وفاقی شرعی عدالت اور مسئلہ ربا (تازہ ترین فیصلہ) پہلی قسط


وفاقی شرعی عدالت، جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 203 سی کے تحت 1980 میں قائم کی گئی تھی، نے اپنے فیصلے مؤرخہ 14 نومبر 1991 کے تحت ’ربا‘ کو، اپنی تمام شکلوں اور صورتوں میں، قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ نے اپنے فیصلے مؤرخہ 23 دسمبر 1999 کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو درست قرار دیا اور یوں ربا/سود سے متعلقہ 8 مختلف قوانین کو مکمل طور پر اور 17 قوانین کی مختلف شقوں کو اسلام کی تعلیمات کے خلاف قرار دے دیا۔

عدالت عظمیٰ نے حکومت کو انٹرسٹ فری قرضوں اور پاکستانی معاشی قوانین بارے ضروری اقدامات لینے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ لیکن بعد میں یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ کی نظرثانی پٹیشن منظور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے مؤرخہ 24 جون 2002 کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کو سود سے متعلقہ تمام معاملات کو دنیا میں موجود مسلمان ممالک کے معاشی نظامات کے تقابلی مطالعے اور تفصیلی تحقیق کے بعد دوبارہ تعین کرنے کا حکم دے دیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے 2013 میں کیس کی سماعت شروع کی اور تقریباً 60 کے قریب تاریخ سماعت مقرر کرنے کے بعد مؤرخہ 28 اپریل 2022 (تقریباً 20 سال بعد ) ایک دفعہ پھر اپنا فیصلہ ( 300 سے زائد صفحات پر مشتمل ) جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو 31 دسمبر 2027 تک پاکستانی معیشت کو ربا/انٹرسٹ فری بنانے کی ہدایات جاری کر دیں۔

ان 20 سالوں کے اندر جو سب سے بڑی تبدیلی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیکھنے میں آئی وہ تھی ”اسلامک بینکنگ/فنانسنگ یا انٹرسٹ فری بینکنگ“ ، جو پہلے محض علمی بحثوں تک محدود تھی، اب اس دوران ایک عملی حقیقت بن کر سامنے آ چکی تھی۔ ان سالوں کے دوران اسلامک بینکنگ سے نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب والے لوگ بھی، بین الاقوامی بنکوں جیسا کہ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ اور ہانگ کانگ شنگھائی بنک وغیرہ کے ذریعے سے، فائدہ اٹھانے لگے۔ مزید براں، ورلڈ بنک، ایشین ترقیاتی بنک اور آئی ایم ایف وغیرہ نے بھی اسلامک بینکنگ کو بطور پالیسی شامل کر لیا۔

موجودہ فیصلے مؤرخہ 28 اپریل 2022 میں وفاقی شرعی عدالت نے دنیا کے مختلف اسلامی اسکالرز کی آراء، جو قرض پر سود بارے نرم گوشہ رکھتے ہیں، کو اکٹھا کر کے ان کا او آئی سی کی انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی اور آڈیٹنگ اینڈ اکاؤنٹنگ آرگنائزیشن آف اسلامک فنانس انسٹیٹیوٹ وغیرہ جیسے اداروں کی روشنی میں جائزہ بھی لیا ہے۔ مذکورہ اسکالرز کی آراء کو مندرجہ ذیل نکات میں یوں اکٹھا کیا گیا ہے :۔

1۔ ربا صرف ذاتی استعمال کے لئے لیے گئے قرض پر منع ہے جبکہ کمرشل اور پیداواری استعمال کے لئے لیے گئے قرضوں پر ربا منع نہیں ہے۔

2۔ صرف ربا کی وہ شکلیں جو عرب میں نزول قرآن کے وقت رائج تھیں بس وہی منع ہیں۔
3۔ سودی قرضوں پر ربا منع ہے جبکہ انٹرسٹ جو کہ منصفانہ ہے، وہ منع نہیں ہے۔
4۔ قرض پر دہرا اور اضافے والے انٹرسٹ منع ہے جبکہ سادہ انٹرسٹ منع نہیں ہے۔

مندرجہ بالا نکات اور دیگر باریکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے سود/ربا سے متعلقہ سوالات کو 12 بنیادی نکات کی

صورت میں تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ وہ 12 نکات یہ ہیں :۔
1۔ کیا وفاقی شرعی عدالت کو ربا/سود سے متعلقہ کیسز کو سننے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟

2۔ اسلام (قرآن و سنت) کی تعلیمات کی روشنی میں ’ربا‘ کیا ہے اور مسلمان اسکالرز نے ربا کو کیسے ڈیفائن کیا ہے؟

3۔ کیا ’ربا‘ صرف کمپاؤنڈ انٹرسٹ تک محدود ہے؟ اور قرضوں پر صرف کمپاؤنڈ انٹرسٹ منع ہے؟ کیا سادہ انٹرسٹ منع نہیں ہے؟

4۔ کیا قرض پر سود کی شرح میں تبدیلی سے اسلام میں سود کی حرمت بدل جاتی ہے یا نہیں؟ اور کیا یوزری اور انٹرسٹ میں فرق ہے؟

5۔ کیا صرف ذاتی ضرورت پر لیے گئے قرضے پر انٹرسٹ منع ہے جبکہ پیداواری اور کمرشل قرضوں پر انٹرسٹ اسلام میں منع نہیں ہے؟

6۔ کیا اسلامک بینکنگ ماڈل پریکٹیکل ہے یا نہیں؟ اور کیا اسلامک بینکنگ ’حیلہ‘ کی کوئی قسم ہے؟
7۔ دنیا میں اور خصوصی طور پر اسلامی دنیا اور پاکستان میں اسلامک بینکنگ کا کیا سٹیٹس ہے؟
8۔ اگر لین دین تجارت کے نام پر ہو تو کیا انٹرسٹ یا ربا کی اجازت ہے؟

9۔ کیا پاکستان میں بینکنگ سیکٹر کو معاشی لین دین میں موروثی عدم توازن کو متوازن کرنے کے لیے اشاریہ سازی اور افراط زر کا طریقہ کار اپنانا چاہیے؟

10۔ کیا بینکوں کی طرف سے صارفین کو دیے گئے قرضوں پر انٹرسٹ وصول کرنا ’ربا‘ ہے یا نہیں؟ اور آیا بینک کے جمع کنندگان کی جانب سے بینک میں جمع کرائے جانے پر سود لینا ’ربا‘ ہے یا نہیں؟

11۔ آیا پاکستان کو پہلے سے لیے گئے بین الاقوامی قرضوں پر سود کی ادائیگی یا ربا کے حوالے سے اپنے بین الاقوامی وعدوں کو ماننا ہو گا؟ اور یہ اسلامی احکام کے مطابق حکومت کے مستقبل کے غیرملکی قرضوں سے کیسے نمٹا جائے؟

12۔ کیا وفاقی شرعی عدالت کو حکومت کو روایتی بینکنگ سسٹم کو ربا فری یا سلامی بینکنگ سسٹم میں قانون سازی کے ذریعے تبدیل کرنے کے لئے کوئی ٹائم لائن دینا چاہیے یا نہیں؟

آئندہ اقساط میں ان 12 نکات پر وفاقی شرعی عدالت کے تازہ ترین فیصلے کے چیدہ چیدہ نکات کو بیان کیا جائے گا۔

(جاری ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments