انڈیا میں ’مِنی پاکستان‘ اور ’چھوٹے پاکستان‘ جیسے الفاظ کا استعمال کب شروع ہوا؟

نتن سریواستو - نمائندہ بی بی سی


انڈیا مسلم
’ہم اور ہمارے والدین یہیں پیدا ہوئے، یہیں کام کرتے ہیں اور یہیں مریں گے۔ لیکن مرنے سے پہلے ہم صرف اتنا سننا چاہتے ہیں کہ ہم انڈیا میں رہتے ہیں اور انڈیا میں ہی مرے، مِنی پاکستان میں نہیں۔‘

جب 58 سالہ صاحبہ بی بی یہ بتا رہی تھیں تو اس وقت ایک بلڈوزر ان کے پیچھے دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ایک ’غیر قانونی عمارت‘ کو گرا رہا تھا۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد اسی علاقے کی ایک کالونی میں میری ملاقات سدیش کمار سے ہوئی، جن کا خیال ہے کہ ’سڑک کے دوسری طرف مِنی پاکستان ہے، جہاں بنگلہ دیش سے آئے درانداز بھی آباد ہو گئے ہیں۔ بس رات کو دیر گئے گھر سے باہر نکلنے کی دیر ہے اور آپ کا موبائل چھینا جانا یقینی ہے۔‘

اس علاقے میں کچھ دن پہلے ہی فرقہ وارانہ تشدد اور تناؤ دیکھا گیا تھا اور اس کے بعد سخت حکومتی کارروائی ہوئی تھی۔

وہاں سے واپسی کے دوران میرے ذہن میں صرف دو الفاظ ’مِنی پاکستان’ اور ’بنگلہ دیشی درانداز‘ گونج رہے تھے۔

آپ میں سے کتنے لوگوں نے بچپن سے لے کر آج تک آزاد ہونے کے بعد انڈیا میں ’مِنی پاکستان‘ کے بارے میں سُنا ہے؟

انڈیا کی جدوجہد آزادی میں دہلی سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر واقع شہر میرٹھ کا کلیدی کردار رہا ہے۔

سنہ 1857 میں میرٹھ میں پہلی بار ہندوستان پر حکومت کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بندوقیں اٹھی تھیں۔

ہندوستان کی آزادی کے 75 سال بعد اسی میرٹھ کے قینچی بازار کے قریب کام کرنے والے رام لال اکثر اپنے رشتہ داروں سے سنتے ہیں ’یار تو روز مِنی پاکستان کیوں جاتا ہے، میرٹھ میں کہیں اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟‘

رام لال مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’صاحب اب ہم تو ٹھہرے کاریگر، ہمیں صرف مسلمانوں کے یہاں کام کرنے سے مزدوری ملتی ہے۔ ان کے محلوں میں جا کر روزانہ کمانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جسے لوگ منی پاکستان کہتے ہیں ہمارے گھر میں لکشمی جی (دولت کی دیوی) تو وہیں سے آتی ہیں۔’

اگر رام لال کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ میرٹھ شہر میں کسی ہندو یا مسلمان کے لیے کام کرتے ہیں، تو پھر یہ ’منی پاکستان‘ کا بیانیہ کہاں سے نکلا؟

معروف صحافی اور مصنف سعید نقوی کے مطابق ’یہ ان لوگوں کا تحفہ ہے جو نہیں جانتے کہ پاکستان کیوں بنا اور ہندوستان کیوں انڈیا ہی رہا۔‘

سعید نقوی کا کہنا ہے کہ ’میرے کچھ رشتہ دار پاکستان میں آباد ہو گئے تھے اور ہمیشہ یہ بات دہراتے تھے کہ بھائی جان، آپ بہت سیکولر ملک میں رہتے ہیں اور آپ سب کے ساتھ برابری کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اب انھیں بھی شاید میرے حال پر ترس آتا ہو گا۔‘

’ہمارے لوگ‘ اور ’اُن کے لوگ‘

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ تقسیم ہند کی آواز انگریزوں کے دور میں پروان چڑھی اور تیز تر ہوتی چلی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کے ’مفادات کے تحفظ‘ کے لیے کیا گیا تھا، جب کہ ہندو مہاسبھا بھی اسی وقت قائم ہوئی تھی جب کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان معاہدے کے تحت مسلمانوں کو تمام صوبوں میں ’خصوصی حقوق اور تحفظ‘ دیا گیا تھا۔

لیکن ان علاقوں کی ’برانڈنگ‘ آزادی سے قبل والے ہندوستان میں ہی شروع ہو چکی تھی۔

انڈیا مسلم

سیاسی تجزیہ کار ناظمہ پروین نے اپنی کتاب Contested Homelands: Politics of Space and Identity میں خطے کی فرقہ وارانہ تقسیم کی تاریخ کو ’ایک جدید رجحان‘ قرار دیا ہے۔

ناظمہ پروین کے مطابق: ’ہندوستان پر حکمرانی کرنے والی برطانوی حکومت نے مذہب کی بنیاد پر علاقوں کی نشاندہی کی، انھوں نے تین طرح کے علاقے بنائے، ہندو ایریا، مسلم ایریا اور مخلوط زون۔ اب سنہ 1940 میں جب تقسیم کا مطالبہ بڑھنے لگا تو اسی بنیاد پر ہندو راشٹر یا پاکستان کا مطالبہ مزید گہرا ہوتا گیا۔‘

شاید اس کی سب سے بڑی مثال دارالحکومت دہلی میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

شہر کے قرول باغ، پہاڑ گنج، سبزی منڈی اور ملحقہ علاقوں میں اقلیت میں ہی سہی لیکن ایک بڑی مسلم آبادی تھی، جنھیں تقسیم کے دوران دوسرے علاقوں میں جانا پڑا، جہاں ان کے رشتہ دار پہلے سے رہ رہے تھے۔

ظاہر ہے کہ پاکستان سے آنے والے سکھ اور ہندو مہاجرین کو آباد کرنے کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی تھی۔

خاص بات یہ ہے کہ ’سپیشل زونز‘ کے نام سے معروف ان علاقوں کی اس وقت تک کوئی ’قانونی حیثیت‘ نہیں تھی کیونکہ انھیں ’ایمرجنسی کی حالت‘ کے دوران قومی حکومت کے حکم کے ذریعے آباد کیا جا رہا تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں کانگریس کے ایک بڑے رہنما اور آزادی کے بعد جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں وزیر رہنے والے مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم سے تقریباً 24 سال قبل اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آنے والے دنوں میں دو مختلف ممالک میں اقلیتوں کی ’حالت‘ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

انڈین پولیٹیکل سائنس جرنل میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’مولانا ابوالکلام آزاد: ایک تنقیدی جائزہ‘ کے مطابق سنہ 1923 کے کانگریس پارٹی کے اجلاس میں اپنی تقریر میں مولانا آزاد نے کہا تھا کہ ’اگر بادلوں کے بیچ سے کوئی فرشتہ اتر کر آئے اور دلی کے قطب مینار پر بیٹھ کر کہے کہ ہندوستان کو سوراج مل سکتا ہے، صرف ہندو مسلم اتحاد کو چھوڑنا پڑے گا، تو میں سوراج کو چھوڑ کر ہندو مسلم اتحاد کا انتخاب کروں گا۔‘

اس بیان سے ظاہر ہے کہ ملک میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا لہجہ زور پکڑ چکا تھا۔

نامور تاریخ دان عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ ’بٹوارے کے فوراً بعد ’ہمارے لوگ‘ اور ’اُن کے لوگ‘ جیسے بیانیے اکثر نئے رہائشی علاقوں سنے جاتے تھے۔ ’ہمارے لوگ‘ ان سکھ یا ہندوؤں کے لیے تھے جو پاکستان سے آئے تھے اور ’اُن کے لوگ‘ سے مراد پاکستانی مسلمان تھے۔‘

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا: ’یہ درست ہے کہ اینٹی انڈیا یا پرو انڈیا یا اینٹی پاکستان یا منی پاکستان جیسے الفاظ اب عام ہوتے جا رہے ہیں لیکن سنہ 1947 کی تقسیم سے پہلے بھی جب مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے اجلاس ہوتے تھے، مباحثے ہوتے تھے اس وقت بھی یہ الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل اکثر گاندھی جی کے پاس ان مسائل کو لے کر جاتے تھے۔‘

انڈیا مسلم

تب اور اب

واپس سنہ 2013 میں آتے ہیں۔

دنیا کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ایک سچن ٹنڈولکر ممبئی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنا آخری ٹیسٹ کھیل رہے تھے، اس میچ سے قبل وہ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے۔

اس ہفتے پورا ملک ’سچن مے‘ یعنی سچن کے پیرہن میں ڈوب گیا تھا اور ماہرین یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کس طرح سچن کے بلے نے تقریباً دو دہائیوں تک ہر مذہب، ذات اور فرقے کے لوگوں کو متحد کر رکھا تھا۔

ٹیسٹ میچ کا تیسرا دن تھا اور ممبئی کے ایک مقامی اخبار کے ساتویں صفحے پر شائع ایک چھوٹی خبر پر نظریں جمی ہوئی تھیں۔ سرخی تھی ’چھوٹا پاکستان اور تھانے کے بنگلہ دیش کی تحقیقات ہو گی۔‘

ممبئی اور تھانے کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے نالاسوپارہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پر تقریباً 1000 کچی بستیاں ہیں جن میں زیادہ تر مسلمان رہ رہے ہیں۔ اب 2012-2013 کے وسط میں اس جگہ کے شہریوں کے بجلی بلوں میں کئی بار پتے کے طور پر ’چھوٹا پاکستان‘ لکھا دیکھا گیا۔

اس کے کچھ دنوں بعد ممبئی کے میرا بھایندر علاقے میں واقع گاندھی نگر کالونی میں ایک نوزائیدہ بچے کے برتھ سرٹیفکیٹ پر لکھا گیا پتہ ’بنگلہ دیش کچی آبادی‘ تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’انڈیا کا سندھ‘ جہاں رہنے والوں کی کاروباری ذہانت پر باقاعدہ تحقیق کی گئی

انڈیا میں نعرہ لگانے والی طالبہ مسکان: ’میں بالکل پریشان نہیں ہوں‘

انڈیا میں مسلم خواتین کے خلاف نفرت پھیلانے کا نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے؟

معاملے نے طول پکڑ لیا، میڈیا میں خبریں آئيں اور حکومت نے فوری طور پر ’سخت کارروائی‘ کا وعدہ کیا۔

لیکن آج بھی ان دونوں علاقوں کو بول چال میں وہی کہا جاتا ہے جو سنہ 2012-2013 میں سرکاری دستاویز میں ’غلطی سے‘ درج کیا گیا تھا۔

انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش کے جون پور کے رہنے والے منیش یادو گذشتہ 15 برسوں سے ممبئی میں ڈرائیور ہیں۔ انھوں نے کہا: ’جب میں چھوٹا تھا، میں جونپور یا سلطان پور کے کچھ علاقوں کو مسلم بستی یا مسلم کالونی کے طور پر سُنا کرتا تھا۔ ممبئی پہنچ کر میں روزانہ ایک ماہ تک ڈرائیونگ اور سڑکوں کو پہچاننے کی غیر رسمی تربیت کے دوران یہ سنتا تھا، یہ لادن نگر ہے، ہاں چھوٹے پاکستان سے گزرو گے تو بٹوا چھن جائے گا۔آج بھی یہی سنتے ہیں۔‘

لیکن انڈیا میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ’تقسیم سے جو حاصل ہونا تھا وہ مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکا۔‘

مودی 2014 میں پہلی بار حلف لیتے ہوئے

مودی 2014 میں پہلی بار حلف لیتے ہوئے

معروف ادیب صحافی اور بی جے پی کے سابق ایم پی اور نائب صدر بلبیر پنج کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کا مطالبہ کہاں سے آیا؟ یہ مطالبہ پاکستان میں لاہور یا پشاور سے نہیں آیا۔ اس کی مانگ کا 90 فیصد اس وقت کے اترپردیش اور بہار جیسی ریاستوں کے مسلمانوں نے کی تھی اور وہ تقسیم کے بعد وہاں گئے بھی نہیں۔ ان کی ذہنیت بھی وہی ہے، لوگ بھی وہی ہیں۔ انھوں نے صرف دو کام کیے، پہلا مسلم لیگ کا بینر ہٹا کر کانگریس کا بورڈ لگا لیا۔ اور دوسرا 1930 اور 1940 کی دہائی میں جس طرح کانگریس کو گالیاں دیتے تھے، اب بی جے پی کو وہی گالی دیتے ہیں۔‘

دراصل، بلبیر پنج کا اشارہ سنہ 2014 اور اس کے بعد کے سیاسی سماجی انڈیا میں جاری بحث کی جانب ہے۔

بحث یہ ہے کہ جب سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے انڈیا میں اقلیتی طبقہ قدرے ’بے چینی‘ محسوس کر رہا ہے۔

اقلیتوں کی بے چینی

بحث یہ ہے کہ جب سے بی جے پی کی حکومت دوبارہ اقتدار میں آئی ہے، گائے کے تحفظ اور گائے کے ذبیحہ کے معاملات میں کئی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

بحث یہ بھی ہے کہ جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے، اس نے این آر سی اور سی اے اے جیسے شہریت کے متنازع قوانین بنائے ہیں، جن سے ’قوم پرستی‘ کا ایک نیا احساس بیدار ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر ’ہمسایہ ملک پاکستان کی مخالفت‘ اور ’پڑوسی بنگلہ دیش سے آنے والے دراندازوں کو بھگانے‘ کی کوشش نظر آتی ہے۔

بحث یہ بھی ہے کہ جب بھی فرقہ وارانہ کشیدگی یا فسادات کے واقعات ہوتے ہیں تو ’مسلمانوں کو پاکستان بھیج دو‘ یا ’روہنگیا مہاجرین کو برما کی سرحد تک مار بھگاؤ‘ کی آواز بلند ہو جاتی ہے۔

انڈیا مسلم

ان نازک حالات میں ملک میں بسنے والی 25 کروڑ سے زائد اقلیتوں کی بے چینی بھی بڑھ گئی ہے۔

پروفیسر ارچنا گوسوامی بنارس یعنی وارانسی کی کاشی ودیا پیٹھ (یونیورسٹی) میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک این آر سی یا منی پاکستان یا دراندازوں کو باہر نکالو جیسی چیزوں کا تعلق ہے تو پہلی چیز انسانیت ہے۔ ہندو مسلم اس کے بعد آتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ملک کی تقسیم کو پچاس سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن تقسیم کی سیاست ابھی تک جاری ہے جس کے پیچھے ہمارے اپنے لیڈر اور عوام ہیں جو انھیں ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ عام آدمی بھی اس چکر میں پڑ گیا ہے تو مبالغہ آرائی ہو گی، کیونکہ عام آدمی کمانے اور کھانے کی جدوجہد کر رہا ہے، اب منی پاکستان اور مندر مسجد کرنے کے بجائے سماجی اور معاشی چیلنجز پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘

لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ انڈیا میں کئی نسلیں ’منی پاکستان‘ یا ’بنگلہ دیشی کالونی‘ جیسے خیالات کو دیکھتے اور سنتے ہوئے پروان چڑھی ہیں۔ ان کے ذہن میں پہلے بھی سوالات تھے اور آج بھی ہیں۔

ریاست مہاراشٹر کے بڑے شہروں میں اورنگ آباد بھی شامل ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق یہاں کی آبادی کا 31 فیصد اقلیتی مسلمان ہیں۔

بی بی سی کے ساتھی اور سینیئر صحافی آشیش دیکشت بھی اورنگ آباد میں پلے بڑھے، جہاں ہندو مسلم فسادات اور مراٹھا بمقابلہ دلت فسادات کی تاریخ رہی ہے۔ لیکن ان کی اپنے شہر کی یادیں ’یہاں‘ یا ’وہاں‘ کی ہیں۔

آشیش یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’کیونکہ شہر کے زیادہ تر علاقے مذہب اور کام کی بنیاد پر نشان زد ہیں تو جب میں بڑا ہو رہا تھا تو کبھی بھی مسلم علاقوں میں جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ سکول، ٹیوشن، بازار، تھیئٹر جیسی تمام چیزیں اپنے علاقوں میں ہوتی تھیں۔ کالج جاتے ہوئے ایک بار جب میں مسلم آبادی کے گنجان آباد علاقے میں پہنچا تو لگا کہ کہیں اور آ گیا ہوں، وہاں سبز جھنڈے اور بورڈ مراٹھی زبان میں نہیں اردو میں لگے تھے۔ پرچار ہوتا تھا کہ سبز جھنڈے، چاند ستارے پاکستان کے ہیں جو کہ سچ نہیں تھا، بہت برا لگ رہا تھا کہ ایسی سوچ اور باتیں کیوں ہوتی ہیں۔‘

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب معاشرے کا ایک پہلو دوسرے کو دیکھتا ہے، اس سے جڑتا ہے تو معاملات بہتر اور آسان ہو جاتے ہیں۔ آج آشیش دیکشت کو بھی خوشی ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے ہی سہی لیکن وہ اورنگ آباد کے اس ‘منی پاکستان’ تک پہنچے تو۔

انھوں نے مزید کہا: ‘پھر وہاں کے مسلمان میرے دوست بنتے چلے گئے۔ ہم نے ایک دوسرے کے گھر ہولی، دیوالی اور عید منانا شروع کر دیا۔’

چاند تارا

امریکہ کی براؤن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر آشوتوش ورشنیے اپنی کتاب 'ایتھنک کنفلکٹ اینڈ سول لائف: ہندوز اینڈ مسلمز ان انڈیا' یعنی 'نسلی تنازع اور شہری زندگی: ہندوستان میں ہندو اور مسلمان' میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معاشرے میں فرقہ وارانہ دوریاں کم کرنے کا راستہ صرف شہری شراکت داری سے ہی ممکن ہے۔

ان کے مطابق: ‘کاروباری تنظیمیں، ٹریڈ یونینز، سیاسی جماعتیں اور پیشہ ور تنظیمیں ذات پات کے تشدد کو روک سکتی ہیں اگر شہریوں میں شراکت بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ایسا کرنے سے وہ طاقتور سیاستدان بھی رکیں گے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق اور پولرائزیشن کرتے ہیں۔’

گجرات کی ہی مثال لے لیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس ریاست میں کئی فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں۔

آج کی حقیقت یہ ہے کہ ریاستی دارالحکومت احمد آباد، جوہاپورہ میں ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جسے بہت سے لوگ ‘منی پاکستان’ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ مقامی لوگ علاقے اور ملحقہ ہندو اکثریت والے ویجل پور کے درمیان سڑک کو ‘واہگہ بارڈر’ کہتے ہیں۔

انڈیا مسلم

پتے پر پاکستان لکھا ہے

سنہ 2015 میں ہونے والی ایک آپسی جھڑپ میں اقلیتی برادری کے دو نوجوان بھی ملوث تھے اور ان کے خلاف درج ایف آئی آر میں ان کے پتے پر ’پاکستان‘ لکھا گیا تھا۔

اس وقت کے ہوم سیکریٹری جی ایس ملک نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کبھی کبھی شکایت درج کرتے وقت شکایت کنندہ یا شکایت درج کرنے والے سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے، ہم نے اس غلطی کو فوری طور پر ٹھیک کر دیا ہے۔‘

گجرات سے تعلق رکھنے والے ماہر عمرانیات پروفیسر گورانگ جانی اس کی بابت یاد دہانی پر بالکل حیران نہیں ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ ‘سچ یہ ہے کہ دونوں برادریاں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں، کاروبار ہو یا زراعت، لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی توجہ دلائی، اس لیے عملی اتحاد کو بھی فروغ نہیں دیا گیا۔ یہ نہ صرف نظام کی ناکامی ہے بلکہ ان سیاسی جماعتوں کی بھی ناکامی ہے جو آئین کو نہیں سمجھ سکیں۔ آج کسی بھی پارٹی کے کارکن کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تاریخ کا علم تک نہیں۔ میں نے خود گجرات کے ایک سکول سے تعلیم حاصل کی ہے لیکن کبھی سکول میں عید مناتے نہیں دیکھا، لوگ گھروں کے کھانے کی میزوں پر ‘منی پاکستان’ پر بات کرتے تھے، آج کے معاشرے میں اسے سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔’

اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان برادریوں پر کیا گزرتی ہے جن پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ‘ان کا تعلق انڈیا سے نہیں ہے’، ‘وہ بنگلہ دیش سے یہاں مفت گھر حاصل کرنے اور اپنی غربت دور کرنے کے لیے آئے ہیں’، ‘وہ آئی ایس آئی کے گڑھ بن سکتے ہیں’، وغیرہ.

انڈیا مسلم

اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ایک علاقہ سنجر پور ہے۔ کچھ سال پہلے، وہاں کئی دفعہ میرا جانا ہوا کیونکہ اس علاقے کے بہت سے نوجوانوں پر قومی سلامتی ایکٹ اور پوٹا جیسے سنگین قانون کی دفعات کے تحت مقدمات چل رہے تھے۔

معاملہ سنجر پور کے چند خاندانوں سے منسلک تھا۔ لیکن علاقے کے ہر دوسرے گھر میں شادیوں کے لیے رشتے آنے بند ہو گئے تھے، نوجوان دوسرے شہر میں گھر کے مختلف پتے دینے ہوتے تھے تاکہ انھیں کرائے پر کمرہ مل سکے۔

گاؤں کے سابق سربراہ عمران کاظمی نے کہا تھا کہ ‘پتہ نہیں چلا کہ کب ہم سنجر پور والے سے آئی ایس آئی اور پاکستانی عوام میں بدل گئے۔’

اس کا جواب مورخ پروفیسر عرفان حبیب نے دیا۔

انھوں نے کہا: ‘اس طرح کی بیان بازی سے کمیونٹیز کو صدمہ پہنچایا جاتا ہے یا کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ ان کے لیے نوکریاں ختم ہو جاتی ہیں، آجروں کو ڈر ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کو رکھیں گے تو کل وہ کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔

‘انڈیا کے آئین میں لکھا ہے کہ ملک کے سیاسی نظام کو چلانے میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس سے نہ صرف اقلیت بلکہ اکثریتی آبادی کو بھی طویل المدتی نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ پھر ہر چیز میں مذہب کیا کہتا ہے پر توجہ دی جائے گی تو پھر عقل کیا کہتی ہے اسے کون سنے گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments