پاکستان میں میڈیا کا بحران


تلخیص و تبصرہ: مہ ناز رحمن

ٓآج میں آپ کو میڈیا کے بحران کے بارے میں توصیف احمد خان اور عرفان عزیز کی تحقیق و تالیف پر مبنی کتاب کے بارے میں بتاؤں گی۔ بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ ایک اکیلا، دو گیارہ۔ تو واقعی ان دو صاحبان نے کمال کر دکھایا ہے اور میڈیا کے بحران کی گہرائیوں میں جا کے اس کے بنیادی اسباب اور میڈیا سے وابستہ لوگوں پر گزرنے والی مصیبتوں اور آفتوں کو سامنے لائے ہیں۔ یہ کتاب ان دونوں حضرات کی تین سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔

میں توصیف احمد خان کی اس رائے سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کہ پاکستان کی چوہتر (اگست میں پچھتر) سالہ تاریخ ذرائع ابلاغ کو ریاستی بیانیے کی ترویج پر مجبور کرنے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی پاسداری اور مظلوم طبقات کے حقوق کے دفاع کے بیانیے کی اشاعت کو روکنے کی تاریخ ہے مگر حالیہ برسوں میں ذرائع ابلاغ پر نظر نہ آنے والی پابندیوں اور ذرائع ابلاغ کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کی ریاستی پابندیوں نے میڈیا کے اداروں کے لئے ایک ایسا بحران پیدا کر دیا ہے جس کی بر صغیر کی دو سو سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ دوسری طرف عرفان صاحب صحافیوں کی بے روزگاری اور اشتہارات کے واجبات کی عدم ادائیگی کے علاوہ اس پریشانی کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ان حالات میں نجی تعلیمی اداروں میں میڈیا کے شعبے میں داخلہ لینے والے طالب علموں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔

اس کتاب میں میڈیا کے اداروں کے بزنس ماڈل پر بھی بات کی گئی ہے اور تجویز پیش کی گئی ہے کہ:

میڈیا کے اداروں کے لئے جمہوری طرز کی نئی اور جامع قانون سازی، ای کامرس کی سہولیات، ہتک عزت کے قوانین، کاپی رائٹس، ارتکاز ملکیت، تمام صوبوں اور قومیتوں پر مشتمل جامع قومی ثقافتی پالیسی، میڈیا کے اداروں کے قیام میں کثیر سرمائے کی حوصلہ شکنی اور میڈیا میں کام کرنے والے افراد کے لئے بہتر اور قابل اعتماد حالات کار کی فراہمی، ایسے اقدامات ہو سکتے ہیں جن سے میڈیا کے اداروں کی کاروباری منفعت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مؤلفین نے ذرائع ابلاغ کی ملکیت اور میڈیا کے حوالے سے معیشت اور سیاست پر بات کرتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ میڈیا کا گھیراؤ کیسے کیا جاتا ہے۔

اس کتاب میں پاکستان میں میڈیا سے متعلق حقائق اور اہم واقعات واقعی چشم کشا ہیں۔ ہمیں مصنفین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ ایسے پس پردہ حقائق سامنے لائے ہیں جن سے عام قاری و ناظر بے خبر تھا۔ مثال کے طور پر کتنے لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان میں نجی ملکیت میں الیکٹرانک میڈیا کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کہ کارگل کی جنگ کے بعد دفاعی ماہرین نے بھارت کی رائے عامہ کے میدان میں کامیابی کو نجی ملکیت میں قائم میڈیا کے اداروں کا مرہون منت قرار دیا تھا اور پاکستانی ریاست پر زور دیا تھا کہ وہ بھی ملک میں نجی ملکیت میں میڈیا کے اداروں کے قیام کی اجازت دے چنانچہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے ملک میں میڈیا کے اداروں کی نجی ملکیت میں قیام کی باقاعدہ اجازت دے دی۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام 2002 میں عمل میں آیا تا کہ میڈیا کے ان اداروں کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔ 2007 میں ملک میں سیاسی افراتفری شروع ہوئی تو پرویز مشرف نے میڈیا کی آزادی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ مشرف حکومت کے آخری دور میں ملک میں پھیلے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کے عفریت سے عسکری ادارے اور مقتدر حلقے سخت پریشان تھے۔ میڈیا کو قابو میں کرنے (Media Capture) کے لئے خفیہ آپریشن کا آغاز درحقیقت اسی وقت شروع ہو گیا تھا۔

مصنفین نے پاکستان میں میڈیا کی مارکیٹ کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق میڈیا کے میدان میں 2002 سے لے کر 2017 تک چار بلین امریکی ڈالروں کی سرمایہ کاری ہوئی جب کہ 2018 کے لئے ایک محتاط اندازے کے مطابق مجموعی سرمایہ کاری کو بڑھ کر پانچ بلین تک ہونا تھا لیکن 2018 کے اواخر میں میڈیا کے لئے بری خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ جنوبی ایشیا کی سب سے متحرک میڈیا مارکیٹ نے دو ہزار سے زائد صحافیوں کو بے روز گار کر دیا۔

میڈیا کے مختلف ادارے بند ہونے پر مجبور ہو گئے۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی، اس کے بعد ملک کے معاشی حالات تیزی سے ابتری کا شکار ہوئے۔ حکومت کی جانب سے میڈیا کے اداروں کے لئے امدادی رقوم واپس لینے کا فیصلہ ہوا اور میڈیا کے اداروں کے لئے اشتہارات کی آمدنی کم ہو گئی۔ جنگ گروپ نے اپنی تین پبلیکیشنز کو بند کر دیا اور 1400 صحافیوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ایکسپریس اور دنیا میڈیا گروپس میں سے بھی دو سو سے زائد صحافی بے روز گار ہو گئے۔ باقی رہ جانے والے بہت سے صحافیوں کی تنخواہوں میں پندرہ سے پینتیس فی صد کمی کر دی گئی جب کہ بہت سے اداروں میں گزشتہ آٹھ سالوں سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔

ابتدائی تخمینوں کے بر خلاف 2018 کے اختتام تک میڈیا کی صنعت ترقی کی بجائے تباہی کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک موقع پر کسی بھی ٹی وی چینل کے ملازمین کو تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جا رہی تھیں۔ مختلف یونیورسٹیوں میں میڈیا سائنس اور ابلاغ عامہ کے پروگرامز داخلے نہ ہونے کے سبب بند کر دیے گئے۔

پاکستان میں میڈیا کے اداروں سے متعلق چند اہم حقائق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نجی اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اداروں کے لئے علیحدہ علیحدہ قوانین ہیں اور یوں میڈیا کی صنعت کے لئے صحت مند مسابقت کا ماحول پیدا نہیں ہو پاتا۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔ انگریزوں کے دور میں شروع ہونے والا پریس ایڈوائس کا سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا جسے جونیجو حکومت نے ختم کیا۔ اخبارات پر پری سنسرشپ کا آغاز 1953 میں قادیانی مخالف فسادات کے بعد ہوا۔ ایوب اور یحییٰ کے دور میں بھی ایسی پابندیاں لگائی گئیں۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں جب جون 1972 میں سندھ میں لسانی فسادات شروع ہوئے تو وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو نے سندھ میں پری سنسرشپ نافذ کر دی تھی جو متحارب لسانی گروہوں میں معاہدے کے بعد ختم کر دی گئی۔

اس کتاب کے دو ابواب جن کا میں خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گی، بلوچستان اور سندھ میں میڈیا کے بحران کے بارے میں ہیں۔ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ اور دوسری طرف کالعدم تنظیموں کا من پسند مواد کی اشاعت کے لئے میڈیا پر دباؤ رہتا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان میں 2007 سے 2015 تک تشدد کے مختلف واقعات میں انتیس میڈیا ورکرز جاں بحق ہوئے۔ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر خضدار گزشتہ دو عشروں میں صحافیوں کے قتل کی مسلسل وارداتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہو چکا ہے۔

سندھ کے حوالے سے سہیل سانگی لکھتے ہیں کہ اسی80 کی دہائی میں جنرل ضیا کے خلاف بحالیٔ جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی نے سندھ کے شہروں دیہاتوں میں جو سیاسی شعور پیدا کیا، اس وقت کے سندھی اخبارات اس کی پوری طرح کوریج میں ناکام رہے۔ سندھی میڈیا میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب سیاسی کارکن صحافت میں شامل ہوئے۔ یہ لوگ بائیں بازو کی تحریکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا فکری اور سیاسی رجحان اور جدوجہد اسٹیبلشمنٹ یا حکمراں طبقات کے خلاف تھی۔ یوں ایک نئی سندھی صحافت نے جنم لیا۔ سندھ میں سندھی پریس نے باقاعدہ مزاحمتی کردار ادا کرنا شروع کیا۔ بائیں بازو کے لوگوں کے سندھی پریس میں شامل ہونے سے پریس ریڈیکل ہو گیا۔ مزاحمتی سیاسی بیانیہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا۔

اس کتاب میں جیو نیوز کی بندش، حامد میر پر حملہ، روزنامہ جنگ کا بحران، ڈان لیکس، ماہنامہ ہیرالڈ کیوں اور کیسے بند ہوا، نیوز لائن پر کیا گزری، نوائے وقت کا بحران، ایکسپریس گروپ، روزنامہ امت، آپ نیوز چینل اور دنیا گروپ کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ سندھ میں میڈیا کے بحران کے حوالے سے ”شرجیل میمن کیس“ کو جاننا بہت ضروری ہے۔ اس کتاب میں آپ کو اس کی تفصیلات مل جائیں گی۔ اس حوالے سے کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے مقدمے کی تفصیل بھی ملے گی۔ اس کتاب میں میڈیا بحران کے دوران تشدد، لا پتہ اور قید کیے جانے والے صحافیوں کی تفصیلات بھی ملیں گی جن سے میڈیا کی بحرانی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

اس کتاب کا باب سوم بھی خاصے کی چیز ہے، میڈیا کے لئے قوانین اور سیاسی ادارے : ریاست کیا چاہتی ہے، پڑھنا ضروری ہے۔ اس دور میں جب کتابیں لکھنے اور پڑھنے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔ اور تحقیق طلب موضوعات کو تو لوگ بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ توصیف احمد خان اور عرفان عزیز کو اس کاوش پر مبارکباد دینی چاہیے۔ یہ دونوں حضرات ہمارے شکریے کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments