عقوبت دے کر اعتراف کرانا کیا جائز ہے؟


پولیس اور طاقت سے وابستہ دیگر اداروں میں تشدد کے سبب ملزم کی موت کا ہر واقعہ عیاں کر دیتا ہے کہ نو آبادکارانہ طرز حکمرانی ختم ہونے کے پون صدی بعد بھی پاکستان میں طاقت سے وابستہ شہری و غیر شہری/ عسکری تفتیش کار تفتیش کرنے کا وہی طریق اختیار کیے ہوئے ہیں جو سمندر پار سے آئے غاصب حکمرانوں نے وضع کیا تھا۔

دلچسپ اور خوش آئند بات یہ ہے کہ نو آبادکار ملک اس طرز تفتیش سے تقریباً صدی پہلے نجات حاصل کر چکے ہیں۔ اب تک قانون شکن افراد سے اعتراف کرانے کے کئی نفسیاتی طریقے وضع کیے جا چکے ہیں جن میں سب سے موثر طریقہ پہلے ثبوت اکٹھے کیے جانا اور پھر باتوں کو بدل بدل کر استفسار کرنا ہے۔ یہی طریقہ عام ماہرین نفسیات بھی نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد پر عارضے کے اسباب کی حقیقت اگلوانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طریقے سے حاصل شدہ معلومات میں غلطی کا امکان دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا۔

اس کے برعکس تشدد اور عقوبت کے تحت حاصل کردہ معلومات کی صحت 30 فیصد اور بعض اوقات پچاس فیصد کم ہوتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ کمزور شخص بسا اوقات مارے ڈر کے وہ الزامات بھی اپنے سر لے لیتا ہے جو اس پر صادق نہیں آتے۔

ہمارے جیسے ملکوں کے تفتیش کاروں کی تھرڈ ڈگری استعمال کرنے سے متعلق توجیہہ یہ ہوتی ہے کہ مجرم بہت ہی ہٹ دھرم ہوتے ہیں جو بغیر سختی کیے مان کر نہیں دیتے۔ اس موقف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی جرم ”منوا لینا“ ہی ہمارے ہاں کے تفتیش کاروں کا اصل مقصد ہوتا ہے جبکہ درحقیقت تفتیش کار کا کام جرم کے اسباب، اس کے پس پشت عوامل، جرم پر ابھارنے والے عوامل و افراد اور جرم کی دوسرے معاملات کے ساتھ جڑت سے متعلق جاننا ہوتا ہے۔ یہ وہ معلومات ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر جرائم سے نمٹنے کے طریقے اور پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں۔

ہمارے ملک میں کسی کو کچھ لوگوں کے سامنے ننگا کر دیا جانا ہی اس شخص کے ضمیر کو انتہائی ٹھیس پہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں دوستوں کے ساتھ بھی عریاں ہونے کا چلن نہیں ہے جیسے مغربی ملکوں میں ننگے ساحلوں یا بھاپ کا غسل لینے کے حماموں میں دوست ایسا کرنے کو ایک عموم لیتے ہیں۔ ہمارے مذہب، ہماری معاشرت اور ہماری نفسیات کے حوالے سے یہ نہ صرف اخلاق سے گری ہوئی بلکہ انسانیت سوز حرکت ہے۔

تشدد کے وہ طریقے جو بالعموم آزمائے جاتے ہیں اب بہت سے ملکوں میں متروک ہو چکے ہیں اور ایسا کیا جانا تہذیب اور اخلاقیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ناخن کھینچ کر نکال دینا، ہڈیوں میں کیلیں ٹھونکنا، درخت سے لٹکا کر کئی لوگوں کی موجودگی میں عریاں عقب پر روایتی ”چھتر“ مارنا، کرنٹ لگانا یہ سب ماسوائے اذیت پرستی کے اور کچھ نہیں کہلا سکتے۔ قابو میں آیا اور قید کیا ہوا شخص تو ویسے ہی بے بس ہوتا ہے۔

تفتیش کے لیے اذیت دہی کے طریقے کیوں اختیار کیے جاتے ہیں؟ اس کی بڑی وجہ کام چوری ہے۔ ثبوت اکٹھے کرنے اور کراس کویسچننگ کرنے میں مشقت بھی کرنی پڑتی ہے اور محنت بھی، وقت بھی صرف ہوتا ہے اور مناسب تکنیک سے آگاہی ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ کڑھے ہوئے مجرم اس سے بچنے کا ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنی ”جارحیت سب سے بڑا دفاع ہوتا ہے“ وہ پہلے ہی ہلے میں تفتیش کاروں اور معاونین پہ پل پڑتے ہیں۔ متاثرین اشتعال میں آ کر اسے اس قدر مارتے ہیں کہ مجرم بے ہوش ہو جاتا ہے، پھر اس سے پوچھ لو جو پوچھنا ہے۔

دوسری وجوہات میں نام بنانا (نمبر بنانا) افسران بالا کو اپنی جھوٹی کارکردگی سے خوش کرنا، جن جرائم کی تفتیش نہ کی جا سکی ہو ان کو بھی کسی کے کھاتے میں ڈال دینا، سخت افسر یا اہلکار مشہور ہونے کی خواہش تاکہ ایسے مقامات پر تعینات ہو سکیں جہاں جرائم زیادہ ہوتے ہوں تاکہ اوپر کی آمدنی زیادہ ہو۔

ویسے تو تعزیرات پاکستان کے تحت ملزم پر تشدد کیا جانا بذات خود جرم ہے لیکن یہ ہوتا ہے اور عام عدالتوں سے لے کر عدالت ہائے عالیہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ پاکستان میں چونکہ قانون کو کوئی بھی پر کاہ کی حیثیت نہیں دیتا اس لیے باقی غلط معاملات کی طرح اذیت دہی کا عمل بھی جاری ہے۔ تاہم یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے جس سے متعلق قانون گواہ ہے کہ اذیت، تشدد اور عقوبت برتے جانے سے حاصل کردہ اعتراف یکسر ناجائز ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments