سفید کاغذ


صبح صادق میں ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھنا ہمیشہ سے میرا محبوب منظر رہا ہے جب سپیدہ سحر شب کی ظلمتوں کو چیرتا چلا جاتا ہے تب میرے دل میں خیال آتا ہے کہ صبح کی روشنی نور الہی بن کر رات کی سیاہی میں چھپے گناہوں کو ایسے دھو دیتی ہے جیسے شبنم پھولوں کا منہ دھو دیتی ہے کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ محرومی گناہ کی ماں ہے اور مایوسی گناہ کی ابتداء۔ اچھی بھلی ہی تو زندگی چل رہی تھی۔ خاندانی تلخیاں بچوں کے جھگڑے پیسے کی کمی سب کچھ تھا زندگی میں لیکن پھر بھی زندگی کو روگ نہیں لگا تھا مگر جب دو میں سے کسی ایک کو روگ لگ جائے تو دوسرے کی زندگی بھی روگی ہو جاتی ہے دن اجڑے ہوئے اور راتیں غم کا نوحہ بن جاتی ہیں۔ سانسیں کٹتی ہیں اور نس نس میں زہر گردش کرتا رہتا ہے۔

پہلے پہل میں چڑ چڑی ہوتی رہی برتن توڑتی رہی ٹوٹتی رہی بکھرتی رہی۔ گڑگڑا گڑگڑا کر شفائے کاملہ مانگتی رہی مگر میری دعائیں آسمان سے ٹکرا کر واپس آتی رہیں پھر کہیں سالوں بعد جا کر میرے دل کو صبر کا مرہم لگ گیا۔ غصہ ختم ہوا تو قہقہے بھی ختم ہو گئے بس ایک مسکراہٹ رہ گئی شوخ لباس چھوڑا تو سوکھے لبوں کو شوخ رنگوں سے رنگنا بھی چھوڑ دیا شکوہ چھوڑ دیا۔ روگ کو ایسے محبت سے پالنا سیکھ گئی جیسے نومولود بچہ۔ کہیں اندر میرا آپ خوش رہنے لگا کہ چلو رب کی رحمتوں کا سایہ مل گیا لیکن اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ جو ازل سے ہمیں ملا وہ ابد تک ساتھ رہے گا جب جب دل جنت کا باغ بنے گا تب تب شیطان اپنا وار لے کر آئے گا۔

اجنبی لہجے کا ابر میرے دل پرچھا گیا ایسے لگا جیسے تپتی گرم زمین پر ٹھنڈے پانی کا چھینٹا پڑا۔ وہ ابر ہوا میں اڑا تو میں ننگے پاؤں اس کے پیچھے دوڑنے لگی لیکن جلد ہی کانٹوں سے الجھ کر گر پڑی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو ابر نہیں تھا۔ ہر طرف جھلساتی دھوپ تھی میں روئی تڑپی سر پٹخ پٹخ کر بین ڈالے۔ ایک سوال بار بار خود سے پوچھتی رہی یا شاید رب سے۔ کہ آخر سکون آ جانے کے بعد ایسا کیوں ہوا؟

اب بھی اکثر سوچتی ہوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے جس اعتبار محبت فرض شناسی کی دیوار کو ہم خوش اسلوبی سے تعمیر کرتے ہیں کوئی دوسرا کتنی آسانی سے اس میں نقب لگا جاتا ہے مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ نقب لگ رہا ہے مگر ہم مزے سے اس توڑ پھوڑ کا نظارہ کرتے رہتے ہیں وہ جو دیوار اپنے پندار کی حفاظت کے لئے اٹھائی جاتی ہے وہی دیوار ایسا لگتا ہے کہ ہمارا دم گھونٹ رہی ہے اسی لیے شاید کبھی کبھار ہم نقب زن کے ساتھ مل کر ضرب لگاتے ہیں۔

پہلے پہل بڑی شرم آتی ہے جب دیوار میں پڑنے والے شگاف سے کوئی ہمارے وجود کا نظارہ کرتا ہے جی چاہتا ہے اپنا آپ چھپا لیں مگر جذبے جب تک دل میں رہیں انمول رہتے ہیں لبوں پر آ جائیں تو بے مول ہو جاتے ہیں ہر کوئی انہیں اچک لے جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک میرے جذبے اچک لے جاتا رہا۔ میں بار بار ٹوٹتی رہی شرم کے گڑھوں میں گر کر دفن ہو جانے کی کوشش کرتی رہی۔

ان دنوں جب میری نگاہ ابھرتے سورج کی طرف اٹھتی تب مجھے ایسا لگتا جیسے اللہ کے اور میرے بیچ تمام پردے اٹھتے چلے جا رہے ہوں بظاہر چہرے پر بہنے والے آنسو دل پر لگے معصیت کے میل کو دھوتے رہتے تھے کئی سالوں سے زندگی کتنی عجیب ہو گئی تھی ایسا لگتا تھا کہ وجود دو حصوں میں بٹ چکا ہے توبہ اور گناہ کے دو پلڑوں میں بھر چکا ہے کبھی ایک زیادہ جھکتا ہے تو کبھی دوسرا اور میری روح ہمیشہ ایک خوف کے بیچ جھولتی رہتی کہ کہیں ایسا نہ ہو جب تن سے جدائی کا وقت آئے تو گناہ کا پلڑا بھاری ہو۔ روز محشر کوئی یہ نہ کہہ دے اے گناہ گار آج الگ ہو جا اور میں تیل کی تلچھٹ کی طرح چھٹ جانے والوں میں سے ہو جاؤں۔ برسوں سے میں ایک ایسی دلیل ڈھونڈ نے میں ناکام رہی ہوں جو میرے گناہ کو گناہ نہ رہنے دے لیکن سچ کہوں تو برسوں سے ایک آس بھی نہیں ٹوٹی رحم کی عنایت کی توفیق کی۔

اب تو مجھے اپنا وجود ایک پنگ پانگ کی بال جیسا لگنے لگا ہے توبہ کی توفیق ملتے ہی میں خود کو گناہ سے تیزی سے کھینچ لیتی ہوں لیکن پھر کسی کشش کے زیراثر دگنی تیزی سے گناہ کی طرف بڑھ جاتی ہوں۔ گناہ کے بعد توبہ اور توبہ کے بعد گناہ میرا نصیب بن گیا ہے اس بار بھی گناہ نشے کی طرح میرے وجود میں پھیلا تھا۔ میں خوب خوب لطف اندوز ہوئی تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ میں بہت جلد توبہ کی طرف بڑھ جاؤں گی شاید اس بار کی توبہ پر استقامت بھی مل جائے مگر ابھی تو سرشاری شدید تھی اندر کا جوگی مست جھوم رہا تھا۔

بھولی تو میں روگی کو بھی نہیں تھی لیکن روگ سے جوگ مخفی تھا روگی کی راہ سے مسکرا مسکرا کر کانٹے چنتی اور جوگی کی راہ میں کھلکھلا کھلکھلا کر پھول نچھاور کرتی۔ ابھی تو نشہ سر چڑھ کر بولا تھا رومی کی مثنوی پر آنکھیں بند کیے جھومنا شروع کیا تھا مگر تبھی مجھے احساس ہوا وہاں میرا وجود تنہا ہے سوائے ایک سفید کاغذ کے وہاں کچھ نہ تھا جس کے شروع میں لکھا تھا پیارے اللہ بیچ میں سوائے آنسوؤں کی چند بوندوں کے کچھ نہ تھا اور آخر میں صرف ایک اٰمین۔ میں پھٹی آنکھوں سے وہ نامہ دیکھتی رہی۔ حواس جامد ہو گئے۔ یہ۔ یہ کیسے ہو گیا۔ آسمان کی طرف اٹھا میرا چہرہ بس ایک سوال تھا میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر کیوں برس گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments