سازش کیا اور کس کے خلاف؟


بھئی! سازش تو ہوئی ہے۔ لیکن سازش کیا ہوئی ہے اور کس کے خلاف ہوئی ہے؟ یہ بنیادی سوالات اس تحریر کے محرکات ہیں۔ مورخہ 10 اپریل 2022 رات تقریباً 12 بجکر 30 منٹ پر پاکستان کے اس وقت تک کے وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی میں 176اراکین کے ووٹوں سے منظور کر لی گئی۔ رات کے اس پہر حکومت کا جانا! گویا یوں لگتا تھا جیسے ماضی کی طرح عسکری اداروں کی جانب سے مارشل لا کی طرز پر حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہو۔

لیکن درحقیقت یہ عدالت عالیہ کا حکم تھا کہ 9 اپریل 2022 کے روز ہر حالت میں قرارداد پیش کی جائے اور آئینی گنجائش کے تحت یہ عمل سر انجان دیا گیا تھا۔ 1973 ء کے آئین کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستانی قومی اسمبلی کے سربراہ کے خلاف اراکین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ اسی اصول کے تحت 8 مارچ 2022ء کو حزب اختلاف کے 163اراکین کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی درخواست جمع کروا دی گئی۔

اس قرارداد کو روکنے کی حکومت نے سر توڑ کوششیں کی۔ ہر سطح پر اس کے خلاف محاذ بنایا گیا قومی اور بین الاقوامی رابطوں کی ایک مہم چلائی گئی۔ قومی سطح پر تو غیر جانبداری کا اشارہ ملا۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر کچھ پیغامات قرار داد کے حق میں اور چند اس کے خلاف موصول ہوئے۔ ان میں سے ایک پیغام امریکہ میں تعینات پاکستان کے صفیر کی جانب سے بھی تھا، جس میں تحریک کامیاب کروانے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں معاف کر دیا جائے گا ورنہ پاکستان کو منفی نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

اس تحریر کے حوالے سے بھی مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ کا خیال تھا کہ تحریر حقیقت پر مبنی ہے اور پاکستان میں حکومت گرانے کی بیرونی سازش کی گئی ہے۔ جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ یہ تحریر پی ٹی آئی حکومت کی فرمائش پر لکھی گئی ہے۔ گویا کھیل کا مرکزی عنصر وہ تحریر تھی جو امریکہ میں تعینات پاکستانی صفیر کی جانب سے دفتر خارجہ کو بھیجی گئی۔ کیونکہ تحریر کا متن ہمیں دستیاب نہیں ہے لہٰذا اس کے مشتملات کا تجزیہ کرنا تو ممکن نہیں مگر تحریر کے حوالے سے پیش کیے جانے والے مفروضوں پر تو قلم آرائی کی جا سکتی ہے۔

مفروضہ 1: بیرونی سازش۔
مفروضہ 2: خودساختہ تختہ پلٹ۔

بیرونی سازش :

تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں ہر حکومت کو ہر دور میں اندرونی اور بیرونی سازوں کا سامنا رہا ہے۔ ان سازشوں کا مقصد کبھی تسلط حاصل کرنا اور کبھی اپنا کٹھ پتلی نمائندہ اقتدار میں لا کر مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے موجودہ حالات کے حوالے سے بات کی جائے تو بیرونی اعتبار سے پاکستان میں استحکام سے سب سے بڑا خطرہ بھارت اور اسرائیل کو ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کا جوہری پروگرام ہے جو مغربی طاقتوں کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

پاکستان کو جوہری اعتبار سے غیر مسلح کرنے کے حوالے سے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی کوششیں جاری ہیں۔ جن کا مقصد پاکستان کو ایک غیر فعال ریاست بنا کر اس کے جوہری ہتھیار حاصل کرنا ہے۔ اس کی ایک مثال یوکرائین حکومت کا مالی امداد کے عیوض جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ معاشی اعتبار سے یہی صورت حال اس وقت پاکستان کی بھی ہے۔ تمام مالی شماریاتی اشارے منفی اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔

ماضیٔ قریب پر نظر دوڑائیں تو اکیسویں صدی کا آغاز پاکستان میں مارشل لا سے ہوا۔ پہلی دہائی کے آٹھ سال پاکستانی معیشت قدر بہتر رہی قرضہ کم ہوا، فی کس آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نظر آیا۔ لیکن 2008ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سے تنزلی آنا شروع ہوئی۔ آصف علی زرداری بحیثیت صدر پاکستان اقتدار میں آ گئے، جو ماضی میں حضرت دس فیصد کے لقب سے مشہور عام تھے اور آپ کے اوصاف پیشہ ور معاشی جلاد (Economic Hit Man) کی تعریف پر بھی پورے اترتے تھے۔

آپ کا پہلا ہدف پاکستانی مستحکم ہوتی معیشت تھا جو بتدریج ترقی کر رہی تھی۔ اسے غیر مستحکم کرنے کے غرض سے دل کھول کر ساری دنیا سے قرضے لئے گئے جبکہ اس وقت ان قرضوں کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ دہشتگردی کا وہ طوفان بپا تھا جو کسی دور میں بھی نہیں رہا تھا۔ ایسا تاریک دور پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ کسی کی جان و مال محفوظ نہ تھا۔ کاروباری افراد جان کے خوف سے اہل و عیال سمیت ترک وطن پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ تاہم نون لیگ برسر اقتدار ہوئی اور دہشتگردی کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا۔

اس خلفشار کے دوران ایک بار پھر قرضے لئے گئے جنہیں واپس کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ یو اس دور میں دہشتگردی کا طوفان تو تھم گیا لیکن سیاسی اور جمہوری آندھیاں چلنے لگیں جس کی وجہ سے پہلے نواز شریف نا اہل ہوئے اور بعد ازاں عمران خان نیازی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے ملک کے نئے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ امید کے بر خلاف انہوں نے غیر مناسب معاشی اقدامات اور مزید قرضوں کے ذریعے گزشتہ حکمرانوں کی روش اپناتے ہوئے معیشت کو مزید کمزور کرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ معاشی بدحالی اور مہنگائی کے سبب ان کی عوامی مقبولیت دن بہ دن گرنے لگی۔

اس تناظر میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے خارجی دشمنوں کی امیدوں کے عین مطابق پاکستان معاشی طور پر ڈوب چکا تھا۔ گویا عمران خان (جن کا ننھیال قادیانی اور سسرال یہودی ہے ) کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ خاص کر ایسی صورت میں کہ جب ریاست میں امریکہ مخالف نعرہ عوامی مقبولیت کا سبب ہو، اس ملک میں ایک ایسی حکومت کے خلاف سازش کرنا بعید از عقل محسوس ہوتا ہے جو امریکی مفادات کے عین مطابق معاشی تباہی کا باعث بن رہی ہو۔ وہ بھی سازش مبین یعنی اتنا کھل کر سازش کرنے کی کوئی بھی وجہ میری عقل ناقص میں تو نہیں آ رہی۔

خودساختہ تختہ پلٹ:

تاریخ اس امر کی بھی شاہد ہے کہ دشمن کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بدنامی سے بچنے اور اقتدار برقرار رکھنے کے غرض سے خود بھی تھوڑا نقصان اٹھا لیا جائے تاکہ عزت و اقتدار بھی محفوظ رہے اور دشمن بھی تباہ ہو جائے۔ ایسی ٹیڑھی چالیں چلنے والے شاطر سیاستدان پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ جن میں سب سے بڑا نام سابق صدر آصف علی زرداری کا سامنے آتا ہے۔ جو اپنی زوجہ محترمہ کی وفات کے بعد سب سے بڑے فائدہ مند رہے۔ عمران خان نیازی کے قول و فیل کا بغور مشاہدہ کرنے سے ان کے بھولے پن اور سادگی کے پیچھے چھپی شاطر دماغی اور بناوٹ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن ان کی شخصیت کے مطالعے کے بعد یہ رائے قائم کرنا کہ وہ سیاسی بقا کے لئے اس قسم کی کوئی شاطرانہ چال چلیں گے، ممکن نظر نہیں آتا۔ جیسا کہ تحریر کے شروع میں اندرونی اور بیرونی رابطوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک رابطہ عمران خان اور آصف زرداری کے مابین بھی ہوا تھا۔ جس میں پی ٹی آئی حکومت کی مدت پوری کرنے کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ لیکن اطلاع یہ ہے کہ زرداری صاحب نے پیشکش مسترد کر دی تھی۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیرونی نہ سہی لیکن اندرونی طور پر آصف زرداری عمران حکومت کے خلاف سازش کنندہ کان میں صف اول پر فائض تھے۔ گویا یہ بات کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ بظاہر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف آصف زرداری کی اندرونی سازش کامیاب ہو گئی۔

لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ ہی رہے یعنی دراصل سازش کیا ہوئی اور کس کے خلاف ہوئی؟ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ عمران حکومت کے خلاف سازش ہوئی۔ لیکن اگر ان کی مجموعی کارکردگی دیکھی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ ان کی حکومت گرانے کے لئے کسی سازش کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لوگ معاشی پالیسی کی وجہ سے ان کی حکومت سے تنگ آچکے تھے، تبدیلی کا نعرہ ایک مذاق بن چکا تھا۔ ایسی صورت حال میں انہیں ایک ایسی حکمت عملی (ٹرک کی بتی) کی اشد ضرورت تھی جس کے تحت عوام ان کی معاشی بد نظمیاں اور مالی بد عنوانیاں یکسر فراموش کر دے۔

یہ موقع انہیں تحریک عدم اعتماد نے فراہم کر دیا اور مبینہ امریکی خط نے ان کا بیرونی سازش والا بیانۂ مقبول عام کر دیا اور پاکستان کے عوام جنہیں مغربی طاقتیں پاکستان اور حقیقی آزادی کے درمیان دیوار نظر آتی ہیں، انہوں نے اس بیانئے کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی عمران حکومت کی برترفی پر اپنے اپنے علاقوں میں احتجاج کیا۔

اسی تناظر میں سازش کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح ہو جائے گا کہ سازش تو ہوئی ہے مگر یہ سازش عمران خان نیازی کو حکومت میں دوبارہ لانے اور اپنا ادھورا مشن پورا کرنے کے لئے کی گئی ہے۔ کیونکہ ایسی معاشی صورت حال میں نون لیگی حکومت ملک چلانے کی کوشش کرے گی تو وہ عوامی نفرت و تنقید کا نشانہ ضرور بنے گی۔ جبکہ عمران خان اپنی بد انتظامیوں سمیت آج عوام کے درمیان پہلے سے زیادہ مقبول ہیں اور ان کو پھر سے اقتدار میں لانے کی باتیں زبان زد عام ہیں۔

زرداری صاحب بمعہ اہل و عیال سندھ میں سکون کی بانسری بجا رہے ہیں اور وفاقی مراعتیں بھی وصول کر رہے ہیں۔ گویا اس تمام تر صورت حال کے سب سے بڑے فائدہ مند آصف علی زرداری اور عمران احمد خان نیازی رہے اور ان کا ساتھ دینے والے تمام سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ اور بالخصوص عوام پاکستان سرا سر خسارے میں رہے۔ اسے کہتے ہیں سانپ بھی مارا جائے اور لاٹھی بھی سلامت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments