے جمع کروانے سے پہلے اس پر ایک جج کے دستخط کی ضرورت ہے۔

چنانچہ ایک صبح میں پشاور کی کچہری چلا گیا۔ اس دن کچہری میں چار عدالتیں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے چاروں ججوں کو دیکھا اور تیسرے جج کی عدالت کے دروازے پر اپنی درخواست لیے کھڑا ہو گیا اور دو گھنٹوں تک بڑی خاموشی سے کھڑا رہا۔ جج نے میری طرف چند دفعہ دیکھا لیکن کچھ نہ کہا۔

بارہ بجے دوپہر جب عدالت کا لنچ کا وقفہ ہوا تو جج نے مجھے بلا کر پوچھا
’آپ پچھلے دو گھنٹوں سے یہاں کیوں کھڑے ہیں؟‘

میں نے کہا ’میرے ایف ایس سی کے امتحان میں اچھے نمبر آئے ہیں اور میں میڈیکل کالج میں داخلہ لینا چاہتا ہوں لیکن اس کی درخواست کے لیے مجھے ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ چاہیے اور اس سرٹیفیکیٹ کی درخواست پر ایک جج کے دستخط اور مہر چاہیے اس لیے میں دو گھنٹوں سے آپ کی فراغت کا انتظار کر رہا ہوں‘

جج نے میری ساری بات بڑے غور سے سنی اور پھر کہا
اس عدالت میں چار جج ہیں آپ میرے پاس کیوں آئے؟

میں نے کہا ’میں نے چاروں ججوں کو دور سے دیکھا۔ مجھے آپ سب سے زیادہ مہربان دکھائی دیے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ آپ میری حوصلہ افزائی فرمائیں گے اور میری درخواست پر دستخط کر دیں گے‘

جج میری باتوں سے بہت محظوظ ہوئے۔ مسکرائے اور میری درخواست پر دستخط کر کے مستقبل میں میری کامیابی کی دعا کی۔

میں بہت خوش ہوا لیکن میری خوشی عارضی تھی۔

میری درخواست رد کر دی گئی۔ میرا ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ بھی رد کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ ڈومیسائل کے لیے صوبے میں جائیداد ہونی چاہیے۔

میرے والدین مہاجر تھے اور 1947 میں اپنی ساری جائیداد ہندوستان کے شہر امرتسر میں چھوڑ آئے تھے۔

جب مجھ سے کم نمبر حاصل کرنے والے میرے دوستوں کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور مجھے نہ ملا تو پہلے میں بہت افسردہ ہوا پھر اداسی نے مجھے گھیر لیا اور پھر میں ڈپریشن کا شکار ہو گیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ساتھ بہت زیادتی کی گئی ہو اور میں اس سلسلے میں بالکل بے بس ہوں۔

میں چند ہفتے ڈپریشن کا شکار رہا۔ میں دن رات خاموش رہتا۔

پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اگر میں ڈاکٹر نہیں بن سکتا تو میں ریاضی میں ایم ایس سی کر لوں کیونکہ ریاضی میرا پسندیدہ مضمون تھا اور میرے والد نے بھی ریاضی میں ایم ایس سی کیا ہوا تھا۔

میں بی ایس سی کی کتابیں بھی خرید لایا۔ چند دن پڑھنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ کوشش بالکل کامیاب نہ ہوئی۔

میرا دل مرجھا سا گیا تھا۔
میرا ڈاکٹر اور ماہر نفسیات بننے کا خوابوں کا شیش محل چکنا چور ہو گیا تھا۔

چند ہفتوں کی اداسی اور ڈپریشن کے بعد میں نے سوچا کہ میں چند ہفتے اپنی نانی اماں کے گھر رہوں جو چار مزنگ روڈ لاہور میں رہتی تھیں۔

لاہور جانے سے اور اپنی خالاؤں اور ماموں اور چچا کے ساتھ وقت گزرنے سے میری طبیعت قدرے بہتر ہوئی اور پھر ایک غیر متوقع واقعہ پیش آیا جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا۔

میں اپنے پسندیدہ ماموں علا الدین سے ملنے پرانی انارکلی گیا تو ان کے قریبی دوست انکل سعید سے ’جو ایک کامیاب وکیل تھے‘ ملاقات ہوئی۔ انکل سعید ’جو ہمیشہ مجھ سے بہت محبت اور اپنائیت سے ملتے تھے‘ میری زندگی کے بارے میں پوچھنے لگے تو میں نے انہیں اپنے دکھی دل کی کہانی سنا دی۔

انکل سعید نے میری کہانی بڑی اپنائیت سے سنی اور اگلے دن اپنے دفتر میں بلایا۔

میں ان کے دفتر گیا اور وہ کاغذ اور قلم لے کر میرے سامنے بیٹھ گئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے والد عبدالباسط نے 1954 میں ریاضی میں ایم ایس سی کیا تھا اور وہ لاہور سے کوہاٹ ہجرت کر کے آئے تھے تا کہ گورنمنٹ کالج کوہاٹ میں ریاضی کے لیکچرر کے فرائض انجام دے سکیں۔ اس وقت میری عمر دو برس تھی پھر ہم پشاور آ گئے اور میں نے 1969 میں ایڈورڈز کالج پشاور سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس طرح اپنی سترہ برس کی زندگی میں سے میں نے پندرہ برس صوبہ سرحد کے شہر کوہاٹ اور پشاور میں گزارے تھے۔

انکل سعید نے میری درد بھری بپتا سننے کے بعد قانونی کاغذات پر پانچ صفحوں کا طویل خط لکھا جس میں درج تھا کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور مجھے میرے انسانی حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ میرے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے تا کہ مجھے خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ مل سکے۔ انکل سعید نے اس خط کی

ایک کاپی خیبر میڈیکل کالج کے پرنسپل کو
ایک کاپی پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار کو
اور
ایک کاپی صوبہ سرحد کے گورنر ایر مارشل اصغر خان کو بھیجی۔

اتفاق سے ایر مارشل اصغر خان طلبہ و طالبات کے مسائل کے بارے میں ہمدردانہ دل رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے پشاور یونیورسٹی کو حکم دیا اور ایک سپیشل میٹنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں میرے والد عبدالباسط کا انٹرویو کیا گیا اور جب انہوں نے اصحاب بست و کشاد کو یقین دلایا کہ ہمارے خاندان نے پشاور کو اپنا نیا گھر بنا لیا ہے تو ہماری درخواست قبول کر لی گئی اور مجھے جنوری 1970 میں خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور میری عارضی ڈپریشن ختم ہوئی۔

میری خوش قسمتی کہ مجھے اپنی زندگی میں مشفق جج اور انکل سعید جیسے مہربان بزرگ ملے جنہوں نے میری بے لوث مدد کی۔

میں نے 1970 سے 1974 تک خیبر میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اس طرح میں نے پانچ سال کی تعلیم ساڑھے چار سال میں مکمل کی اور مجھے 1974 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری ملی اور میرا ڈاکٹر بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔

اب جب میں اپنے ماضی کی آزمائشوں کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے تین باتوں کا احساس ہوتا ہے

پہلی بات یہ کہ جن مشکلات نے مجھے ان دنوں پریشان رکھا ان ہی مشکلات نے مجھے ایک بہتر انسان بنایا۔ فریڈرک نیٹشے فرمایا کرتے تھے

what does not kill us makes us stronger

دوسری بات یہ کہ میں نے اپنے دکھوں سے دوسروں کے دکھوں کے ساتھ ہمدردی اور ہم احساسی کے جذبے سیکھے جنہوں نے مجھے ایک بہتر ماہر نفسیات بنایا۔

تیسری بات یہ کہ چونکہ مشفق جج اور مہربان انکل سعید نے میری بے لوث خدمت کی اور میرے خوابوں کو پورا ہونے میں میری مدد کی اب میں نوجوانوں کی مدد کرتا ہوں تا کہ وہ بھی میری طرح اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکیں اور یہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہے۔

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments